"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت کو درپیش چیلنجز

وزیر اعظم کی حکومت کا دوسرا قومی بجٹ ملک ہی نہیں پوری دنیا کو درپیش بد ترین معاشی حالات میں پیش کیا گیا۔ قومی معیشت یوں تو اس دور میں شروع ہی سے سنگین صورت حال سے نبرد آزما چلی آ رہی ہے‘ لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران کورونا کی عالمی وبا کے سخت منفی اثرات کے باعث اس کا گراف جس تیزی سے نیچے آیا ہے اس کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس صورت حال کا بھرپور اظہار اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ یہ تاریخی خسارے کا بجٹ ہے‘ جس میں خسارے کی مالیت 3437 ارب روپے ظاہر کی گئی ہے‘ جبکہ وفاقی میزانیے کی مکمل مالیت 7294.9 ارب روپے ہے۔ کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کئے جانے کے باوجود ایک ہزار ارب روپے کے قریب اضافی ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے‘ جس پر بادی النظر میں عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اپوزیشن نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بجٹ کو عوام دشمن اور مایوس کن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے جبکہ اندرونی معاہدے کے تحت حکومت اور اپوزیشن کی مفاہمت ہو چکی ہے اور حکومت بجٹ کو منظور کرانے میں کسی اندرونی کشمکش کا اندیشہ ظاہر نہیں کر رہی۔ اب اگر اس مفاہمت والے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو عوام کے مفادات کو نظر انداز کرنے کی اصل ذمہ دار اپوزیشن ہی قرار پائے گی‘ جو ہر معاملے میں ذاتی مفادات کے تحت خفیہ طور پر مفاہمت کر کے حکومت کو محفوظ راستہ دے دیتی رہی ہے۔ اس طرح تو اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف جو احتجاج کیا جاتا ہے‘ وہ بھی محض دکھاوا ہی محسوس ہوتا ہے‘ تو کیا اپوزیشن کے احتجاج کو نظر انداز کر دینا چاہیے؟ دوسری طرف حکومت کے اتحادی بھی ہر بجٹ کے موقع پر اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے حکومت سے اپنی من پسند خواہشات پوری کروا لیتے ہیں۔
پاکستانی قوم آج جس بحرانی کیفیت سے دوچار ہے‘ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پچھلی سات دہائیوں میں ایسی صورت حال کبھی پیش نہیں آئی۔ عمران خان صاحب کی حکومت کی گزشتہ دو برسوں کے دوران معیشت کو سنبھالنے کی کوئی کوشش پہلے بھی کچھ زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہی تھی‘ کورونا اور لاک ڈاؤن نے انہیں مزید بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قدرتی آفت ٹڈی دَل بھی ایک نئی مصیبت کی صورت میں ملک پر مسلط ہے۔ ان حالات میں واہگہ سے گوادر تک عوام پاکستانی حکومت سے سخت نا امید ہو چکے ہیں اور محسوس کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت اس وبا زدہ معیشت اور کورونا کی ہلاکت خیزیوں کا ادراک نہیں رکھتی۔ وزیر اعظم اس معاشی‘ سیاسی‘ خارجی اور اندرونی بحران سے مکمل طور پر باخبر ہیں‘ لیکن ان کی معاشی ٹیم نے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان کے ارد گرد موجود کچھ لوگ درپردہ اپنے مفادات بزنس کمیونٹی‘ ملٹی نیشنل کارپوریشنز اور بزنس کونسلز سے وابستہ کئے ہوئے ہیں اور وہ ان کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہی سیاسی پارٹیوں میں آتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے خطرناک معاشی ایجنڈے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈاکٹر اشفاق حسن خاں نے دلائل کے ساتھ کھڑی کی تھی‘ جب تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین یہ بات طے نہیں ہو پا رہی تھی کہ چین‘ ترکی‘ سعودی عرب اور دیگر ممالک سے فارن فنڈنگ کے معاہدات طے پا رہے ہیں تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہے یا نہیں ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن خاں‘ جو وزیر اعظم کی اکنامک کونسل کے ممبر تھے‘ نے آئی ایم ایف کے جارحانہ معاہدے کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کیا مگر وزیر اعظم کی اقتصادی ایڈوائزری کونسل کے کسی فرد نے ڈاکٹر اشفاق حسن کے نقطہ نظر کی حمایت نہ کی۔ ڈاکٹر اشفاق حسن نے ملک کی اعلیٰ قیادت کو تمام حقائق سے آگاہ کیا تھا کہ کچھ لوگ کس طرح بین الاقوامی ایجنسیوں کے نمائندوں کے ہم نوا بنے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم کی معاشی ٹیم نے موجودہ حکومت کی اقتصادی حکمت عملی کو خوشنما الفاظ میں بیان کیا۔ فی الحقیقت دنیا کی ہر حکومت اسی دعوے کے ساتھ اقتدار سنبھالتی ہے جبکہ اس کے دعووں کا فیصلہ اس کی کارکردگی کی کسوٹی پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مطابق: حکومت کی کارکردگی کا اعتراف موڈیز‘ آئی ایم ایف‘ بلوم برگ جیسے اداروں کی جانب سے کیا جا رہا تھا اور بیرونی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا‘ لیکن پھر کورونا کے باعث قومی معیشت کو بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ گیا‘ جس سے تین ہزار ارب روپے تک کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے ارشادات سن کر معاشی ضرب کار جان پرکنز کی باتوں کا شائبہ ہونے لگتا ہے۔ معاشی ضرب کار اعلیٰ معاوضوں پر کام کرنے والے ماہر پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں جو ان کے چنگل میں پھنس جانے والے ممالک کو اربوں کھربوں ڈالرکی چھوٹ دیتے اور دلاتے ہیں اور ان کی ترک تازیاں عالمگیر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عالمی بینک‘ آئی ایم ایف‘ یو ایس ایڈ اور ایسے ہی دیگر ایڈ فراہم کرنے والے اداروں سے بھاری رقوم لے کر عظیم الشان کارپوریشنز کی تجوریوں کا رخ گنے چنے امیر کبیر خاندانوں کے ذاتی خزانوں کی جانب پھیر دیتے ہیں‘ جو پہلے ہی کرۂ ارض کے قدرتی وسائل پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ یہ کھیل ایسا ہے جو اس عالمگیریت کے دور میں اپنے حجم کے اعتبار سے انتہائی خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔
پاکستان کو اس وقت مشکل صورت حال کا سامنا ہے‘ اس سے نبرد آزما ہونے کیلئے غیر معمولی بصیرت اور سوچ درکار ہے۔ مشکل صورت حال سے نکلنے کیلئے قوم کی اجتماعی دانش اور بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اثاثہ جات قوم کے سامنے پیش کرنے کیلئے جو احکامات وزیر اعظم عمران خان نے دیے تھے ان پر عمل درآمد ایک ماہ گزرنے کے باوجود نہیں ہوا۔ اس وقت پاکستان میں جو حالات ہیں اس میں لوگ ڈھکے چھپے کرب کو محسوس کر رہے ہیں۔ تین ہزار ارب روپے تک کے نقصان کی تھیوری کی پشت پر غیر ملکی سازش ہو رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ یہ تھیوری آئی ایم ایف سے ہی آئی ہے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ کورونا سے ایک ماہ میں اموات میں 242 فیصد اضافہ ہوا ہے اور رواں ماہ کے آخر تک ملک میں کورونا کیسز کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جبکہ جولائی کے آخر تک تعداد بارہ لاکھ ہو جائے گی۔ اسد عمر کے مؤقف کی تائید بین الاقوامی میڈیا کے ذرائع نے بھی کی ہے‘ جن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا کے سبب اموات کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ جہاں اوسط عمر 67 سال ہے‘ وہاں پچاس سے اوپر والے اکثر لوگ پہلے ہی شوگر‘ دل‘ گردوں اور دیگر بیماریوں کا سامنا کرتے ہوئے زیادہ خطرات صورت حال سے دوچار ہیں۔ وفاقی وزیر اسد عمر‘ جو کورونا وائرس کی وبا کے خلاف قومی جدوجہد کے بھی سربراہ ہیں‘ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان بھی ان دنوں آئینی معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اقتصادی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم پاکستان ٹورزم کو کھولنے کے احکامات جاری کرتے ہیں‘ دوسری جانب گلگت بلتستان کی حکومت کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے سیاحت پر پابندی نافذ کر دیتی ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی کانفرنس کا انعقاد کرتے ہوئے پارلیمانی پارٹیوں کو مدعو کر کے ایک قومی حکمت عملی کے تحت قومی پالیسی مرتب کرتے ہوئے کورونا کی جنگ سے نبردآزما ہونے کے لیے آئین کے آرٹیکل 232 کو بروئے کار لا کر ملک میں تین ماہ کیلئے ایمرجنسی لگائی جانی چاہئے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت کورونا جیسی عالمی وبا کی وجہ سے پاکستان ہنگامی حالات سے دوچار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں