"KDC" (space) message & send to 7575

ملکی حالات اور علاقائی منظر نامہ

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین امریکہ کی سربراہی میں کروایا جانے والا امن معاہدہ امتِ مسلمہ میں زیربحث ہے۔ کسی کے نزدیک یہ مشرق وسطیٰ میں فروغِ امن کا باعث بنے گا جبکہ ایران اور ترکی سمیت کئی ممالک ا سے اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدام سے تعبیر کرکے مسترد کر رہے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فلسطین کو حق نہ ملنے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ مسلم دنیا کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں امتِ مسلمہ کی نظر یں سعودی عرب پر تھیں‘ جو مشرق وسطیٰ ہی کا نہیں امت مسلمہ کا بھی اہم ترین ملک ہے‘ تاہم سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرسکتے جب تک صہیونی ریاست فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط نہ کر دے۔
بدقسمتی سے مصر کے سابق مردِ آہن جمال عبدالناصر وقت کی نزاکت کو نہ سمجھ سکے اور سو ویت یونین کے چکمے میں آکر 1967ء میں اسرائیل کے خلاف متحدہ جنگ شروع کرکے عرب ممالک کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کو عبرتناک شکست ہوئی اور صحرائے سینا کا چالیس ہزار مربع میل کا علاقہ اور مصر کا اہم شہر شرم الشیخ‘ اردن کا مغربی کنارا ‘بیت المقدس اور شام کی گولان نامی اہم چوٹیاں بھی اسرائیل کے تسلط میں آ گئیں۔ اسرائیل کی جغرافیائی حدود 1965ء تک صرف چھ ہزار مربع میل تک محدود تھی‘لیکن 1967 ء کی جنگ کے بعد اس کی جغرافیائی حدود 50 ہزار مربع میل تک پھیل گئیں۔ اس کے بعد 1979ء میں مصر کے صدر انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت صحرائے سینا کا چالیس ہزار مربع میل علاقہ تو حاصل کر لیا مگر شام‘ اُردن اور فلسطین کے علاقے بدستور اسرائیلی تسلط میں رہے۔ بعد ازاں فوجی بغاوت میں کیپٹن خالد کے ہاتھوں انور سادات قتل ہوگئے ۔شام اور اردن نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں شریک ہونا گوارا نہ کیا۔
مشرق وسطیٰ کے ناسور اسرائیل کے غیر قانونی قیام اور استحکام کی تفصیل خاصی طویل ہے جس میں برطانیہ اور امریکہ کا بھرپور حصہ ہے۔ امتِ مسلمہ کے بیشتر ممالک اسرائیل کے مغربی کنارے پر قبضے اور غیر قانونی بستیوں کی تعمیر پر ہی نہیں فلسطین کی بقا کے لیے بھی پریشان ہیں۔ پاکستان ‘ایرا ن اور ترکی سمیت بیشتر مسلم ممالک کا اسرائیل کے حوالے سے مؤقف عالم اسلام کے لئے باہمی اتحاد کا نادر موقع بھی ہے کہ سب یکسو ہو کر اس مسئلے کے حل کی بات کریں گے تو معاملات بہتر طور پر طے کیے جا سکتے ہیں‘ اس میں مسئلہ کشمیر کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ وزیراعظم عمران خان اور ترکی کے صدر طیب اردوان کی دانش و لیاقت پر ہے کہ کس طرح اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے معاہدے سے وہ امت مسلمہ کا مفاد برآمد کرتے ہیں۔ 
1952 میں مصر کے شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹ کر فوجی ٹولے نے عرب دنیا کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد عرب ممالک مسلسل حالات کی دلدل میں دھنستے چلے گئے اورکئی عرب ممالک میں خونیں انقلاب کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ فلسطین کے عوام بھی مسلسل خون کے دریا سے گزرتے چلے جا رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ وہی ہے کہ جمال عبدالناصر اور ان کے سوویت نواز گروپ نے بے مقصد محاذ آرائی سے مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے مشکلات میں اضافہ کر دیا۔ پاکستان میں بھی 1951ء سے سوویت یونین نے ترقی پسندانہ سوچ کو فروغ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی سوچ کے حامل افراد نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کی۔ 
اب کچھ بات داخلی معاملات پر ہو جائے۔ سیاسی حلقوں میں یہ شدید احساس زور پکڑتا جا رہا ہے کہ حکومت اور متحدہ اپوزیشن کے غیر فعال لیڈرز نے اپنی طویل غیر حاضر ی سے پارلیمانی نظام کے وقار کو مجروح کیا ہے اور عوام کے ایک حصے کا پارلیمنٹ سے اعتماد اٹھتا جا رہاہے۔ فکرمندی کے آثار نظر آرہے ہیں‘ کیونکہ حکومت کی پالیسی اور وزرا و ترجمانوں کی غیر سنجیدہ گفتگو سے ہمارے سیاسی منظرنامے پر وفاق اور سندھ کے مابین کشمکش کا جو سیاسی اور آئینی طوفان امڈا چلا آرہا ہے یہ ایک بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔ بعض ایسی شخصیات موجود ہیں جو فیڈریشن کی مضبوطی کے بجائے فیڈرل نظام کی طرف جانے کی سوچ کو فروغ دی رہی ہیں۔ ان پر گہری نظر رکھنا ہو گی اور ان دہری شخصیات کے حامل حکومتی وزرا‘ بیوروکریسی اور سندھ حکومت کے اُن شخصیت کے بارے میں جانچ پڑتال کرنا ہوگی جو خفیہ طور پر دہری شہریت کے حامل ہیں اور جن کے تانے بانے مبینہ طور پر عسکریت پسندوں سے بھی ملے ہوئے ہیں۔
سندھ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ علاقہ ایک صدی سے زائد عرصہ تک عرب کا حصہ رہا اورپھر 1935ء تک ممبئی کا حصہ تھا۔ محب وطن نوجوانوں کو ورغلاکر فیڈرل سسٹم کا سبق پڑھاناملکی سالمیت کے خلاف ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اسرائیل اور بھارت کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا‘ میری نظر میں اس میں کمزوری کا اظہار ہو رہا تھا حالانکہ 1951 ء میں باوجود اس کے کہ پاکستان بے سروسامانی کے عالم میں تھا‘ سلامتی کا مسئلہ پیدا ہوا تو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مکا لہرا کر قوم کو عزم اور حوصلے کا پیغام دیا تھا۔ اب بھی اسی جذبے‘ لگن اور جو ش کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کی روح کے مطابق عمل کرتے ہوئے پارلیمانی نظامِ حکومت کے تقاضوں کو بنیادی اہمیت دیں‘ قومی احتساب بیورو کو اختیارات سے لیس کر دیں اور اس اہم قومی ادارے کو متنازع بنائے جانے کے عمل کو روکیں۔ ایک خبر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت وفاقی اداروں کو چھوٹے چھوٹے شعبوں میں تقسیم کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے ‘ بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ ملکی اداروں کو پرائیویٹ شعبے کے ذریعے چلانے کی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے اور ایک فیصلے کے تحت سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کم کر دی جائے گی اور ان کی پینشن بھی ختم کر دی جائے گی جبکہ ریلوے کو بھی کئی شعبوں میں آزادانہ طور پر تقسیم کر دیا جائے گا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ واپڈا کی مرکزیت بھی ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ ایسی اصلاحات لائی جارہی ہیں جن کے نتائج کے بارے میں اکثر لوگ مطمئن نہیں۔اصلاحات ضرور کی جائیں لیکن سیاسی ویژن اور تاریخ کے ادراک کے ساتھ کی جائیں۔ سب سے پہلی اصلاح تو یہ ہونی چاہیے کہ پارلیمنٹ کو مضبوط بنایا جائے سیاست دان اپنی اہلیت میں مزید اضافہ کریں۔ ایسے لوگوں پر نگاہ رکھیں جن کے تانے بانے مافیاز سے جڑے ہوئے ہیں۔ گورننس کے سسٹم کے بارے میں بڑے فیصلے کرنے سے پہلے سیاسی قوتوں سے مشاورت کریں اور اصلاحاتی ایجنڈے کو پارلیمنٹ میں فکری ڈائیلاگ کیلئے پیش کریں۔ ڈاکٹر عشرت حسین آئینی اور قانونی طور پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے فلور پر خطاب کر سکتے ہیں۔ ان کو اپنی اصلاحات کے ایجنڈے کو پارلیمنٹ میں اعتماد پیدا کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
کراچی 1947ء سے 1986ء تک جمہوری و ترقی پسند اور مزدور تحریکوں اور ادب و ثقافت میں روشن خیالی کی تحریک کا مرکز تھا‘ اس کے بعد اس شہر میں گروہی اور لسانی سیاست مضبوط ہوتی گئی اور اسے فیڈریشن کیلئے خطرہ بنا دیا گیا ۔اب اگر گہری لسانی‘ نسلی اور گروہی تقسیم کی بنا پر کراچی کو وفاق کے حوالے کیا گیا تو یہ فیصلہ مسائل پیدا کرنے کا باعث بنے گا‘ لہٰذا وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ اپنے غیر ملکی مشیروں کے حصار سے نکل کر قومی مفادات پر مبنی فیصلے کرتے ہوئے حیدرآباد اور میرپورخاص کے لیے علیحدہ زون بنانے کی حکمت عملی پر غور کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں