"KDC" (space) message & send to 7575

پولیس: اہلیت اور رویے پہ سوالیہ نشان

اس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ کیپٹل سٹی پولیس آفیسر لاہورکے غیر ضروری بیان سے پنجاب پولیس کی کافی سبکی ہوئی ہے۔ اس بیان نے ان صاحب کی اہلیت اوررویے پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں اور اس افسر پر وزیراعظم عمران خان کے اعتماد کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔اس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کو انہیں اہم منصب سے سبکدوش کر دینا چاہیے تھا۔پنجاب کے نئے انسپکٹر جنرل پولیس انعام غنی کے لیے بھی یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ ان کے ماتحت افسر کو عوام کے دکھ‘ درد کا احساس نہیں۔ موٹروے پر رات گئے ایک خاتون جو اپنے کم سن بچوں کے ساتھ اکیلی تھی‘کار خراب ہونے سے مشکل میں پڑ گئی ‘مگر موٹروے کی انتظامیہ خوف زدہ خاتون کو دیگر اداروں سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیتی رہی۔ وزیراعظم پاکستان کو براہ راست ایکشن لیتے ہوئے موٹروے کے ان اہلکاروں کے خلاف بھی ایکشن لینا چاہیے جو خاتون کی کال نظرانداز کرکے اس کو درندوں کے ہاتھوں یرغمال بنانے کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ڈولفن پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔اُس اہلکار نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ انہیں دو بج کر 49 منٹ پر کال موصول ہوئی تھی‘ جائے وقوعہ پر پہنچے تو گاڑی کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا لیکن گاڑی میں کوئی نہیں تھا۔اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا‘ اہلکار نے آواز لگائی اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھ ہوائی فائر کیے۔ نیچے اترے تو خاتون کے منہ سے ''بھائی‘‘ کا لفظ نکلا‘ پاس گئے تو خاتون نے بچوں کو حصار میں لیا ہوا تھا ‘اس حالت میں دیکھ کر اہلکار کے رونگٹے کھڑے ہوگئے لیکن موٹروے انتظامیہ کے کال آپریٹر کی بے حسی دیکھئے کہ وہ خوف زدہ خاتون کو باور کروا رہا تھا کہ وہ موٹروے کی حدود میں نہیں ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون نے اُن درندوں کو دیکھ کر گاڑی کا شیشہ بند کر لیا تھا جس پر مجرمان نے اسے توڑا تو ان کا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا۔ ترجمان موٹروے پولیس کا بیان قابل مذمت ہے‘ جس کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ اُس علاقے میں پیش آیا جو ابھی موٹروے اینڈ ہائی وے پولیس کے حوالے نہیں کیا گیا ‘میرا موقف یہ ہے کہ انسانی ہمدردی کے ناتے موٹروے کے اہلکار کو فوری ایکشن لیتے ہوئے خود متعلقہ پولیس حکام کو مطلع کرنا چاہیے تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے پولیس میں اصلاحات کا جو ویژن دیا تھا سی سی پی او لاہور کے اندازِ افسری نے اس تصور کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کو اس افسر کے بارے میں جو انٹیلی جنس رپورٹ ملی تھی وہ بہت سخت تھی‘ جس کے مطابق ایسی شہرت کا حامل اس اہم عہدے کا اہل نہیں ۔ واللہ اعلم۔ اسی پس منظر میں وفاقی وزرا نے مذکورہ افسر کے رویے کی مذمت کی اور غیر جانبدارانہ انداز میں عوام کے موقف کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے نظر آئے۔
وزیراعظم عمران خان کو پولیس کے نظام میں اصلاحات لانی چاہئیں اور بین الاقوامی ادارے خاص طور پر جاپان کے سسٹم کو اپنانے کے لیے جاپان سے ماہرین کو بلانا چاہیے ۔جاپان میں انسپکٹر جنرل پولیس کا تصور نہیں ہے ‘وہاں چیف آف کانسٹیبل کا عہدہ ہوتا ہے اور معمولی واقعہ پر چیف کانسٹیبل اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتے ہیں۔موٹر وے جیسا واقعہ 1972ء میں عراق میں پیش آیاتھا جس پر متاثرہ خاتون نے صدر صدام حسین سے جنسی زیادتی کی شکایت کی تھی۔ صدام حسین کو عراق کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں چھ ماہ لگے اور جب ملزم کو خاتون کے سامنے پیش کیا گیا اور اس کی آواز سے خاتون نے اس کی نشاندہی کر لی تو صدر صدام حسین نے اپنے آفس میں اس مجرم کو گولی مار دی اور یہ تاریخی جملہ ادا کیا کہ عراق کی ساری بیٹیاں میری بیٹیاں ہیں۔ ہم پاکستان میں مجرموں کی سرکوبی کے لیے صدام حسین جیسے طریقہ کار کی ضرورت پر زور نہیں دے رہے‘ مگر جاپانی طرز پر پولیس کی اصلاحات تو لازمی کی جانی چاہئیں۔ صدر پرویز مشرف‘ صدر زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کے ادوار میں جن پولیس افسران کو ایوارڈ دیے گئے‘ ان پر از سرِ نو نظر ثانی کرنے کیلئے ڈاکٹر عشرت حسین اور ارباب شہزاد کی سربراہی میں کمیٹی بنائی جائے‘کیونکہ میرے خیال میں پولیس کو جو ایوارڈ دیے گئے ان میں قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا۔
اب کچھ بات ایک کتاب کی ہو جائے۔ ''اقبال اور کارل مارکس کا فکری قرب و بُعد‘‘ کی مصنفہ نے خوبصورت انداز میں اپنے مقالے میں ریاست کے حوالے سے سیر حاصل تبصرہ کیا ہے کہ دراصل تمام تاریخی اور معاشی جدوجہد کی بلند ترین شکل ریاست کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے‘ لیکن قانون ہو یا معاشیات‘ سیاست ہو یا سیاسیات سب مقتدر طبقے کی ترتیب شدہ صورتیں ہیں۔ اس طبقے نے کبھی ریاست کو اپنے اصل مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا ایسی ریاست چند کارندوں کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔ عہد ِحاضر میں ان کو سرکاری افسر کا نام دیا گیا ہے۔ جدید ریاست کا افسر شاہی کارل مارکس کے نزدیک درندہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا لیکن حلف لینے کے بعد ان کی سوچ میں حیرت انگیز تبدیلی آئی ہے کہ ملک کی اکثریت عوام حیرت زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ 90 لاکھ اوورسیز پاکستانی ہیں جو محب وطن ہیں اور دہری شہریت کے حامل زیادہ محب وطن لوگ ہیں اور ان سے زیادہ محب وطن ہمارے ملک میں بھی نہیں ہے۔ دراصل بین السطور میں وزیراعظم نے اوورسیز پاکستانیوں اور دہری شہریت کے حامل افراد کو خلط ملط کر دیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے اپنے اپنے حلقے میں ووٹ کا اندراج ہے اور ان کو نادرا نے پاکستان کے شناختی کارڈ فراہم کیے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس دہری شہریت کے حامل افراد کے اپنے اپنے ممالک کے پاسپورٹ ہیں اور ان کے نام انتخابی فہرست میں درج نہیں ہیں۔ چونکہ انہوں نے اپنے اپنے ممالک کے حلف اٹھائے ہوئے ہیں اور پاکستان کی شہریت ترک کی ہوئی ہے‘ لہٰذا ان کا معاملہ تارکین وطن سے مختلف ہے اور ان دہری شہریت کے حامل افراد کو پارلیمنٹ میں لانے کے لیے قانون سازی کے لیے جو بل تیار کیا جا رہا ہے وہ میری نظر میں متنازع اور ملک کے آئین کے بنیادی ڈھانچے سے انحراف ہے۔ 1973ء کی آئین ساز اسمبلی نے دہری شہریت کے حامل افراد کو انتخابی عمل سے باہر رکھا تھا‘ مگر ان کو پارلیمنٹ میں لانے کے لیے جو آئینی ترامیم کی جا رہی ہیں ‘اس میں ریاست کے مفاد کو پیش نظر رکھا جائے کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے تاریخی ریمارکس دیئے ہیں کہ دہری شہریت کے حامل مشیروقت آنے پر اپنا بریف کیس لے کر رفو چکر ہو جائیں گے۔جیسا کہ تانیہ ایدروس اپنا بیگ اٹھا کر چلی گئیں‘ جو مبینہ طور پر ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہی تھیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس پاکستان کے عوام کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ وزیراعظم کو اپنے ارد گرد دہری شہریت کے حامل معاونین خصوصی کا ماضی اور حال جاننے کے لیے انٹیلی جنس کی رپورٹوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ان سے انہیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں