"KDC" (space) message & send to 7575

صدارتی ریفرنس پر فیصلہ

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم عدالت عظمیٰ کے دس رکنی بینچ نے مختصر فیصلہ سنا دیا جس میں نہ صرف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیا گیا بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے فاضل جج کے خلاف جاری کئے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس کو بھی منسوخ کر دیا گیا اور یوں عملًا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بنیادی موقف کو درست تسلیم کر لیا گیا‘ جبکہ ان کی قابل احترام اہلیہ کی جائیدادوں کے ٹیکس کے معاملات کی از سر نو تحقیقات کی ہدایت ایف بی آر کو کئی گئی ہے۔ صدارتی ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے رواں عشرے کے ابتدائی برسوں میں لندن میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیدادیں خریدیں مگر انہیں اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا گیا‘ جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ان کی جائیدادوں کی خریداری میں ان کی آمدنی استعمال نہیں ہوئی‘ ان کی اہلیہ خود کفیل ہیں‘ جائیداد انہی کی آمدنی سے خریدی گئی ہے‘ وہی ان جائیدادوں کی مالک ہیں؛ تاہم صدارتی ریفرنس کے درست ہونے پر حکومت بضد تھی۔ اسی دوران سابق اٹارنی جنرل منصور علی خان نے بلا وجہ اشتعال میں آ کر محترم ججز کے بارے میں غیر شائستہ گفتگو کی‘ جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کے خلاف توہینِ عدالت کا فیصلہ کیا تو اٹارنی جنرل اپنے عہدے سے سبک دوش ہو گئے اور موجودہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اصول پرست گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ اس کیس کو لڑنے پر تیار نہیں ہوئے اور نہ ہی کوئی وکیل حکومت کی پیروی پر آمادہ ہوا‘ لہٰذا صدارتی ریفرنس کے دفاع کیلئے بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم وفاقی وزیر قانون کے عہدے سے مستعفی ہو کر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ ایوانِ وزیر اعظم میں درجنوں لوگ آئین و قوانین کے ماہر ہیں۔ وہ وزیر اعظم کو تو اپنی قانونی مہارت سے نوازتے رہتے ہیں‘ لیکن نا جانے کیوں ان میں سے کوئی فروغ نسیم کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آیا؛ تاہم فروغ نسیم اپنے موقف پر قائم رہے اور عدالت عظمیٰ کی معاونت کرتے ہوئے حکومت اور ریاست کے دفاع میں مصروف رہے‘ جبکہ ان کے مد مقابل منیر اے ملک‘ حامد خان‘ افتخار گیلانی‘ سلمان اکرم راجہ‘ بابر ستار‘ رشید اے رضوی‘ سینیٹر رضا ربانی‘ امان اللہ کزانی اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی بذات خود اس دس رکنی فل کورٹ کے سامنے 44 منٹ تک پیش ہوئے‘ جبکہ ان کی اہلیہ محترمہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے 43 منٹ تک اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔
جج صاحبان نے اس دوران اہم باتیں بھی کیں‘ ایف بی آر اور ایسٹس ریکوری یونٹ جیسے سرکاری اداروں نے 12 ماہ کے دوران تمام ثبوت اکٹھے کئے اور جمع کرائے۔ 15 جون 2020 ء کو بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ وفاقی حکومت اس کیس میں نتائج کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب صدر‘ وزیر اعظم اور سابق وزیر قانون کا ٹرائل ہو سکتا ہے تو ججز کا ٹرائل بھی کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے کیس کے دوران ملک کی چاروں صوبائی ہائی کورٹ ایسوسی ایشنز‘ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے رہے‘ جبکہ حکومتی مشیران کی اکثریت وکلا برادری سے ہے‘ مگر وہ کہیں بھی نظر نہیں آئے اور بنی گالہ میں وزیر اعظم پاکستان کو حقائق سے بے خبر رکھے ہوئے تھے۔ 
یہ مقدمہ اپنی غیر معمولی نوعیت کے باعث پوری وکلا برادری‘ سیاسی رہنماؤں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے؛ تاہم چالیس سے زائد سماعتوں کے باوجود واضح نہیں ہو پا رہا تھا کہ نتیجہ کیا ہو گا۔ بہرحال 20 جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے دانش مندی سے ریاست کے مفاد میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جائیدادوں کے ٹیکس کے معاملات میں ایف بی آر کو تحقیقات کی ہدایت کی‘ جس کے لیے سات روز میں نوٹس جاری کرنے اور ساٹھ دنوں میں کارروائی مکمل کر کے رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو فراہم کرنے کا حکم دیا گیا۔ مختصر فیصلے کے مطابق رپورٹ کی بنیاد پر ضروری ہوا تو معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل دیکھے گی اور صدارتی ریفرنس کے حوالے سے جو جو خلا یا ابہام نظر آیا اس کے بعد وزیر اعظم پاکستان کو اسی نوعیت کی ایڈوائس کئے جانے کا امکان ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ معزز عدالت عظمیٰ صدارتی ریفرنس دائر کرنے یا سپریم جوڈیشل کمیشن میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت دائر کرنے کے بارے میں واضح ہدایات جاری کرے گی تاکہ آئندہ کسی معزز جج کے خلاف ابہام زدہ ریفرنس دائر نہ کیا جا سکے کیونکہ اس ریفرنس میں ایسی قانونی سقم یا غلطیاں تھیں جن کی وجہ سے عدالتِ عظمیٰ نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد جناب وزیر اعظم کو چاہیے کہ اپنے مشیرانِ با تدبیر کی کارگزاری کو سامنے رکھ کر ان میں سے کچھ کو فارغ کریں اور قومی اسمبلی کے 156 ارکان میں سے اپنی کابینہ کے لئے ارکان منتخب کریں۔
سردار اختر مینگل کی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے متفقہ فیصلے پر انہوں نے حکومت کی حمایت ترک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سردار اختر مینگل نے آٹھ سال پہلے بلوچستان کے مسائل حل کرانے کے لئے چھ نکاتی مطالبات پیش کیے تھے۔ ان نکات کا مقصد غالباً متحدہ عرب امارات کی طرز پر بلوچستان کو چھ مختلف یونٹوں میں تقسیم کرنے کے خفیہ منصوبے پر عمل کروانا تھا۔ ماضی میں جھانکیں تو نواب اکبر بگٹی بھی غالباً ایسے ہی کسی ایجنڈے پر عمل پیرا تھے‘ جب مبینہ طور پر کچھ غیر ملکی طاقت ور شخصیات نے ان کے ذریعے چھ نکات پیش کرا کے وفاق کے خلاف علم بغاوت بلند کروایا تھا ۔ بگٹی ان کے فریب میں آ گئے تھے حالانکہ اس سے پیشتر صدر پرویز مشرف کے ساتھ اُن کے با مقصد مذاکرات چل رہے تھے۔ پھر اچانک حالات بالکل ہی تبدیل ہو گئے۔ 
سردار اختر مینگل کی پارٹی بلوچوں کی متفقہ پارٹی نہیں ہے‘ مگر ان کا ایجنڈا بلوچ قوم پرستوں میں بہت مقبول ہے اور یہ طے شدہ امر ہے کہ جذباتی اعتبار سے ہر بلوچ قوم پرست ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ اسی قوم پرستی میں تحریک انصاف کے رہنما سردار یار محمد رند ممبر صوبائی اسمبلی بلوچستان سردار اختر مینگل کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے بلوچستان کی حساسیت کو ہمیشہ مدِ نظر رکھا گیا۔ بین الاقوامی سازشی تناظر میں بھارت اور ارد گرد کے قریبی ممالک کی نظر بھی لگی ہوئی ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ غالباً معاملے کی سنگینی کو جانچ نہیں پائے کہ سردار اختر مینگل نے اپنے بیانات میں نواب آف مکران‘ نواب آف لسبیلہ‘ نواب آف خاران اور نواب آف قلات کی تاریخ کا حوالہ دے کر ایک طرح سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق ریاستوں نے پاکستان سے الحاق نظریۂ ضرورت کے تحت نہ کیا ہوتا تو ان کی آزاد حیثیت برقرار رکھی جاتی۔ بطور الیکشن کمشنر میرا بلوچستان کی اہم شخصیات‘ جن کا تعلق گوادر سے ڈیرہ بگٹی تک پھیلا ہوا تھا‘ سے براہ راست تعلق رہا ہے‘ ان میں سردار اختر مینگل‘ ظفر اللہ خان جمالی‘ محمود خان اچکزئی‘ نواب آف قلات میر داؤد اور نواب اکبر بگٹی شامل تھے‘ ان کی محرومیوں اور آئندہ ان کے وسیع تر مفادات کا مجھے گہرا ادراک ہے؛ چنانچہ میری تجویز یہ ہو گی کہ وزیر اعظم عمران خان سردار اختر مینگل سے ملاقات کر کے ان کی تشنگی آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دور کریں اور بلوچستان کے حوالے سے گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز کرتے ہوئے بلوچستان کے اہم سیاسی رہنماؤں سے مذاکرات کریں تاکہ حالات کو درست نہج پر لایا جا سکے۔ جاری حالات کے تناطر میں سردار اختر مینگل کا حکومت سے الگ ہونا مناسب نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں