"KDC" (space) message & send to 7575

انسدادِ منی لانڈرنگ قانون سازی

16 ستمبر کو حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے جو آٹھ اہم قوانین منظور کروانے میں کامیاب ہو ئی ہے ان میں سے تین کا تعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے ہے۔ مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے بلوں کی منظوری سے منی لانڈرنگ پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے کے مطالبات کی تعمیل کے لیے قانون سازی کا عمل بظاہر مکمل ہو گیا ہے‘ جس کے تحت منی لانڈرنگ فریم ورک کی مضبوطی سمیت کئی اقدامات یقینی بنائے جا سکیں گے۔گزشتہ مہینوں کے دوران 20 سے زیادہ تنظیموں پر پابندی‘ ان کے رہنماؤں کی گرفتاری اور اثاثوں کی ضبطی کے اقدامات بھی عمل میں لائے جا چکے ہیں؛چنانچہ اب توقع کی جانی چاہیے کہ بین الاقوامی ادارے کے مطالبات پورے ہو چکے ہیں اورپاکستان کی گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں آنے کی شرائط پوری کردی گئی ہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس عالمی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے سدباب کا نگران عالمی ادارہ ہے جو 1989 ء میں قائم ہوا اور پاکستان اس کا رکن ملک ہے۔ اس ادارے کے ذمہ ہے کہ وہ حکومتوں کو ایسے اقدامات اور قوانین تجویز کرے جن پر عمل پیرا ہوکر ممالک اپنے مالی معاملات میں شفافیت اور دہشت گردی کی مالی معاونت جیسی منصوبہ بندی کا سدباب کر سکیں۔ تجویز کئے گئے اقدامات پر عملدرآمد کی بنیاد پر ادارہ ممالک کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کرتا ہے‘ بلیک لسٹ‘ گرے لسٹ اور وائٹ لسٹ۔ بلیک لسٹ ممالک پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں‘ یوں بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور وہ ملک بین الاقوامی کاروبار کے حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ایئر لائنز پر بھی پابندیاں لگ جاتی ہیں‘ مختصریہ کہ ملک معاشی طور پر تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ گرے لسٹ میں موجود ممالک کو کچھ حد تک مالی معاملات چلانے کی اجازت ہوتی ہے‘ لیکن بین الاقوامی لین دین پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ ان ممالک کو بین الاقوامی کاروباری ادارے‘ مالیاتی ادارے اور بینک مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں‘ جبکہ وائٹ لسٹ میں شامل ممالک کو ہر قسم کے کاروبار‘ مالی معاملات اور تجارتی معاہدوں کی آزادی حاصل ہوتی ہے اور بین الاقوامی طور پر ایسے ممالک کو اعتماد کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف سے پاکستان کا تعلق اونچ نیچ کا رہا ہے۔ 2008ء میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو منی لانڈرنگ کے شدید خطرات کا حامل قرار دیا اوراسے ان معاملات میں ایف اے ٹی ایف کے ساتھ تعاون سے گریز کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا۔ 2012 ء میں دوبارہ پاکستان کے طرزِ عمل پر سوالیہ نشان لگ گئے اور ملک کو گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔ 2015ء میں متعلقہ قوانین میں ترامیم اور منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے معاملات میں عالمی قواعد و ضوابط کے مطابق اقدامات پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا؛ تاہم پانامہ کیس کے فیصلے کی روشنی میں اور نواز شریف کی جارحانہ سیاسی مہم کے بعد پاکستان کو وائٹ لسٹ سے نکال کر دوبارہ گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا اور بلیک لسٹ ہونے کی تلوار بھی سر پر لٹکنے لگی۔ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کروانے کیلئے بھارت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔گزشتہ دو برس میں ایف اے ٹی ایف کے تین اجلاس ہوئے جن میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کا معاملہ ایجنڈے پر شامل تھا‘ لیکن بہترین اقدامات اورسفارتی حکمت عملی کے سبب پاکستان تینوں بار بلیک لسٹ میں جانے سے محفوظ رہا اور ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیے گئے اہداف پر عمل درآمد کیلئے مہلت ملتی رہی۔ اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مذکورہ بل منظور کروائے جانے کے بعد بین الاقوامی ادارے کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ انسداد منی لانڈرنگ کا قانون صرف ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی وجہ سے ضروری نہیں تھا بلکہ اس قانون کا منظور کیا جانا ملک کے اپنے مفاد میں بھی ہے کیونکہ منی لانڈرنگ ہمارے معاشی نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے اور جب تک اس حوالے سے کوئی قانونی نظام وضع نہیں کیا جاتا اور سخت اقدامات کے لیے قانونی نظام تیار نہیں ہوتا اس مالی جرم پر قابو پایا جانا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
اس حوالے سے منعقدہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران 26 ارکان پارلیمنٹ غیر حاضر رہے۔ ان میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے چھ جبکہ اپوزیشن کے 16 اور مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے چار ارکان شامل تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چار‘ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے آٹھ جبکہ جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن اجلاس سے غائب رہا۔ ان ارکان میں آصف علی زرداری خورشید شاہ، روشن علی جونیجو‘ خالد لُنڈ، عامر مگسی، غلام علی تالپور، مخدوم جمیل الزماں اور ساجد طوری شامل تھے۔ مسلم لیگ( ن) کے احمد رضا لالیکا‘ افضل کھوکھر‘ احسان باجوہ اورریاض پیرزادہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے‘ تحریک انصاف کے امتیاز چودھری، عاصم نذیر، احمد حسن وٹو، عبدالمجید خان اور عامر لیاقت اس مشترکہ اجلاس سے غیر حاضر تھے‘ جبکہ مسلم لیگ (ق) کے مونس الٰہی، عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر ہوتی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے اخترمینگل بھی اجلاس میں نہیں آئے۔
اس دوران جب حکومت نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف اتنے اہم اقدامات کئے ہیں ‘ حکومت کو حالات کا دوسرا رخ بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ موٹر وے پر زیادتی کے وقوعے کے بعد عالمی میڈیا پاکستان کو غیر محفوظ ملک کے طور پر پیش کر رہا ہے؛چنانچہ اس اندیشے کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا کہ انسداد منی لانڈرنگ کی قانون سازی کے باوجود خواتین کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر دیتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا جائے۔اس حوالے سے یقینی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے بہر کیف یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کے دشمن ممالک نے طویل اور منظم منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور سوشل میڈیا پر ایک ایسی بحث چل نکلی ہے جو اندرون ملک فساد پھیلانے اور عالمی سطح پر ملک کو بدنام کرنے کیلئے کافی ہے۔ پاکستان کے مخالف ممالک ڈیجیٹل میڈیا میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے قومی مفادات کی جنگ اور پراکسی وار کو پوری شدت کے ساتھ پاکستان منتقل کر رہے ہیں۔ ان کی نظریں دفاعی‘ سیاسی‘ معاشی‘ لسانی ‘ثقافتی ‘ نسلی اور مذہبی اعتبار سے پاکستان کے اہم مقامات پر لگی ہوئی ہیں اور بظاہر ان کا مقصد پاکستان کو بطور ریاست کمزور کرکے اس پر دباؤ بڑھانا اور 7 ستمبر1974ء کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے فیصلے میںایسی ترامیم کروانا مقصود ہیں‘ جن سے ان کیلئے پاکستان میں دروازے کھل جائیں۔ آئین سے دُہری شہریت کی شق میں ابہام پیدا کرنا بھی ان کا مخصوص ایجنڈا ہے۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان اب سیاسی محاذ آرائی سے گریز کریں۔ کرپشن اور بدعنوانیوں کے معاملات کو قومی احتساب بیورو احسن طریقے سے دیکھ رہا ہے‘ لیکن وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘ لہٰذا حکومت کو اپنے دامن کی صفائی پر بھی پوری توجہ دینی چاہیے‘ کیونکہ اگر اس پہلو پر توجہ نہ دی گئی اور حکومت کے کچھ لوگ شفافیت کے حوالے سے الزامات کی زد میں آ گئے تو حکومت بد عنوانی کے خلاف اقدامات کے جواز سے محروم ہو جائے گی۔ موجودہ حالات میں یہ پاکستان کی سیاست‘ ریاست اور عوام کے لیے زبردست دھچکا ہو گا۔ اس حکومت کے ساتھ قوم کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں اور یہ امیدیں ٹوٹنے کی صورت میں قوم کے لیے نہ صرف سیاسی بحران جنم لے گا بلکہ اسے ایک معاشرتی زوال سے بھی دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں