"KDC" (space) message & send to 7575

نیا نقشہ ، قومی امنگوں کا ترجمان

حکومتِ پاکستان نے بین الاقوامی تناظر میں ملک کا جو نیا نقشہ جاری کیا اسے مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019 کو کیے گئے اقدامات اور جونا گڑھ اور سر کریک سمیت دیگر متنازع علاقوں کے بارے میں بھارت کے برسوں سے جاری عیارانہ حربوں کے تناظر میں عالمی برادری کو حقائق اور پاکستانی نقطۂ نظر سے آگاہ کرنے کی ایک ضرورت کے طور پر دیکھا جارہا ہے‘ مگر کئی دیگر حوالوں سے بھی اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ مذکورہ نقشے کے لیے حکومتی اتحاد اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے علاوہ کشمیری قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے اور اس کے بعد وفاقی کابینہ نے بھی اس کی منظوری دی ہے اور اطلاعات کے مطابق عوامی جمہوریہ چین کو بھی اس معاملے میں اعتماد میں لیا گیا ہے۔
یہ سیاسی نقشہ اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے گا اور اسے پاکستان کے سرکاری نقشے کی حیثیت حاصل ہوگی ۔ یہ نقشہ قومی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019 ء کو جو قدم اٹھایا تھا یہ نقشہ اس کی نفی ہے۔وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام رائے شماری کا حق حاصل ہونے کے بعد ہی مقبوضہ کشمیر کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے اور یقین ہے کہ وہ اپنی منزل حاصل کر لیں گے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی طرف سے متنازعہ اور خود اپنے آئین میں خصوصی حیثیت کے حامل قرار دیے گئے علاقے مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے میں ایسی ترامیم کیں جو قانوناً کی ہی نہیں جا سکتیں۔ نریندر مودی کی حکومت نے متنازعہ علاقے کو تین حصوں جموں‘ کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے انہیں نام نہاد یونین کا حصہ قرار دیتے ہوئے گزشتہ برس 31 اکتوبر کو ایسا نقشہ جاری کیا تھا جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی بھارت کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ اس نقشے کو فوری طور پر چین‘ پاکستان اور نیپال نے مسترد کر دیا اور اب پاکستان کے نئے سیاسی نقشے کو وزیراعظم عمران خان نے پرانے تنازع کے حل کی سمت پہلا قدم قرار دیا ہے۔
نریندر مودی کی حکومت کے گزشتہ سال پانچ اگست کے اقدامات کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ اسلام آباد عالمی برادری کو تنازعہ جموں و کشمیر کے حقائق سے آگاہ کرے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان نے جونا گڑھ اور مناوادر پر بھارتی قبضہ ختم کرانے کے اپنے قومی ایجنڈے سے بھی لاتعلقی اختیار کر رکھی تھی‘ اسے وزیراعظم عمران خان نے اب زندہ کردیا ہے۔ حکومتِ پاکستان کے جاری کردہ نئے سیاسی نقشے میں سری نگر سمیت مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقوں کی سبز رنگ کے ذریعے نشاندہی کی گئی ہے ۔ان کے بارے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ علاقہ متنازعہ ہے‘ جس کی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا باقی ہے؛ چنانچہ غیر طے شدہ سرحد کی وضاحت کے ساتھ مشرقی سمت کی بین الاقوامی سرحد ہماچل پردیش سے ملتی دکھائی گئی ہے‘ جبکہ سرکریک جو 1914ء کے حکومتِ سندھ اور ریاست کَچھ کے معاہدے کے تحت پاکستان کا حصہ ہے‘ اس کے مشرقی کنارے تک سرحد دکھائی گئی ہے۔رن آف کچھ کی جنگ 1965 ء کے بعد عالمی عدالت میں ثالثی کے ذریعے جو فیصلے کیے گئے تھے‘ ان میں سر کریک پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا تھا مگر یہ 1971ء کی جنگ کے شعلوں میں نظرانداز ہو گیا‘ حالانکہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں سرکریک کا مقدمہ بھی لڑا تھا۔
نقشے کو دیکھ کر فخر سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان عالمی قراردادوں اور باہمی معاہدوں اور بین الاقوامی قوانین کے اعتبار سے نریندر مودی کی حکومت کے مقابلے میں اخلاقی طور پر بہت بلند مقام پر کھڑا ہے ۔نئے سیاسی نقشے میں انڈیا کی ریاست گجرات کے علاقے میں جوناگڑھ کو نمایاں طور پر دکھایا ہے ۔تقسیم ہند کے وقت برصغیر میں ایسی 563 ریاستیں تھیں جہاں نوابوں اور مہاراجوں کی حکومتیں تھیں‘ ایسی ہی ایک ریاست گجرات کے خطے میں واقع جوناگڑھ تھی۔ جونا گڑھ ریاست 999 چھوٹے بڑے دیہات اور شہروں پر مشتمل تھی۔ ہماری نئی نسل شاید اس حقیقت سے آشنا نہ ہوکہ تاریخی اور سیاسی اعتبار سے اس ریاست کو کیا اہمیت حاصل رہی ہے ۔تاریخ کے طالب علم سومنات کے مندر اور اس پر محمود غزنوی کے حملوں کی داستان اور سومنات کے مندر میں سونے کے بتوں کی موجودگی اور قوتِ ایمانی سے ان بتوں کو پاش پاش کرنے کی داستانیں تو پڑھتے رہتے ہیں لیکن حقیقت تو شاید اوجھل ہی رہی کہ یہ مندر اسی ریاست میں موجود تھا جس کو جونا گڑھ کہتے ہیں۔یہاں کے جغرافیائی حسین مناظر کی وجہ سے یہ علاقہ بین الاقوامی اہمیت کا حا مل تھا۔ قدرت نے اسے خوبصورت اور زرخیز زمین اور قدرتی ساحل عطا کئے ہیں‘ یہی خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے بھارت نے اس پر غاصبانہ قبضہ کیا۔لیکن اس وقت ریاست کے وزیراعظم سر شاہنواز بھٹو نے سات نومبر 1947ء کو اسے بطور امانت بھارتی حکومت کو سونپا اور اس طرح لاکھوں مسلمانوں کو ممکنہ قتلِ عام اور تباہی سے بچا لیا جبکہ نواب محمد مہابت خان سوئم نے ریاست کو پاکستان میں ضم کرنے کے معاہدے پر دستخط کردیے تھے اور نواب مہابت خان اپنی بیگم اور بچوں کے ہمراہ ایک ڈکوٹا طیارے کے ذریعے پاکستان آگئے تھے اور پاکستان میں انضمام کے اعلان کے بعد جونا گڑھ میں اطمینان کی لہردوڑ گئی تھی۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ جونا گڑھ اور مناوادر اس کا حصہ ہیں‘ کیونکہ جوناگڑھ کے نواب نے تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا‘ مگر انڈیا نے ملٹری آپریشن کے ذریعے اس پر قبضہ جمالیا۔ پاکستان سے الحاق کے اعلان کے بعد ریاست جوناگڑھ نے پوسٹل ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ پاکستان 1947ء سے 1971ء تک جوناگڑھ اور مناوادر کو پاکستان کا حصہ قرار دیتا رہا اور اپنے سرکاری نقشوں میں ان کو متنازع علاقے ہی ظاہر کیا گیا‘لیکن بعدازاں شملہ معاہدہ کے بعد حکومت پاکستان نے خاموشی سے ان متنازع علاقوں کو اپنے سرکاری نقشہ جات سے حذف کروا دیا۔15مارچ 1976ء کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جونا گڑھ کے نواب الحاج محمد دلاور خانجی کو گورنر مقرر کر دیاجبکہ صدر ایوب خان نے نواب مہابت خان کی دستار بندی کی اور انہیں ریاست کا نواب تسلیم کیا گیا تھا۔ نواب دلاور خانجی کے انتقال کے بعد اب ان کے صاحبزادے نوابزادہ جہانگیر خانجی ریاست کے برائے نام نواب ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے 1972ء کے بعد پہلی مرتبہ سیاسی نقشے پر مقبوضہ کشمیر‘ جوناگڑھ اور مناوادر کو پاکستان کا علاقہ دکھایا ہے اور اس پر یہ تحریر درج ہے کہ یہ متنازعہ علاقے ہیں جن پر بھارت نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔
1949ء سے 1972ء تک یہی نقشہ تھا ‘پھر شملہ معاہدے کی آڑ میں اس کو بدل دیا گیا اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی مصلحتوں کے زیر اثر کسی نے دانستہ یا نادانستہ اس صورتحال کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ صدرپرویز مشرف نے بھی 2001ء میں آگرہ کے دورے کے دوران پریس کانفرنس کے دوران بھارتی صحافیوں کو باور کروایا تھا کہ جوناگڑھ پر بھارت نے غیر آئینی طور پر قبضہ کیا ہوا ہے‘ لیکن مشرف حکومت بھی بعد میں مصلحتوں کا شکار ہوگئی۔اب اگر حکومتِ پاکستان نے یہ تاریخی کام کر دیا ہے تو پاکستانی دانشوروں کی جانب سے اس کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں