"KDC" (space) message & send to 7575

کورونا وائرس سے سسٹم کو لاحق خطرات

کورونا وائرس نے 28 لاکھ سے زیادہ انسانوں کو ہدف بنا کر دو لاکھ کے قریب انسانی جانوں کا نقصان کیا ہے۔ پاکستان میں اب تک اس وبا کے متاثرین کی تعداد بارہ ہزار کے قریب ہے اور 250 کے قریب اموات ہو چکی ہیں ۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں اگرچہ وزیراعظم کی ایمانداری کی تعریف کی‘ لیکن حکومت کی کارکردگی پر انہوں نے وزیراعظم کو آئینہ دکھا دیا اور تاریخی جملہ ادا کرتے ہوئے قرار دیاکہ وزیر اعظم کے پاس اتنی صلاحیت نہیں کہ دس بندوں کا انتخاب کر سکیں۔ حکومت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزرا اور مشیروں کی فوج ہے ‘مگر کام کچھ نہیں کیا۔ مشیروں کو وفاقی وزرا کا درجہ دیا گیا اور کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا ہے۔ کابینہ غیر مؤثر ہو چکی ہے۔ وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے راستے اختیار کر رکھے ہیں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید سے یہ فقرہ بھی منسوب کیا گیا ہے کہ پہلی بار پاکستان کو ایماندار وزیراعظم ملا ہے‘ پاکستان کے پاس یہ آخری موقع ہے‘ بہتری نہ آئی تو نہ جانے کیا ہوجائے۔ اٹارنی جنرل‘ پاکستان کے صف اول کے قانون دان ہیں ۔ ان کا گھرانہ سیاسی طور پر محب وطن ‘ایماندار اور اصول پرستی کے حوالے سے معروف ہے۔ میرا اشارہ ممتاز سیاستدان این ڈی خان کی طرف ہے ‘ جبکہ محترمہ بیگم شمیم این ڈی خان کی قومی خدمات بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔اس پس منظر میں جناب خالد جاوید نے شہیدِ ملت نواب زادہ لیاقت علی خان سے لے کر 2018ء تک کے وزرائے اعظم کی کارکردگی کی نفی کر دی اور ملک کے مایہ ناز سیاستدان‘ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی ایمانداری کو بھی نظر انداز کر دیا‘ جن کی ایمانداری پر اپوزیشن آج تک ان کو خراجِ تحسین پیش کر رہی ہے۔ اٹارنی جنرل سے منسوب اس جملے نے پاکستان کی عوام میں ہلچل مچا دی اور سوشل میڈیا پر ان کے جملے کو تنقید کا نشانہ بنایا تو انہوں نے ایک ٹی وی چینل کے صحافی کو خط لکھ کر وضاحت کی کہ انہوں نے اپنے جملوں میں کہا تھا کہ بطور وزیراعظم عمران خان ایماندار انسان ہیں اور حکومت سنجیدگی سے کورونا وائرس سے نبرد آزما ہے۔ اٹارنی جنرل نے اپنے خط میں واضح کیا کہ نواب زادہ لیاقت علی خان سمیت اب تک جتنے بھی منتخب وزرائے اعظم آئے ہیں وہ ان کا احترام کرتے ہیں۔ میرے پاس اٹارنی جنرل کا خط موجود ہے جو انہوں نے ایک ٹی وی چینل کے صحافی کو لکھا تھا‘ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ اُس چینل نے اس خط کو بالکل نظر انداز کر دیا اور خبروں میں اس مؤقف کوپیش نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید نے وضاحت کی ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں کورونا وائرس سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران یہ نہیں کہا کہ عمران خان پاکستان کے پہلے ایماندار وزیر اعظم ہیں‘ بلکہ سپریم کورٹ کے ریمارکس کے جواب میں کہا تھا کہ حکومت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان ایک ایماندار آدمی ہیں اور آج تک کے تمام منتخب وزرائے اعظم یکساں عزت و احترام کے مستحق ہیں ۔
ملک کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے ‘جبکہ دوسری طرف کورونا وائرس تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اور حکومتی اقدامات کے باوجود اس کے پھیلنے کی رفتار کم نہیں ہوئی۔ متاثرین کی تعداد روز بڑھتی جا رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملکی معیشت کا برا حال ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار بند ہونے سے بے روزگار ہونے والے افراد کی مدد کے لیے حکومت اربوں روپے تقسیم کر چکی ہے‘ مگر ابھی بہت کم لوگ اس امداد سے استفادہ کر سکے ہیں۔ زیادہ مستحقین کی مدد کے لیے حکومت کو زیادہ فنڈز چاہئیں مگر قرضے دینے والے ممالک ‘اقوام متحدہ کی ایجنسیاں اور عالمی ادارے وزیراعظم کی اپیل کا مثبت جواب نہیں دے رہے کیونکہ حکومت کی اپوزیشن کے ساتھ کیمسٹری نہیں مل رہی اور ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی اس وبا کے باوجود جاری ہے‘ جبکہ وزرا ء اشتعال انگیزی سے حالات کو خراب سے خراب تر کرتے جارہے ہیں اور حکمران جماعت میں دھڑے بندی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ ان حالات میں قرضہ دینے والی ایجنسیاں پاکستان کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حکمران جماعت کے ارب پتی ارکانِ پارلیمنٹ نے بھی وزیراعظم کے فنڈز میں قابلِ ذکر عطیات جمع نہیں کروائے اور وزیراعظم سمیت تمام صاحبان ثروت سیاسی رہنمائوں‘ جنہوں نے اپنے اربوں روپے کے اثاثے الیکشن کمیشن میں ریکارڈ کے طور پر دیئے تھے‘ کی جانب سے بھی خاطر خواہ عطیات سامنے نہیں آئے ۔ یہ لوگ ریاست مدینہ کے اصولوں کو بروئے کار لانے کے دعوے کرتے ہیں‘ حالانکہ ریاستِ مدینہ کی مثال کو سامنے رکھیں تو ایثار کا یہ عالم تھا کہ جب جنگِ تبوک کے موقع پر رسولﷺ نے صحابہ کرام کو عطیات کا حکم فرما یا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ تمام مال عطیہ کی صورت میں پیش کر رہے تھے ‘ جس پر آپ ﷺنے استفسار کیا کہ ابوبکر ؓگھر میں اہل و عیال کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں نے دکھ اور آزمائش کی اس گھڑی میں بھی قوم کو مایوس کیا ہے۔ان مشکل حالات میں غیر ملکی پاکستانیوں سے عطیات کی امید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ وہ بھی ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہیں؛تاہم پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے قوم کو ریلیف فراہم نہ کر کے آئندہ کے انتخابات کے حوالے سے خود پر عوام کے دروازے بند کرلیے ہیں۔اب یہ کس منہ سے عوام کے دروازوں پر ووٹ مانگنے جائیں گے؟اور اگر گئے تو اس کا ردعمل بھلا کیا ہو گا؟
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کابینہ کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور واضح کردیا ہے کہ وفاقی کابینہ پر مشیروں اور معاونین کا قبضہ ہے اور ان کی تقرریوں اور مراعات کو آئین کے مطابق دیکھا جائے گا۔ عدالت نے اگلی سماعت پر ان کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا اور اختیارات کے بارے میں فیصلہ آنے کی توقع بھی ہے۔ یاد رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ 13اپریل کو صوبائی کابینہ میں شامل معاونین خصوصی کا نوٹیفکیشن کالعدم کرنے کا حکم دے چکی ہے۔اس فیصلے کے تحت معاونین خصوصی ارباب عمرفاروق‘ اعجازسنجرانی‘ عبدالخالق اچکزئی‘ میر رامین محمد حسنی‘ حسنین ہاشمی اور آغاشکیل درانی کی تقرری غیرآئینی قرار دی گئی ۔ گزشتہ برس پشاور ہائی کورٹ نے بھی صوبائی مشیران اور معاونین کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا تھا‘تاہم بعدازاں بینچ نے ان کو بحال کردیا تھا۔ قارئین کی رہنمائی کیلئے مشیران اور معاونین کے بارے میں ماضی کی حکومتوں کے طر زعمل کا حوالہ پیش کر تا چلوں کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے مشیر ان کی تعدادپانچ تھی‘ وہ باقاعدہ حلف یافتہ تھے ‘سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق نے درجن سے زائد مشیران مقرر کیے تھے‘ لیکن ان کو گریڈ 19 اور گریڈ 20 کی مراعات حاصل تھیں جن میں ان کے دامادشعیب صدیقی بھی شامل تھے۔ مشیران ومعاونین کو وفاقی وزیر کا درجہ دینے کی روایت گزشتہ حکومت نے شروع کی تھی‘ حالانکہ اس سے قبل یوسف رضا گیلانی کے مشیر ان کی تعداد بھی آئین کے مطابق تھی اور صدر آصف علی زرداری کے مشیران کو ایک ایک لاکھ روپے کے لگ بھگ تنخواہ دی جاتی تھی۔
قوموں پر جب کوئی مشکل وقت آتا ہے تو حالات کی سنگینی کا مقابلہ کرنے کیلئے تمام مکاتب فکر کے لوگ اپنے ذاتی و گروہی اختلافات اور رنجشیں فراموش کرکے اکٹھے ہوجاتے ہیں اور اجتماعی سوچ کے ذریعے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرکے باہمی مشاورت سے بحران سے نکلنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اس وقت پاکستان بھی کورونا وائرس کی ہلاکت خیز وبا کا شکار ہے‘ جس پر قابو پانے کیلئے اتحادو یکجہتی کی ضرورت ہے‘ مگر اس نازک موقع پر عوام کی سیاسی قیادت کرنے والی پارٹیوں میں فکری عمل کی یکسانیت نظر نہیں آتی۔ اس کے گہرے اثرات پڑیں گے اور آئین کے خاموش آرٹیکل کا سہارا لینا پڑے گا۔عدالت کے اہم ریمارکس یہ تھے کہ کورونا وائرس سے ہمارے نظامِ حکومت کو بھی خطرات لاحق ہوتے جارہے ہیں اور صدرِ مملکت کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنا چاہیے۔ اس طرح یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ غیر منطقی اور غیر حلف یافتہ مشیران اور معاونین خصوصی کے ذریعے حکومت چلانے کا عمل عدالتِ عظمیٰ کے نوٹس میں آ چکا ہے اور دُہری شہریت کے حامل مشیران اور معاونین کا معاملہ بھی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں