"KDC" (space) message & send to 7575

کورونا اور اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کا معاملہ

کورونا وائرس کی وبا کا مرکز یورپ منتقل ہونے کے ساتھ ہی اس خطے کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے اور یورپی اتحاد کے تمام برج ٹوٹنے کے قریب ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی یکجہتی اور تعاون کی سب سے زیادہ ضرورت ہے یورپی ریاستیں اپنی سرحدیں بند کر چکی ہیں اور امداد روک رہی ہیں۔ دوسری جانب موجودہ بحران کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف یورو کے بلکہ یورپی یونین کے ٹوٹنے کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔ ماہرین کے مطابق ماضی کے کسی بھی بحران نے اس عالمی تنظیم کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا لیکن آج کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے صحت‘ سلامتی‘ معاشی اور معاشرتی شعبوں میں بین الاقوامی ڈھانچے کو ناکارہ بنا دیا ہے اور اس عالمگیر واقعے نے بین الاقوامی نظام کی کمزوریوں کو پہلے سے کہیں زیادہ بے نقاب کر دیا ہے۔
آج بین الاقوامی برادری پر نظر دوڑائیں تو ہر جانب سماج کی بنیادوں کو ہلا دینے والے معاشی بحران کے ساتھ ایک سیاسی ہلچل بھی نظر آتی ہے۔ برطانوی سماج میں 400 سال بعد بڑی اہم سیاسی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں اور بہت سے سنجیدہ ماہرین کے مطابق فرانس‘ اٹلی اور جرمنی سمیت دنیا کا کوئی ملک بھی اہم ترین سیاسی تبدیلیوں سے محفوظ نظر نہیں آرہا اور سماجی‘ معاشرتی‘ مذہبی زلزلے ہر جانب سے چلے آرہے ہیں‘ جو اس نظام کے بوسیدہ اداروں نام نہاد جمہوریتوں اور مالیاتی اداروں کو زمین بوس کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں خود امریکہ میں جو اس نظام کا محافظ ہے اور سب سے بڑا مضبوط ستون ہے وہاں بھی اس نظام کا شیرازہ بکھرنے کی راہ نکل رہی ہے اور سیاسی اور معاشی میدانوں میں اس تبدیلی کا اظہار مختلف واقعات کی شکل میں ہو رہا ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کا موقف ہے کہ کورونا وائرس انسانی ساختہ نہیں ہے؛ تاہم امریکہ اس وبائی مرض کے پھیلنے سے ہونے والے مالی نقصان کا چین سے ہرجانہ طلب کرے گا۔ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے چین کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور چین اس جارحانہ معاشی اقدامات کا مؤثر جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ اس لیے عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وائرس کی اس جنگ سے سرحدیں تبدیل ہونے کے امکانات موجود ہیں اور پاکستان عالمی معاہدوں کی وجہ سے امریکی پالیسی ساز اداروں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ لاک ڈاؤن کے مسئلہ میں حکومت شروع دن سے ہی یو ٹرن والی حکمت عملی کا شکار ہے۔ کورونا وائرس کے مقابلہ کیلئے صوبے ان کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے اس بیان کہ 'لاک ڈاؤن اشرافیہ نے کرایا ہے‘ پاور بروکرز کے حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑا دی ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو اعتماد میں لیے بغیر کون سی اشرافیہ نے یہ کرایا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے اختیارات ان کے اپنے صوبے تک ہی محدود ہیں اور ان کی ساری حکمت عملی کراچی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اندرون سندھ میں ان کو کورونا وائرس کیا نظر نہیں آ رہا؟ عدلیہ ان کی کارکردگی پر ریمارکس دے چکی ہے جس سے قابلیت‘ حکمت عملی اور پلاننگ کا پول کھل گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے بارے میں بھی عدالت نے کورونا وائرس کی پالیسی کے حوالے سے عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ڈاکٹر ظفر مرزا کو برطرف کرانے کا اشارہ دیا تھا۔ ان حالات میں وزیر اعظم کورونا وائرس کے مقابلے کے حوالے سے جو فرمان جاری کرتے ہیں ان پر کہیں عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ پنجاب‘ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں کچھ اور ہو رہا ہوتا نظر آتا ہے اور سندھ میں کچھ اور۔ اس لیے یہ تاثر گہرا ہو گیا ہے کہ ریاستی امور میں حکومت کی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان پر گزشتہ دنوں مہلک وائرس کا شدید ترین وار ہوا اور ایک ہی دن میں 56 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ مجموعی ہلاکتیں 834 ہو چکی ہیں اور نئے مریضوں کی تعداد انتالیس ہزار کے لگ بھگ ہو گئی ہے‘ لیکن اس عالمی مرض کا مقابلہ کرنے کی موثر حکمت عملی کے ذریعے کوئی پائیدار پالیسی مرتب کرنے کے بجائے ہمارے حکمران اور اپوزیشن جماعتیں دونوں اٹھارہویں ترمیم اور قومی احتساب بیورو کے اختیارات کم کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم میں مزید ترمیم کے لیے حمایت کے حصول کی کوششیں گزشتہ ماہ سے جاری ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم نے فیڈریشن کے لیے کئی اہم مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ صحت اور تعلیم کے اختیارات صوبوں کو دے کر ان دونوں اہم شعبوں کا معیار خراب کر دیا گیا ہے کیونکہ اس طرح ہر صوبے نے اپنی راہ متعین کر رکھی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم سے وفاق کے حقوق کم ہو گئے ہیں۔ کئی اختیارات صوبوں کو دے دیئے گئے‘ جس کی وجہ سے ریاست اور شہریوں کے بنیادی حقوق اور دیگر معاملات میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اور حکومتی عزائم کو دیکھتے ہوئے نظر آرہا ہے کہ کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کے دوران ہی یہ ترمیم ہو جائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن بھی یہی چاہتی ہے کہ فیڈریشن مضبوط ہو‘ اس لئے لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ان سب کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس مقصد کیلئے نواز شریف کی سزا ختم کرانے کے لیے قومی احتساب بیورو کے اختیارات کم کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ اسلام آباد کے حلقوں میں چند روز سے خبریں گردش کر رہی ہیں کہ جس حکمت عملی کے تحت آرمی ایک 2020 منظور ہوا تھا اسی طرح پارلیمنٹ کے اجلاس میں مخصوص حکمت عملی کے تحت اٹھارہویں ترمیم میں مزید ترامیم کرائی جائیں گی۔ ایسا ہوا تو پاکستان کی سیاست کا رخ تبدیل ہو جائے گا اور نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ مریم نواز‘ شاہد خاقان عباسی اور دیگر اہم راہنمائوں‘ جو ان دنوں ضمانتوں پر رہا ہیں‘ کی سزائیں موقوف ہو جائیں گی اور ممکنہ طور پر نواز شریف کی تاحیات نااہلی کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔ اٹھارہویں ترمیم میں مزید ترمیم کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 58 بی کے بحال ہو جانے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ ویسا منظر سامنے آرہا ہے جیسا دسمبر دو ہزار میں نظر آیا تھا‘ جب نواز شریف کو سعودی عرب بھجوایا گیا تھا تو لبنان کی اہم شخصیات نے معاہدہ کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح اب پاکستان کے اپنے اہم بزنس ٹائیکون‘ جو جنرل پرویز مشرف کے دست راست رہے ہیں‘ کی وساطت سے اٹھارہویں ترمیم کا مسودہ ان کی رہائش گاہ پر ملک کی بااثر سیاسی شخصیت کے ساتھ زیر بحث آ چکا ہے اور کورونا وائرس کے مزید پھیلاؤ سے ملک میں خوف و ہراس کی جو فضا قائم ہے‘ اسی میں اٹھارہویں ترمیم میں اہم ترمیم کا مسودہ بآسانی منظور کر لیا جائے گا۔ اٹھارہویں ترمیم میں ممکنہ اہم ترمیم میں صدارتی اختیارات کی بحالی بھی شامل ہے۔ دانشور طبقہ محسوس کر رہا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی چند ہفتوں سے بہت زیادہ سرگرم ہیں۔ انہوں نے اپنی ذہانت اور قابلیت سے مذہبی حلقوں‘ میڈیا اور ملک کے فلاحی اداروں جن میں اخوت فاؤنڈیشن اور سیلانی عالمگیر ٹرسٹ شامل بھی شامل ہیں‘ کی حمایت حاصل کرلی ہے‘ اور سردار فاروق لغاری (سابق صدر پاکستان) کی پالیسی کے عین مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کورونا وائرس کے بارے میں مشورے دینے بھی شروع کر دیئے ہیں۔ صدر مملکت نے پارلیمنٹیرینز کو خط لکھا ہے‘ جس میں انہیں لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کی تلقین کی گئی ہے جیسا کہ وزیر اعظم بھی نوجوانوں کو اسلامی تہذیب کا درس دے رہے ہیں۔ بعض لوگ اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی سے وفاق خطرے میں پڑ جائے گا جو زمینی حقائق کے برعکس ہے جبکہ سننے میں آیا ہے کہ آصف علی زرداری اپنے دست راست معاون کے ذریعے اٹھارہویں ترمیم میں مناسب ترامیم کے لیے رضامندی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ایک اہم اجلاس میں ان کے معاون خصوصی نے شرکت کی تھی۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صدر مملکت کو با اختیار بنایا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں