"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت کی پائیداری کا راز

کورونا وائرس کے حوالے سے چین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل نے گزشتہ ہفتے جرمنی کے سفارت کاروں سے خطاب کیا‘ جس میں اگرچہ تجزیہ کاروں کے طویل عرصے سے ظاہر کیے گئے اندازوں کا حوالہ دیا گیا‘ مگر بہت سے دانشوروں‘ جن کی نظریں گلوبل ورلڈ پر لگی رہتی ہیں‘ کو اس میں صدیوں پہلے ابن خلدون کے پیش کردہ نظریے کی تفصیل نظر آئی۔ مسلم اُمہ کے نامور تاریخ دان ابن خلدون نے اپنی شہرہ آفاق کتاب کے مقدمہ میں لکھا تھا کہ بڑی سے بڑی ایمپائر کی عمر بھی 120 سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ یورپی یونین کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ شواہد عالمی طاقت کے طور پر چین کے امریکہ کی جگہ لینے کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کو چین کے حوالے سے مضبوط پالیسی بنانا ہو گی اور اپنے مفادات و اقدار کو سامنے رکھنا اور کسی کا آلہ کار بننے سے بچنا ہو گا۔ جوزف بوریل کے اس بیان کو کورونا وائرس سے جنم لینے والے مسائل اور عالمی سماجی‘ معاشی اور سیاسی امور پر اس کے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلی کا اشارہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسے عالم میں امریکہ اور چین کی تجارتی مسابقت اور گزشتہ برسوں میں ایک دوسرے پر پابندیاں لگانے کی مشق‘ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد الزامات اور جوابی الزامات سے آگے بڑھ کر سرد جنگ کی صورت اختیار کرتی محسوس ہو رہی ہے۔ ان حالات میں امریکہ اور چین‘ دونوں ممالک سے اچھے تعلقات رکھنے اور کئی امور میں ان پر انحصار کرنے والے ممالک خصوصاً پاکستان کو احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا۔ چین پاکستان کا ہمسایہ‘ سی پیک منصوبے کا شراکت دار اور مشکل وقتوں کا آزمودہ دوست ہے‘ جس نے کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوششوں میں جدید آلات اور ٹیکنالوجی سمیت ہر طرح کے وسائل سے پاکستان کی مدد کی ہے۔ دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد طویل عرصے تک دفاعی معاہدوں کا ساتھی اور منگلا اور تربیلا ڈیم سمیت متعدد منصوبوں میں معاونت کرنے والا اور طویل عرصے تک کی رفاقت کا حامل ملک امریکہ ہے جس کے ساتھ افغانستان کی موجودہ آتش فشانی صورت حال کو امن و آشتی کی راہ پر لانے میں پاکستان کا مؤثر کردار ہے۔ پاکستان 1954ء سے ایک سرد جنگ اور دہشت گردی سمیت سلامتی کے بنیادی مسائل کی سختیاں جھیل چکا ہے‘ اس کیلئے نہ چین کی بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی اور غربت دور کرنے کی کوشش نظر انداز کرنا ممکن ہے نہ ہی سپر پاور کہلانے اور مالیاتی وسائل اور ٹیکنالوجی کے حامل ملک امریکا سمیت باقی دنیا سے الگ رہنا مناسب ہے۔ پاکستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ان کے درمیان معاشی اور دیگر امور کی سنگینی کے علاوہ قومی بقا‘ سلامتی اور استحکام کا مسئلہ یقینا اہم ہے۔
بھارتی پالیسیوں کے پیش نظر اس وقت قومی سلامتی کا مسئلہ اولین ترجیح رہے گا اور ہونا بھی چاہئے۔ بھارت کو پاکستان سے جنگ کے لئے بہانے تراشنے‘ مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت بڑھانے‘ نہتوں کی گرفتاریوں اور لداخ میں چین سے جھڑپیں اور نیپال سمیت ہر پڑوسی کے معاملات میں دخل اندازی کا خبط ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کی امن پسند اقوام اور انسان دوست حلقوں کی حمایت سے مظلوموں کے حقوق اور تمام ملکوں کی خود مختاری کے احترام کیلئے متعلقہ اداروں کو متحرک کیا جائے جبکہ کورونا کے بعد ابھرنے والے نئے عالمی نظام میں احتیاط اور تدبر کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی بقا‘ ترقی اور خوش حالی کے مفاد میں فیصلے کرنا ہوں گے اور اسی مناسبت سے ترجیحات کا تعین کرنا کیا جائے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
ان دنوں کورونا نے عالمی آفت بن کر جس طرح پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے اس میں امریکہ جیسی سپر پاور کا عالمی کردار تو رہا ایک طرف نا اہل قیادت کی وجہ سے قومی کردار بھی قابل افسوس قرار دیا جا سکتا ہے۔ چند ماہ پہلے چین اور مغربی ممالک بشمول امریکہ میں کورونا کی جو وبا پھیلی وہ اسی پراسرار سفر کا ایک مرحلہ ہے جو اقوامِ عالم سے زبردست احساسِ جواب دہی اور طمانیت کا تقاضا کر رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے بعض قومی حلقے وزیر اعظم کی سوچ پر شدید حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ملک میں بڑے پیمانے پر اگر یہ وبا پھیل گئی تو ایسی افراتفری پھیلے گی اور بدنامی ہو گی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے حالات میں کوئی کاروبار کیا جا سکے گا نہ سرکاری انتظامیہ امن و امان قائم رکھ سکے گی۔ حالات کی سنگینی کا اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف لاہور میں پونے سات لاکھ افراد کورونا کے متاثرین ہو سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اسی صورت حال کے تناظر میں مراسلہ ارسال کیا ہے‘ جس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بلا شبہ وزیر اعظم صاف گو انسان ہیں‘ وہ مسلسل قوم کو الرٹ کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں وائرس مزید پھیلے گا‘ مریضوں اور اموات کی تعداد بہت بڑھ جائے گی اس لئے زیادہ سے زیادہ محتاط رہا جائے۔ اسی خطرے کی آگاہی کے لیے وزیر اعظم نے ٹائیگر فورس کو اہم ٹاسک دیا تو دس لاکھ رضا کاروں کا لشکر تیار کیا گیا‘ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ملکی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کورونا سے جی ڈی پی کی شرح نمو 0.38 فیصد تک گر گئی ہے۔ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں سیاسی بد گمانیوں کے اثرات مسلسل محسوس کیے جا رہے ہیں اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی گرفتاری کے خدشے نے مسلم لیگ ن کو متحرک کر دیا ہے؛ چانچہ آئندہ صوبائی اسمبلی پنجاب میں بھی تبدیلی کے آثار نظر آ رہے تھے۔ دوسری جانب جانگیر ترین اپنے صاحبزادے علی ترین کے ہمراہ لندن چلے گئے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو جو خدشات محسوس ہو رہے تھے‘ اس میں تحریک انصاف کی سیاسی چال کارگر ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مضبوط ہے اور بظاہر اسے2023ء تک کی ضمانت مل چکی ہے۔
کورو نا نے دنیا کا اقتصادی اور سیاسی سسٹم بدل کر رکھ دیا ہے اور ہمارے ملک میں کورونا کے اعداد و شمار ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہولناک ہوتے جا رہے ہیں۔ طبی ماہرین کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ یہ وائرس کم و بیش دنیا کے ہر شخص کو کسی نہ کسی حد تک متاثر ضرور کرے گا‘ لہٰذا وائرس کے پھیلاؤ کو ایک حد میں رکھنے کی خاطر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان عوام میں شعور پیدا کرنے کی خاطر دس لاکھ رضا کار نوجوانوں کی بھرتی کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں‘ لیکن کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ اس فورس کی تشکیل کو پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے قانونی حیثیت دی جائے۔ اقتدار دائمی نہیں ہوتا‘ مگر اقتدار ہاتھ سے جانے کے بعد کئی مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں اور آنے والی مقتدر قوت ٹائیگر فورس کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان دس لاکھ نوجوانوں کی اس تنظیم کو آئندہ انتخابات کے موقع پر پولنگ سٹیشنوں پر بیلٹ بکس کی حفاظت کے لیے بھی استعمال کر سکتی ہے‘ لیکن انہیں ایسی ذمہ داریاں پوری کرنے کی مکمل تربیت دینا ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ اپنے اختیارات کے نا جائز استعمال سے باز رہیں اور مفادات سے بالاتر ہو کر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ اس کے لئے گہری اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب وفاقی کابینہ میں شوگر مافیا گروپ کے خلاف گھیرا تنگ ہونے کے بعد اہم تبدیلیاں بجٹ کی منظوری کے بعد عمل میں لائے جانے کا امکان ہے اور ارکانِ پارلیمنٹ میں سے کابینہ میں چند اہم ارکان کی شمولیت بھی متوقع ہے۔ اپوزیشن میں لیڈرشپ کا فقدان ہے‘ جبکہ وزیر اعظم عمران خان کی احتسابی تلوار میان سے باہر آ چکی ہے‘ ان حالات میں حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور یہی اس حکومت کی پائیداری کا راز ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں