"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ وبلدیاتی انتخابات ، پیچیدگیاں دور کی جائیں

سینیٹ کے انتخابات اب تک خفیہ رائے شماری کے تحت ہوتے رہے ہیں‘ تاہم وفاقی حکومت نے اس طریقہ کار کو تبدیل کرکے اوپن بیلٹ کا طریقہ متعارف کرانے اور اس کیلئے آئینی ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وفاقی کابینہ اس کی منظور ی دے چکی ہے ۔ 1973ء کی آئین ساز اسمبلی کے ارکان نے خفیہ رائے شماری کا طریقہ اس لئے طے کیا تھا کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان ‘جو سینیٹ انتخابات میں ووٹر ہوتے ہیں ‘سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے اثرسے آزاد ہو کر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں‘ لیکن خفیہ رائے شماری عملاً ووٹروں کی خرید و فروخت اور بازارِ سیاست میں ضمیروں کی نیلامی‘ خیانت اور بدعنوانی کی ترویج کا بڑا ذریعہ بن گئی۔ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات (فروری 2018ئ) میں اس کے باعث نہایت حیران کن نتائج سامنے آئے۔ مبینہ طور پر خیبر پختونخوا میں سینیٹ کیلئے ووٹروں کی خریدوفروخت 80کروڑ روپے سے بھی تجاوز کر گئی اور تحریک انصاف کی بعض خواتین ارکان نے ووٹوں کی خرید و فروخت میں حصہ لے کر وزیر اعظم کو بھی حیرت زدہ کردیا تھا ‘ جس پرعمران خان نے جمہوری طریقے کے مطابق ان خواتین کو پارٹی سے خارج کر دیا تھا۔ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں صرف تین نشستیں رکھنے والی جماعت نے اپنے دو سینیٹرز منتخب کر وائے اور جس پارٹی کا ایک رکن بھی صوبائی اسمبلی میں نہیں تھا اس کی جانب سے بھی امیدوار لائے جانے سے دھاندلی کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔ قانون سازی کے ماہرین کیلئے بتاتا چلوں کہ فروری 2009ء میں سینیٹ کے الیکشن میں ریکارڈ توڑ ہارس ٹریڈنگ دیکھنے میں آئی تو میں نے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ قاضی محمد فاروق کی منظوری سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو الیکشن کمیشن کی سفارشات پیش کی تھیں کہ سینیٹ کے انتخابات کو خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹ کا طریقہ متعارف کرواتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 226میں ترمیم کی جائے اور سینیٹ کے ارکان کا انتخاب وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخابات کی طرز پر عوام میں ڈویژن کے ذریعے کروایا جائے ۔اُس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان اور صدر آصف زرداری نے الیکشن کمیشن کے اس مؤقف کی تائید کی تھی۔ صدرزرداری کی یہ آرا ریکارڈ پر ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں سودے بازی ختم کرکے شو آف ہینڈ کا طریقہ رائج کیا جانا چاہئے اور میں نے جو رپورٹ وزیراعظم ‘صدر‘ اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوائی تھی اب بھی یقینا الیکشن کمیشن میں محفوظ ہوگی‘ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ضمیروں کی نیلامی کے راستے کھولنے والے طریقے کو تبدیل کر کے سیاسی کرپشن کے ایک بڑے دروازے کو بند نہ کیا جا ئے ۔
حکومت نے سینیٹ کے انتخابات کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا جو فارمولا وضع کیا ہے اس کے مطابق سینیٹ کے بیلٹ پیپرز پر ووٹرز کے نام درج ہوں گے اور ووٹر کو لازمی طور پر پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا ہوگا‘مگر میری رائے میں یہ طریقہ کار بین الاقوامی جمہوری اقدار کے خلاف اور مضحکہ خیز ہے ۔ میری تجویز یہ ہے کہ سینیٹ کے ارکان کے انتخابات کے لیے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے جو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخابات کے لیے آئین میں درج ہے ۔سیاسی جماعتوں میں ماہرین کی کمی نہیں ‘ لہٰذا آسان طریقہ اختیار کرتے ہوئے سیاسی ماحول کو خیانت سے پاک کرنے کی جانب نتیجہ خیز پیش رفت ممکن بنائی جائے ۔
اب کچھ ذکر پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کا ‘ اور اس میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ نئے بلدیاتی ایکٹ 2019ء کے تحت پنجاب کے شہروں میں یونین کونسل جبکہ دیہات میں تحصیلوں اوردیہی کونسلوں کے قیام کے لیے انتخابات کا پہلا مرحلہ نومبر‘ دسمبر میں مکمل کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کیلئے الیکشن کمیشن کی مشینری بھی فعال ہوچکی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کی کسوٹی صحت مند اور بااختیار بلدیاتی ادارے ہوا کرتے ہیں‘لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان سے اب تک سب سے زیادہ تجربات بلدیاتی اداروں ہی پر کیے گئے ہیں۔ یہ ادارے طویل دورانیے کیلئے معطل رہے اور بحالی کے زمانے میں بھی سیاسی مداخلت نے انہیں کامیابی سے چلنے نہیں دیا۔ بلدیاتی سسٹم میں استحکام نہ ہونے کا نتیجہ یہ کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی شہری پینے کے صاف پانی اور صحت و صفائی جیسی بنیادی سہولتوں کے فقدان کا سامنا کرتے ہیں۔ اسی پس منظر میں وزیراعظم نے متذکرہ سہولتوں کی گراس روٹ لیول تک فراہمی کی غرض سے یہ نظام متعارف کروایا اور اس کے تحت صوبے کے بجٹ کا تینتیس فیصد حصہ بلدیاتی اداروں کو ملے گا‘ جو خوش آئند ہے؛تاہم اس کا مؤثر نفاذ حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔ الیکشن کمیشن آئینی و قانونی طور پر غیر جانبدار ہے لیکن پنجاب حکومت میں وزیر اعلیٰ اور وزرا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کی جو تشریح کر رہے ہیں اس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے ۔ پنجاب حکومت نے دو الگ الگ قانون متعارف کروائے ہیں ـ‘ـ ایک مقامی حکومتوں کے بارے میں اور دوسرا ویلیج پنچایت اور اور نیبر ہڈکونسلوں کے بارے میں ہے‘ جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے‘ جبکہ خیبرپختونخوا میں ایک ہی منظم نظام ہے اور ویلیج و نیبرہڈ کونسلیں باہم مربوط ہیں۔ ایک نیا تصور تحصیل کونسل کا متعارف کروایا گیا ہے جسے سٹی کونسل کہیں گے‘ مگر یہ بھی پرانے نظام میں نیا اضافہ ہے ۔اس طرح پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ بادی النظر میں آئین میں وضع کردہ ہدایات کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ پنچایت اور نیبرہڈ والے قانون میں مقامی حکومت کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا کیونکہ مقامی حکومت کا لفظ استعمال کیا جائے تو پھر آرٹیکل 140اے کے تحت صوبوں کو اختیارات مل جاتا ہے۔ موجودہ حالت میں شاید وفاق مستقبل میں اس طرح کا کوئی قانون بنانے کا ارادہ رکھتا ہو۔بہرکیف یہ دونوں قوانین(مقامی حکومتوں کا اور ویلیج پنچایت اورنیبر ہڈکونسلوں کا ) ایک دوسرے سے مکمل مطابقت نہیں رکھتے‘ جبکہ دونوں قانون حکومتی اور ریاستی اداروں کے اختیارات کی بالادستی نمایاں کرتے ہیں۔ کنٹرول‘ بالا دستی‘ نگرانی اور برخاستگی و معطلی کا اختیار حکومت کے پاس ہے اور حکومت کا یہ اختیار شرائط سے بالاتر ہے۔ حکومت کے پاس اختیار ہوگا کہ مقامی حکومتوں کو ہدایات اور نگرانی کے لیے جوائنٹ اتھارٹی قائم کرے جس میں پبلک سرونٹ اور منتخب نمائندے شامل ہوں ۔
نیا لوکل گورنمنٹ سسٹم ماضی کے ماڈلوں کا چربہ بھی لگتا ہے؛ البتہ چند پہلو نئے ہیں۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن ‘میونسپل کارپوریشن‘ میونسپل کمیٹیاں‘ قانون کمیٹیاں‘ تحصیل کونسلیں ماضی کے مختلف ماڈل میں بھی رہی ہیں جو نئے ماڈل میں بھی موجود ہیں۔ ماضی کے تمام ماڈلوں میں دیہی آبادی کے لیے ضلع کونسلیں اور صدر پرویز مشرف کے ماڈل میں ضلعی حکومت کا تصور موجود تھا۔ پنجاب ویلیج پنچایت اینڈ نیبرہڈ کونسل ایکٹ 2019ء کے تحت پنجاب بھر میں دیہی علاقوں میں ویلیج پنچایت اور شہری علاقوں میں نیبرہڈ کونسل متعارف کروائی گئی ہیں‘ انہیں مقامی حکومت نہیں کہا گیا‘ ان کا کوئی قانونی اور تنظیمی تعلق مقامی حکومتوں کے ساتھ ہوگا‘ الیکشن ایکٹ 2017ء میں بھی اس کا تصور موجود نہیں ہے اور میئرکے براہ راست انتخابات کے لیے بھی وفاقی الیکشن ایکٹ میں ترامیم کرنا ہوں گی۔ یہ بالکل نیا تجربہ ہے اور بظاہر انڈیا کے لوکل گورنمنٹ سسٹم سے ملتا جلتا ہے جہاں پنچایتی راج آئین کے تحت ہے اور مقامی حکومتیں سٹیٹ قوانین کے تحت ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ اپوزیشن اس تاک میں ہے کہ اکتوبر‘ نومبر 2020ء میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کو عدالتوں میں چیلنج کر کے انتخابات ملتوی کروادیے جائیں۔ان حالات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ انتخابات سے قبل آئینی و قانونی پیچیدگیاں دور کی جائیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں