"KDC" (space) message & send to 7575

مشیراور معاونین، دائرہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ دیتے ہوئے وزیراعظم کے مشیران اور خصوصی معاونین کا کردار عملی طور پر ختم کر دیتا ہے۔ عدالتی فیصلہ خصوصی معاونین کو غیر فعال بنادیتاہے اور مشیروں کا کردار پارلیمنٹ تک محدود کر دیا ہے۔اس عدالتی فیصلے کے مطابق مشیروں اور خصوصی معاونین کو پالیسی سازی کے فیصلوں ‘ ایگزیکٹو اتھارٹی کے استعمال اور کسی بھی فورم پر سرکاری ترجمان کی حیثیت سے کام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے آرڈر نے تمام عملی مقاصد کے لیے مشیروں اور خصوصی معاونین کو کابینہ کی اہم کمیٹیوں کی سربراہی‘ اجلاسوں کے انعقاد ‘ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں حکومت کی نمائندگی کرنے اور پالیسی فیصلے لینے اور ان کا اعلان کرنے سے عملی طور پر روک دیا ہے‘ جو اِن کو غیر اہم بنا دیتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں حکومت کے لیے انتہائی گہرے مضمرات ہوں گے کیونکہ یہ لوگ مشیر اور معاون خصوصی یا وزیر مملکت کی حیثیت سے حکومت میں عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتے‘کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے‘کوئی پالیسی سازی نہیں کر سکتے اور ہدایات بھی جاری نہیں کر سکتے۔ ان کا کردار محض مشیر اور درباری کا رہ گیا ہے اور وہ صرف سفارشات پیش کر سکتے ہیں‘ لیکن جب ان پر عملدرآمد کا وقت آئے گا تو وہ کچھ نہیں کر سکتے‘ ان کی حیثیت بادی النظر میں اکبر بادشاہ کے دربار مین تان سین کی مانند ہو گئی ہے جس کا کام صرف سر بنانے اور بھیروی گانے تک محدود تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کے اندر ملک کو عظیم معاشی قوت بنانے کی تڑپ ہے‘ لیکن ان کو دہری شہریت کے حامل معاونین نے محدود کر دیا تھا اور کچھ ایسے بھی مشیر مقرر کیے گئے ہیں جنہوں نے اپنے سابقہ آقائوں کو جلا وطن کروا یا ۔ عمران خان ایسے ہی مشیروں کے نرغے میں ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے سے خان صاحب کے لئے محفوظ راستے کی نشان دہی کر دی گئی ہے تاکہ وہ اس نرغے سے باہر آ جائیں۔ وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی اپنے معاون خصوصی اور چند مشیروں کو ایوانِ وزیر اعظم تک محدود کر رکھا تھا۔ ان کا کام وزیر اعظم کو پالیسی اور منصوبوں کے خاکے بنا کر دینے تک محدود تھا۔ ان کے طاقتور مشیر یوسف بُچ کا کام صرف وزیر اعظم کو بین الاقوامی فورم کے لیے تقاریر لکھ کر دینے تک محدود تھا ‘لیکن وزارت اطلاعات و نشریات بھی عملاً انہی کی تحویل میں تھی جبکہ مولانا کوثر نیازی کو اس لیے فارغ کردیا گیا کہ وہ اپنی حدود سے باہر نکل آئے تھے۔ اسی طرح زرعی امور کے ماہر ملک خدا بخش بچہ انتخابی اور سیاسی امور کے ماہر ملک حیات ٹمن بھی وزیر اعظم بھٹو کی خاموشی اور رازداری سے معاونت کرتے رہے۔ انہوں نے کبھی اجلاسوں میں شرکت نہیں کی۔ وزیر اعظم بھٹو کی ٹیم میں کوئی دلیپ کمار سٹائل کا معاون خصوصی نہ تھا۔ ان کے سیاحتی امور کے معاون خصوصی خالد وحید اُس زمانے کے انتہائی خوبصورت‘ متحرک اور ذہین ترین شخصیت تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کے معاونین میں ایسی شخصیات کا فقدان ہے۔ صدر ایوب خان کے مشیر وں میں سید فدا حسین اکلوتے مشیر تھے جو انتہائی خاموشی سے‘ انتظامی امور سے الگ تھلگ رہ کر صدر ایوب خان کی معاونت کرتے رہے۔ مشیر بننے سے پہلے وہ صدر ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے پہلے دور میں انتہائی قابل مشیروں کا انتخاب کیا جن میں راؤ عبدالرشید خان‘ میجر جنرل ریٹائرڈ امتیاز اور اقبال اخوند جیسی شخصیات شامل تھیں‘ لہٰذا وزیر اعظم عمران خان کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں معاونین خصوصی کے لیے رولز آف بزنس کے تحت علیحدہ ٹرم آف رولز بنانی چاہئیں۔ یاد رہے کہ معاونین خصوصی‘ مشیران اور طاقتور حلقوں میں غلط فہمیوں سے اختلافات کی خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔
معاشی حوالے سے بات کی جائے تو عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے یا اس فہرست سے نکالنے سے متعلق اجلاس کا وقت جو ں جوں قریب آتا جا رہا ہے اس ادارے کی شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس بارے میں درکار وقت ستمبر کے ابتدائی ہفتوں تک محدود معلوم ہوتا ہے۔ اس دوران پاکستان کی طرف سے ضروری دستاویزات اور تفصیلات جمع کرانے کے بعد اکتوبر میں جو فیصلہ آئے گا اس سے پاکستان کے مفادات کے حوالے سے بہت سے امور (مثبت یا منفی طور پر) متاثر ہو سکتے ہیں۔ وطن عزیز اگر وائٹ فہرست میں آ گیا تو تجارت و معیشت کے حوالے سے اس کے لیے کئی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی‘ مگر بلیک لسٹ میں آنے کی صورت میں پاکستان کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں‘ جبکہ گرے لسٹ میں رہتے ہوئے بھی وقتاً فوقتاً کئی مطا لبا ت کا سامنا رہا ہے‘ یوں مسائل کی دلدل میں گھرے ملک کے لیے پابندیوں کی صورت میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ بادی النظر میں حکومت اور اپوزیشن احتیاط کا راستہ نکالنے کے لیے مملکت کے مفاد کے ساتھ کھڑے ہیں‘ حکومت اور اپوزیشن میں اس حوالے سے محاذ آرائی نفسیاتی تاثر قائم رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے‘ اس لئے امید کی جاتی ہے کہ ملکی مفاد میں ایف اے ٹی ایف قوانین کی منظوری کی راہ جلد نکل آئے گی۔ ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے جن امور کا نگران ہے وہ پاکستان کے مفاد میں ہیں‘ وزیر اعظم عمران خان قومی سلامتی اور عوامی مفاد سے تعلق رکھنے والے ایف اے ٹی ایف قوانین منظور کرانے کا عزم ظاہر کرچکے ہیں‘ لہٰذا سخت الفاظ کے تبادلے سے اجتناب برتتے ہوئے احتیاط اور تدبر سے اس قانون سازی سمیت مشکلات سے باہر نکالنے کی راہ نکالنا ملک کے مفاد میں ہے کیونکہ بھارت پاکستان کو بند گلی میں دھکیلنے کی کوشش میں ہے۔ 
آگے بڑھتے ہیں‘ بلوچستان اور سی پیک کو زیرِ غور لاتے ہیں۔ بلوچستان کی ترقی اور سی پیک کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بلوچستان کی ترقی اور پاکستان کی ترقی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ چیئرمین سی پیک اتھارٹی‘ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازش کے تحت منظم میڈیا ٹرائل کروایا گیا‘ کیونکہ ان کے بیرونی دشمنوں کو احساس ہے کہ جنرل عاصم سلیم باجوہ اس عظیم منصوبے کے لیے مرد آہن ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کے دور میں جب وہ بلوچستان کے سدرن کمانڈر تھے بلوچستان میں دہشت گردی کسی حد تک کم ہو گئی تھی‘ مگر اب بلوچستان میں سی پیک کے خلاف سازشیں بڑھتی جا رہی ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو اپنے ملک میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے اور موساد کا نیٹ ورک بھی متحدہ عرب امارات میں قائم کر دیا گیا ہے۔ ان سارے معاملات کے باوجود جنرل عاصم سلیم باجوہ نے گوادر پورٹ کو فعال کر دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان کی پشت پناہی کرکے ملکی مفاد میں اہم قدم اٹھایا ہے۔ 1964ء کے عشرے میں جب پاکستان تیزی کے ساتھ ترقی کے مراحل طے کر رہا تھا تو سی آئی اے نے مبینہ طور پر پلاننگ کمیشن کی اہم کلیدی اسامیوں پر مامور بیوروکریٹس کی خدمات حاصل کر کے ان کے ذریعے ملک کے 22 خاندانوں کے خلاف مہم چلا کر ملک میں ترقی کا پہیہ جام کر دیا تھا۔ اسی طرح جنرل عاصم سلیم باجوہ کے خلاف شر انگیز مہم چلا کر غیر ملکی سازشی ادارے سی پیک کو منجمد کرنے کی کوشش کر رہے تھے‘ جسے حکومت اور عسکری اداروں نے ناکام بنا دیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں