"KDC" (space) message & send to 7575

تبدیلیوں کے آثار

سیاسی جماعتوں کی طرف سے ممکنہ یا ماضی کے تناظر میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کا آئندہ ازالہ ہونے کی تناظر میں وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی کی پیش کردہ تجاویز پر مبنی رپورٹ کی منظوری دے دی ہے۔ اس رپورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے طریقہ کار میں تبدیلی، انتخابی نتائج کی بروقت ترسیل و اعلان، سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات سے چار ماہ قبل الیکشن پلان کو حتمی شکل دینا، حلقہ بندیوں کے وقت‘ امیدواروں کے ایجنٹوں کی تعداد کا تعین، انتخابی اخراجات اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ سے متعلق نکات سرفہرست ہیں۔ ان تجاویز کو عملی شکل دینے اور ان پر عمل درآمد موثر بنانے کے لیے قانون میں ترامیم کی جائیں گی۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے تعیناتی کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا یہ دوسرا بڑا اور اہم اقدام ہے جو 2023 میں ہونے والے انتخابات کے پرامن اور منصفانہ انعقاد کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ منصفانہ اور پُرامن انتخابات کا شیڈول کے مطابق بر وقت انعقاد پائیدار جمہوری نظام کی روح ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک ملک میں تیرہ الیکشن ہو چکے ہیں اور اسے بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہر مرتبہ اس کے منصفانہ ہونے پر انگشت نمائی ہوئی جبکہ گزشتہ ادوار میں حلقہ بندیوں‘ پولنگ ایجنٹوں کے تعین‘ انتخابی اخراجات‘ پولنگ کے اوقات کار اور گزشتہ الیکشن میں بیرون ممالک پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے سے متعلق سیاسی حلقوں میں بے چینی پائی جاتی رہی ہے۔ ماضی میں عام انتخابات کے انعقاد کے بعد دھاندلی کے نام پر ملک میں جو حالات پیدا ہوئے یا پیدا کئے جاتے رہے اس سے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں ان مسائل کے حل پر کسی بھی دور میں کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی نظر نہیں آئی۔ اب ضروری ہو گا کہ قانون سازی کا عمل بر وقت مکمل ہو تاکہ اس کے مطابق اگلے انتخابات کے لئے مناسب اور جامع منصوبہ بندی ممکن ہو سکے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا اس پر تعاون ناگزیر ہے۔ میں نے انتخابی اصلاحات کا مجوزہ پلان 24 مارچ کو وزارت پارلیمانی امور کو پیش کیا تھا جس میں تجویز دی گئی تھی کہ حلقہ بندیوں کے موجودہ فارمولا کو تبدیل کر کے انتخابی فہرستوں سے منسلک کر دیا جائے۔ اس طرح مردم شماری کے سیاسی گرداب سے نجات مل جائے گی اور قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا تعین ووٹرز فہرستوں کی بنیاد پر کرنے سے صوبوں میں مساوی انتخابی عمل شروع کرنے میں مدد ملے گی۔ میری یہ تجویز وزارت پارلیمان میں زیر غور ہے۔ اسی طرح میں نے 11 مارچ 2009 کو بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان و چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیشن‘ تجویز پیش کی تھی کہ سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے ممکنہ الزامات کے ازالے کے لیے سینیٹ کے انتخابات شو آف ہینڈز کے ذریعے کرائے جائیں یا پھر وہی طریقہ اختیار کیا جائے جو وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر اپنایا جاتا ہے۔ یہ تجویز بھی منظور ہونے کے بعد اس وقت قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی میں زیر غور ہے۔ اب 39مجوزہ ترامیم وزیر اعظم پاکستان نے منظور کی ہیں۔ یہ وہی تجاویز ہیں جو میں نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے گاہے بگاہے حکومت کو بھجوائی تھیں۔ اپنی تجاویز میں نے چیف الیکشن کمیشن کو بھی پیش کی تھیں۔ حکومت پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر سے مشاورت کے بعد سینیٹ کے سیکرٹری ڈاکٹر نذیر اختر کو سیکرٹری الیکشن کمیشن مقرر کر دیا ہے جو الیکشن کمیشن کے اثاثہ ثابت ہوں گے کیونکہ ان کا انتخابی امور‘ آئین و قانون اور انتظامی امور کا وسیع تجربہ ہے۔ اسی طرح آڈٹ جنرل آف پاکستان کے ایڈیشنل آڈیٹر جنرل منظور ملک کو بھی ایڈیشنل سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے جو آڈٹ، مالیاتی امور کے ماہر ہیں۔ اب وہ اپنی نگرانی میں سیاسی جماعتوں کے اثاثہ جات‘ پارلیمان کے ارکان کے مالیاتی گوشواروں پر گہری نظر رکھیں گے اور پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے جو فارن فنڈنگ کیس زیر سماعت ہیں ان پر اپنی ماہرانہ رائے دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ان اہم تبدیلیوں کے بعد الیکشن کمیشن بیسٹ ورلڈ ڈیموکریسی والے ممالک کے الیکشن کمیشنوں کی صف میں کھڑا ہو گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کی ناکامی پر سخت نا گواری کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مکمل انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا ہے‘ جو درست نظر آرہا ہے۔ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کی ناکامی کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور اب تک اس بارے میں کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اب یہی تجویز پیش کی جانی چاہیے کہ آئندہ انتخابات میں غیر ملکی اداروں سے فنڈز کی بنیاد پر پروجیکٹ بنوانے سے گریز کیا جائے۔ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں غیر ملکی سوچ کے حامل ایسے منصوبے ناکام ہو گئے اور غیر ملکی ادارے اپنا مفاد حاصل کرنے کے بعد ایک طرف ہو گئے‘ نقصان پاکستان کا ہوا۔
اب تھوڑی سیی بات ملک کے سیاسی منظر کی۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن مقتدر حلقوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہی ہے اور اس نے مخصوص حکمت عملی کے تحت عوام میں اور مقتدر حلقوں میں‘ دو شاخیں کھول رکھی ہیں اور پیپلز پارٹی سے بظاہر دوری اختیار کئے ہوئی ہے۔ کچھ اور خبریں‘ یا افواہیں بھی سننے میں آ رہی ہیں‘ جیسے یہ کہاب اگر مسلم لیگ ق وزیر اعظم سے قومی احتساب بیورو کے حوالے سے مطمئن نہیں ہوتی تو جون میں پنجاب میں کچھ مختلف صورتحال سامنے آ سکتی ہے۔ کوئی سیاسی طوفان برپا ہو سکتا ہے یا معاملات سیاسی آندھیوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی معاملات کا سامنا سندھ کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ یوں پنجاب اور سندھ کی سیاست کا رخ تبدیل ہو جائے گا اور وفاق میں بھی تبدیلی کے موثر اقدامات سامنے آ جائیں گے۔ مقتدر حلقے بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں کسی ممبر نے اپنے حلقے‘ اپنے ووٹر کے مسائل‘ مشکلات اور حساس پروگرام کے تحت 70 ارب روپے کی تقسیم کی شفافیت اور طریقہ کار پر اظہار خیال نہیں کیا اور ووٹروں کو بے رحم موجوں کے حوالے کر کے اپنے گھروں کی راہ لی۔
کورونا وائرس کے حوالے سے پاکستان میں قرنطینہ مراکز میں مریضوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے‘ ہمارے اداروں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے۔ کورونا کی وجہ سے امریکہ اور چین کے تعلقات میں محاذ آرائی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سعودی عرب کو کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ بعض اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ہمیں ایسے مسائل اور اختلافات سے بچنے کی ضرورت ہے۔شہزاد اکبر صاحب نے شریف برادران پر جو الزامات عائد کئے ہیں اس کے بعد قوم کا اعتماد سیاستدانوں پر سے اٹھ گیا ہے اور ریاست کا نظام ایسے نااہلوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے جن کا قوم کو معلوم ہی نہیں کہ ان کی جڑیں کن ممالک سے جڑی ہوتی ہیں۔ وزیر اعظم کو اپنے ارد گرد موجود معاونین کے بارے میں جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے۔ جب میں نے گورنمنٹ سروس کا آغاز کیا تھا تو پبلک سروس کمیشن سے کلیئر ہونے کے بعد انیس سو ستر سے 71 تک مختلف ایجنسیاں تحقیقات کرتی رہیں اور ایک سال تک جانچ پڑتال کرنے کے بعد کلیئرنس ہوئی۔ اب جن کو معاونین مقرر کیا جا رہا ہے ان کے شجرے، حسب و نسب کا کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے۔ ان حالات میں ریاست مفلوج ہوتی نظر آرہی ہے۔ ادھر اٹھارہویں ترمیم میں مجوزہ مزید ترامیم کے لئے تمام اپوزیشن سے مہر تصدیق ثبت بھی کروا لی گئی ہے۔ اچانک فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ پنجاب اور سندھ میں ممکنہ تبدیلیوں کے ملکی سیاست پر اثرات بڑے گہرے مرتب ہوں گے۔ چودھری برادران حکومتی اتحاد سے باہر آنے کا سوچ رہے ہیں؛ چنانچہ پنجاب میں بجٹ سے پہلے ہی کوئی جھکڑ چل سکتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے معاونین نے ان کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ دوسری جانب سننے میں آیا ہے کہ عید کے بعد مذہبی جماعتیں قادیانیوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کے خلاف تحریک شروع کرنے والی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں