"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت کیلئے لمحۂ فکریہ

اپریل سے جون کے دوران وزیراعظم عمران خان اپنی معاشی ٹیم کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچانے کی ہدایات کرتے رہے‘ مگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں اس پر عمل درآمد نظر نہیں آیا‘ اور ملک بھر میں شروع ہوجانے والے پٹرول بحران پر قابو پانے اور ناجائز منافع کی خاطر ذخائر چھپانے میں ملوث کمپنیوں کے خلاف اقدامات ابھی تک کسی بھی سطح پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائے۔ پھر یکایک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر کے کورونا لاک ڈاؤن متاثرین اور مہنگائی و بیروزگاری کے عذاب سے دوچار پاکستانیوں کو شدید مایوس کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں عجلت کا یہ عالم رہا کہ معمول کے طریقہ کار سے ہٹ کر نئی قیمتوں کے تعین کیلئے نہ تو اوگراکی سفارشات ضروری سمجھی گئیں ‘نہ ہی نئے نرخوں کے نفاذ کیلئے نئے مہینے کے شروع ہو جانے کا انتظار کیا گیا‘ بلکہ وزارت خزانہ نے خود ہی نئی قیمتوں کا تعین کر کے یکم جولائی کے بجائے 26 جون کو یعنی چار دن پہلے ہی ان قیمتوں کی منظوری دے دی اور اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔
پٹرولیم مصنوعات کے نرخ اس قدر جلد بازی میں کیوں بڑھائے گئے؟ اس کی کوئی معقول وجہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ حکومت نے منافع خوری کی خاطر پٹرول کی ذخیرہ اندوزی کرنے والی جن آئل کمپنیوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی وہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنے خلاف کارروائی رکوانے میں ناکام ہو چکی ہیں اور عدالت نے اس ضمن میں حکومت کو تمام مؤثر اقدامات کیلئے پوری طرح تیار کر دیا تھا۔ حالیہ فیصلے پر ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھانے کیلئے حکومت کو ٹیکس کی مد میں تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا‘ سارا فائدہ پٹرولیم کمپنیوں کو ہوگا جو تین سو ارب روپے کے لگ بھگ ہے‘ کیونکہ حکومت نے تیل کی بنیادی قیمت میں 90 فیصد کے قریب اضافہ کیا ہے جبکہ دنیا میں تیل کی قیمتوں میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بنیادی قیمت میں کئے گئے اضافے سے پٹرولیم کمپنیوں کو ہی فائدہ پہنچے گا جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بعض حکام نے آئل کمپنیوں کو سستا تیل خرید کر ذخیرہ اندوزی کا موقع دیا اور اب قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کرکے اور اس اضافے کو مقررہ وقت سے پہلے نافذ کر کے بھاری منافع کمانے کے راز کھول دیے ہیں ‘جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے شوگر مافیا کے بعد پٹرول مافیا کے سامنے بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ 
اس سے سرکاری مشینری میں موجود بعض عناصر کی مافیا کے ساتھ ملی بھگت کے ساتھ ساتھ حکومت کے اندر موجود بوکھلا ہٹ‘ بدانتظامی اور افراتفری بھی سامنے آگئی ہے۔حکومتی مشیر ندیم بابر نے عوام کی نظروں میں وزیراعظم عمران خان کا امیج مجروح کر دیا ہے۔ایسا لگنے لگا ہے کہ اُن کی پارٹی مختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے‘ جبکہ ان گروہوں کی اپنی سیاسی جڑیں نہیں ہیں ‘ ان میں سیاسی بحران کو حل کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے جن ارکان نے حکومت کی کارکردگی پر شدید تنقید کی ان میں زیادہ تر کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ ان میں زیادہ تر لوگ عام انتخابات سے کچھ پہلے تحریک انصاف کا حصہ بنے تھے اور اس کے لئے یعنی ان لوگوں کو تحریکِ انصاف کی طرف لانے کیلئے جہانگیر ترین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جہانگیر ترین کی عدم موجودگی کے باعث کراچی کی سیاست بھی وزیر اعظم کے ہاتھ سے نکلتی محسوس ہوتی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کو پاکستان تحریک انصاف کا اتحادی بنایا گیا‘ اب تحریک انصاف کی حکومت اور اپنے وزیراعلیٰ کے خلاف تنقید کر رہی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے معاملات کو جہانگیرترین دیکھ رہے تھے اور اس اتحاد کے معاملات میں عمران خان صاحب کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ بلوچستان کی مخصوص جغرافیائی حکمت عملی کے تحت مقتدر ہ بھی وہاں کے معاملات کو دیکھ رہی ہے۔ تحریک انصاف کی ایک اور اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کے معاملات اور اس کے بھی تحریک انصاف کا اتحادی بننے سے عمران خان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ سردار اختر مینگل کو بھی جہانگیر ترین نے ہی عمران خان سے ملوایا تھا۔
ان معاملات اور حالات میں ملک میں مہنگائی کے طوفان کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کیلئے جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے اتحادی اور متحدہ قومی موومنٹ اور کراچی کے تحریک انصاف کے دو ارکانِ قومی اسمبلی زیادہ مشکل صورتحال پیدا کرسکتے ہیں۔ فوادچودھری نے جارحانہ انداز میں اپنی حکومت کے چند وزرا کی باہمی چپقلش کا ذکر کیا اور اس کے رد عمل میں وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں فیصل واوڈا نے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کو کار نر کردیا۔ اس سے وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کے متحد ہونے کے بھرم کو خاصی ٹھیس لگی ہے۔فیصل واوڈا نے بعد ازاں وزیراعظم اور صدر ِمملکت سے بھی ون ٹو ون ملاقات کی۔ ممکن ہے انہوں نے وزرا کی سیاسی سازشی تھیوری کے بارے میں آگاہ کر کے ان وزرا کا وقار صدرمملکت اور وزیراعظم کی نظروں میں مشکوک بنا دیا ہو۔اس طرح کی سیاسی چالیں و زیر اعظم بھٹو بھی چلتے تھے‘ مثال کے طور پر جب انہوں نے ڈاکٹر مبشر حسن‘ جے اے رحیم‘ حنیف رامے اور خورشید حسن میر کے خلاف جارحانہ مہم چلانے کیلئے مولانا کوثر نیازی کو استعمال کیا تھا۔ مولانا کوثر نیازی کو اس لئے استعمال کیا گیا کہ ان کا میڈیا میں گہرا اثر تھا اور انہوں نے اپنی مخصوص حکمت عملی کے تحت اور اپنے میڈیا دوستوں کے ذریعے ان وزرا کو فارغ کر وا دیا تھا۔ فیصل واوڈا اور فواد چودھری کا اثر میڈیا میں برائے نام نہیں ہے ‘ دوسری جانب شیخ رشید کو رونا کی وجہ سے بیمار اور جسمانی طور پر کمزور ہوگئے ہیں اور ملٹری ہسپتال میں علاج کروانے کے بعد وہ بھی اب دیوار کے پیچھے سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔
یوں لگ رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے چینی‘ آٹا اور پٹرولیم مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ اسی طرح جاگیر دار مافیا کے آگے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ جب وزیراعظم بھٹو کی حکومت کے سینئر وزیر اور چیئرمین فیڈرل بینک شیخ محمد رشید نے بڑے بڑے سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں اور وڈیروں سے لاکھوں ایکڑ اراضی واگزار کرائی اور حکومتی پالیسیوں کو کسانوں‘ مزدوروں اور محنت کشوں کے بنیادی حقوق سے ہم آہنگ کرنے میں کوشاں رہے تو ان جاگیر داروں نے شیخ محمد رشید کے گرد گھیرا تنگ کر کے ان کو وفاقی لینڈ کمیشن کی چیئرمین شپ سے فارغ کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ شیخ محمد رشید نے جاگیردار مافیاگروپ سے پچاس لاکھ ایکڑ کے قریب زرعی زمین واگزار کروائی تو ان کو قتل کرنے کے منصوبے بھی بنائے گئے ۔ وزیر اعظم بھٹو نے ان کو آدھی رات کو فون کر کے بتایاتھا کہ انٹیلی جنس نے ان کو اطلاع دی ہے کہ جاگیردار ان کے قتل کے منصوبے بنا رہے ہیں اور ان کی اطلاع کے مطابق آج رات حملہ ہونے والا ہے۔ واضح رہے شیخ محمد رشید وفاقی وزیر صحت‘ چیئرمین وفاقی لینڈ کمیشن ہونے کے باوجود ایک سرکاری کوارٹر میں رہائش رکھتے تھے۔ اب اسی طرح کے مافیا گروپ نے وزیراعظم عمران خان کے آگے بند باندھ رکھے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے لئے مناسب ہو گا کہ قوم کو اعتماد میں لے کر ان مافیا گروپس کی چالوں سے قوم کو آگاہ کریں۔ اس حوالے سے مزید تاخیر سے وزیر اعظم کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ تحریک انصاف کے کچھ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی قد کاٹھ کا کوئی دوسرا لیڈر نہیں‘ مگر اُن کی یہ تھیوری حقائق کے برعکس ہے۔ دراصل وہ حلقے بھی گہری سوچ میں ہیں جن کے ہاتھ میں معاملات ہیں۔ بجٹ کی منظوری میں حکومتی 18 ارکان کی غیر حاضری حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے‘ حکومت کو چاہئے کہ آئین کے تحت ان کے خلاف کارروائی کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں