"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کے اشارے

حالیہ تاریخ میں ''گلوبل ولیج‘‘ پر کبھی ایسی افتاد نہ پڑی تھی جو اس وقت کورونا کی صورت میں دنیا بھر کو کم و بیش مفلوج کیے ہوئے ہے اور ابھی اس کے ٹلنے کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ روزانہ سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ وہ قومیں جو خود کو ترقی کی معراج پر خیال کرتی تھیں‘ وہاںکورونا کے باعث پونے تین لاکھ کے لگ بھگ ہلاکتیں ہو چکی ہیں‘ جبکہ متاثرین کی تعداد بھی38 لاکھ سے تجاوزکر چکی ہے۔ ہم تو ابھی ترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتظامی ناکامی کے نتائج یہاں کیا برآمد ہو سکتے ہیں۔ یہ سب حالات اس امر کے درست ہونے کی نشان دہی کر رہے ہیں جو آنے والے دنوں‘ خصوصاً مئی کے وسط اور جون کے مہینے میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں دنیا کی معیشت بھی بد ترین مندی کا شکار دکھائی دے رہی ہے، اس کا واضح اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ خام تیل تاریخ میں پہلی بار منفی کی سطح پر چلا گیا تھا‘ جس کے امریکی سٹاک مارکیٹس پر بھی شدید منفی اثرات پڑے ہیں۔ تیل کی کھپت میں کمی کی بنیادی وجہ دنیا بھر میں ہونے والا لاک ڈاؤن ہے‘ کیونکہ نہ صرف انڈسٹری اور گاڑیاں بڑی حد تک رک چکی ہیں بلکہ دنیا بھر کی فضائی کمپنیاں بھی قریب ایک ماہ سے بندش کا شکار ہیں۔ تیل کی کھپت میں اس حد تک کمی واقع ہو چکی ہے کہ اب امریکہ کے پاس مزید تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی نہیں رہی؛ چنانچہ حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ عصرِ حاضر میں تیل کی اہمیت کے باوجود ٹوٹنے والے کورونا وائرس کے قہر نے پوری دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پوری دنیا میں کاروباری مراکز اور تجارتی سرگرمیاں بند ہو چکی ہیں‘ جس کے نتیجے میں بے روزگار کا ایک سیلاب پیدا ہو رہا ہے۔ تیل کی صنعت کے ان ''سستے دنوں میں‘‘ پاکستان جیسے ممالک‘ جو درآمدی تیل پر انحصار کرتے ہیں‘ کچھ تیل خرید کر سٹور کر سکتے تھے‘ لیکن یہاں بد قسمتی سے چالیس سال سے کرپٹ اور نا اہل حکومتیں باری باری آتی جاتی رہی ہیں جو پٹرول اور ڈیزل کو ذخیرہ کرنے کے لیے معیاری ٹینک بنانے سے بھی عاری تھیں؛ چنانچہ آج کے جدید دور میں بھی ہمارے ہاں چند روز کا پٹرول جمع کرنے سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس معاملے میں موجودہ حکمران بھی پہلے والوں سے چنداں مختلف نہیں اور یہاں کورونا کے باعث پہلے سے دگرگوں صحت اور معیشت کے حالات مزید ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر ماضی کی حکومتوں میں عقل و دانش اور مناسب منصوبہ بندی کی صلاحیت ہوتی اور وہ پٹرول کے ذخائر کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرتیں تو آج سستے داموں تیل خریدتے اور اس طرح تیل کی مد میں بعد ازاں تجارتی خسارہ برداشت نہ کرنا پڑتا۔ بہر کیف وزیر اعظم عمران خان کو کوشش کرنی چاہیے کہ سستے تیل کے سنہری موقعے سے جتنا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے‘ اٹھایا جائے۔ یہ بات حکمرانوں کے مد نظر رہنی چاہیے کہ بحران اپنے اندر بہت سے مواقع بھی رکھتے ہیں جن سے فائدہ اٹھانا ہی دانش مندی ہے۔ انہیں یہ ادراک بھی ہونا چاہیے کہ سیاسی بے چینی اور عدم استحکام ہمارے لیے چیلنجز بن کر آ رہے ہیں اور ہماری سیاسی قوتوں کے لیے ان سے نبرد آزما ہونا اس لئے مشکل ہو گا کہ معیشت کو سنبھالنے کے لیے جو ضروری اور ہنگامی فیصلے کرنا ناگزیر ہیں ان کے لیے پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت نہیں ہے۔
ان حالات سے کس طرح نمٹنا ہے‘ اس کے لیے ایک متفقہ قومی لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا‘ لیکن موجودہ مشکل حالات میں کوئی قومی لائحہ عمل ترتیب دینا اور اپوزیشن کی سیاسی قوتوں کو شریک کر کے اس پر عمل درآمد سے پہلے شاید کچھ اور بھی فیصلے کرنا پڑیں۔بظاہر اس وقت سسٹم مفلوج نظر آتا ہے جبکہ کورونا وائرس ریاست کے لیے غیر معمولی خطرہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم اور ان کی کابینہ بشمول غیر حلف یافتہ مشیران‘ میں ہم آہنگی کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔ ہنگامی مالی معاونت اور سہولتوں کو مستقبل کی معاشی بہتری کا ذریعہ بنانے کے لیے کھلے ذہن اور نئی سوچ کے ساتھ معاشی حکمت عملی مرتب کرنے کی صلاحیت ہمارے ٹیکنوکریٹس اور مشیران میں شاید باقی نہیں رہی۔ کیا ان کے مستقبل کا فیصلہ بھی عدالت کو ہی کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے یہ ٹیکنوکریٹس پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے محروم ہو چکے ہیں‘ ان کی انتظامی معاملات پر گرفت کمزور پڑ چکی ہے اور ان کے ماتحت عملے نے حالات اور جاری معاملات سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے‘ جس سے ریاستی نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ میں بیوروکریسی کے 35 سالہ تجربے کی بنیاد پر بڑے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ جب اختیارات کے حامل کمزور ہو جائیں یا ان کے سیاسی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہو تو ملک کے انتظامی‘ مالیاتی اور دوسرے معاملات شدید طور پر مجروح ہو جاتے ہیں اور گھڑیال کی سوئیاں ٹھہر جاتی ہیں۔ چند تاریخی حوالے دے کر معاملے کا صحیح رخ پیش کر رہا ہوں: کراچی کے ایٹمی پلانٹ پر حملے کے بعد صدر ایوب خان کی حکومت پر سے گرفت کمزور پڑ گئی تھی اور مشرقی پاکستان میں صنعتی اداروں کو نذرِ آتش کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جنرل یحییٰ خان کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ ملک سے فرار کے راستے جنرل گل حسن نے محدود کر دیے تھے اور نواب اکبر بگٹی نے بتایا تھا کہ جنرل یحییٰ خان ایران فرار ہونا چاہتے تھے‘ لیکن ایئر مارشل رحیم نے ائیر پورٹ بند کر دیا تھا۔ تب نظریۂ ضرورت کے تحت اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے سپردکرنا پڑا۔ اسی طرح جب مسٹر بھٹو قومی اتحاد کی تحریک کے آگے بے بس ہو گئے تو ان کی وفادار بیوروکریسی اور وفادار چیف آف سٹاف جنرل ضیاالحق کے آگے مسٹر بھٹو گھٹنوں کے بل گر پڑے اور یہ سلسلہ تاریخ کا حصہ بنتا چلا گیا۔ صدر غلام اسحاق خان سے لے کر صدر پرویز مشرف کی مثالیں موجود ہیں۔
کورونا وائرس کے اثرات کے ازالہ کے لیے جو بین الاقوامی سازشی تھیوریاں پھیلائی جا رہی ہے اور تیسری دنیا کے ممالک میں معاشی اور سیاسی بحرانوں سے پیدا ہونے والی صورت احوال جو بھی ہو سکتی ہیں‘ انہیں نظر انداز کرنا یا ان کی ابھی سے پیش بندی نہ کرنا ریاست کے مفاد میں نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد بڑی دانش مندی‘ جرأت اور استقلال کے ساتھ ملک کے مستقبل کے بارے میں آبزرویشن دے رہے ہیں‘ تاہم حکومتیں یہ سمجھنے میں ناکام ہو چکی ہیں اور عوام کا حکمرانوں پر عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔ کورونا کے وبائی بحران نے پاکستان کے پارلیمانی طرزِ حکومت کا بھرم کھول دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حکومتی وزرا بھی وزیر اعظم کی بے بسی کا مذاق اڑا رہے ہیں‘ جبکہ قیامت کی اس گھڑی میں پارلیمنٹ کے ارکان کی عوام سے وابستگی نظر نہیں آ رہی۔ الیکشن کے ایام میں ووٹر لسٹ ہاتھ میں پکڑے پھرتے ہیں، ووٹر کی گلی، مکان ہر چیز معلوم ہوتی ہے۔ یہ بھی جاننے ہیں کہ اس کے گھر میں کتنے بالغ مرد‘ کتنی خواتین‘ کتنے بزرگ اور کتنے دیگر افراد ہیں۔ ووٹروں کی معاشی حالت بھی پتہ ہوتی ہے۔ پولنگ سٹیشن تک لانے کے لیے سواری بھی مہیا کرتے ہیں۔ پولنگ سٹیشن پر کیمپ آفس بھی بنائے جاتے ہیں اور وہاں انہیں کھانا بھی کھلایا جاتا ہے‘ مگر پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بعد‘ اس معزز ایوان کے گیارہ سو کے لگ بھگ ارکان کی کارکردگی گہری کھائی میںکیوں لڑھک جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب بڑی سوچ بچار کے باوجود نہیں مل سکا ہے۔ اندرونِ ملک یکجہتی اور بیرون ملک ساکھ کے سب نشان ختم ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے انتخابی سسٹم کے فارمولا پر گرینڈ مذاکرات کا آغاز کرتے ہوئے اس سال ستمبر تک کوئی مناسب فیصلہ کیا جائے تاکہ حالات کو ہاتھوں سے نکلنے سے بچایا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں