"KDC" (space) message & send to 7575

اپوزیشن کے ممکنہ استعفے اور سیاسی بحران

بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات ‘مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی پامالی اور لائن آف کنٹرول پر محاذ کو گرم کرنے کا سلسلہ پوری شدت سے جاری ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار کے مختلف حربے بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں‘ جبکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پیدا کیے گئے اور مختلف سمتوں سے سامنے آنے والے دیگر چیلنجز متقاضی ہیں کہ خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے چوکنا رہا جائے۔
جس انداز سے موسمی حالات اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تیاری کا جائزہ لیا جا تا ہے اسی طرح میدانِ سیاست کے کھلاڑیوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اپنی پارٹیوں کے معاملات اور دیگر سیاسی پارٹیوں سے تعلقات میں یہ بات ملحوظ رکھیں کہ ہر سطح پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور جمہوری رویوں کو زیادہ مؤثر انداز میں بروئے کار لایا جائے۔ وفاقی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے خلاف بغاوت کیس سے نہ صرف لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ وزیراعظم سمیت متعدد حکومتی افسران نے اس پر رد عمل بھی ظاہر کیا‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس شخص نے شاہدرہ پولیس سٹیشن میں بغاوت کا مقدمہ درج کرایا اس کے بارے میں اداروں کو تحقیقات کرنی چاہئے۔ ہائی پروفائل مقدمہ انسپکٹر جنرل پولیس کی منظوری کے بغیر درج نہیں کیا جا سکتا ‘جب 11 نومبر 1974ء کو احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے حوالے سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور کے مزنگ تھا نہ میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے درخواست دی گئی تو ایس ایچ او نے رات ڈھائی بجے انسپکٹر جنرل پولیس سے رابطہ کیا تھا اور انہوں نے ایف آئی آر درج کرنے کی منظوری دے دی تھی۔ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں ‘ جن میں آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر بھی شامل ہیں‘ کے خلاف ایک جرائم پیشہ کی درخواست پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تو وزیر اعظم کو براہ راست پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس سے بات کرنی چاہیے تھی۔ اس پر بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ بغاوت کے اس مقدمے سے عالمی سطح پر کشمیر کے بارے میں پاکستان کا مقدمہ بھی متاثر ہوا ہے۔ یہ مقدمہ درج کرانے والا شخص بھارتی ایجنسی کا کارندہ بھی ہو سکتا ہے۔ پولیس سٹیشن نے مقدمہ درج کرتے ہوئے پولیس کے اعلیٰ حکام سے بھی اجازت حاصل نہیں کی جبکہ ایف آئی آر ایک فرد واحد کی جانب سے درج کرائی گئی ہے۔ ایف آئی آر متعلقہ عدالت کے فیصلے کی روشنی میں خارج ہو سکتی ہے ۔
ماضی کی غلطیوں کی طرح اب نہ صرف ہمارے سیاستدانوں کو ایک دوسرے کو غدار اور باغی قرار دینے کی روش ترک کر دینی چاہیے بلکہ بلا ثبوت الزام‘ جو اعلیٰ معاشرتی روایات کے حوالے سے ناپسندیدہ ترین عمل ہے‘ سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ بہت سے معاملات میں حکومت اور اپوزیشن کو ملکی مفاد کے لیے مل کر چلنا ہوتا ہے ‘ اس لیے مخالف نقطہ نظر پر طعن آمیز رویہ اختیار کرنے کے بجائے گہرائی میں جاکر تجزیہ اور قومی مفاد کی پاسداری کی راہ اختیار کرنا بہتر ہے۔ اس طرح کی روایات کے دوررس نتائج ہوتے ہیں۔ جہاں تک احتساب کا تعلق ہے تو چیک اینڈ بیلنس کے طریقہ کار سے ہر ایک کو گزرنا ہوتا ہے اور اس بارے میں فیصلہ دینا عدلیہ کی ذمہ داری ہے‘ ہمیں اپنی سطح پر جمہوری روایات کو فروغ دینا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت امور خارجہ اور امور داخلہ کے محاذ پر ناکام نظر آرہی ہے۔ حکومتوں کی کارکردگی کے بارے میں عوامی رائے معلوم کرنے کا آج کے دور میں ایک اہم ذریعہ غیر سیاسی اور پیشہ ورانہ تحقیقی اداروں کی ریسرچ ہے‘ جس کی روشنی میں حکومتیں اپنی کارکردگی پر غور کرتی ہیں اور پالیسیوں کو بہتر بناتی ہیں۔ Ipsos ایک 45 سالہ تجربہ رکھنے والی گلوبل مارکیٹنگ ریسرچ فرم ہے جس کا ہیڈکوارٹر پیرس میں ہے جبکہ دنیا کے 88 ملکوں میں اس کی شاخیں کام کر رہی ہیں۔ اس ادارے کی جانب سے پاکستان کی موجودہ حکومت کی کارکردگی سے متعلق عوامی جائزے کے نتائج گزشتہ ماہ جاری کیے گئے۔ رائے عامہ کے اس سروے کے منظر عام پر آنے والی رپورٹ کی رو سے ہر پانچ میں سے چار پاکستانیوں کے نزدیک بحیثیت مجموعی ملک کی موجودہ صورتحال غلط سمت میں گامزن ہے۔ شہریوں کی بھاری اکثریت نے معاشی بہتری کے حکومتی دعووں کو بھی رد کیا اور آئندہ چھ ماہ میں قومی معیشت کے مزید ابتر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ملکی معیشت پر عوامی اعتماد بحال نہیں ہو سکا ہے‘ مہنگائی پر تشویش ظاہر کرنے والوں میں گزشتہ برسوں کی نسبت 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ معیشت کو مضبوط کہنے والوں کا تناسب صرف چھ فیصد رہا جبکہ 41 فیصد نے معیشت کو کمزور قرار دیا اور 53 فیصد نے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ 21 فیصد نے مستقبل میں اقتصادی بہتری کی امید ظاہر کی ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کے سروے کا ناقدانہ جائزہ لینے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کو اصلاحات کے لئے ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور وزیر اعظم اپنی کابینہ کی کارکردگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وسیع پیمانے پر اصلاحات لائیں۔ انہوں نے ٹیکنوکریٹس کی تجاویزاکٹھی کی ہوئی ہیں اور قومی احتساب بیورو کی نظریں بھی ان پر لگی ہوئی ہیں۔
اپوزیشن کی صفوں میں حقیقی اتحاد کی روح نظر نہیں آتی اور یوں لگ رہا ہے کہ مارچ 1977ء کی طرح اس بار بھی احتجاجی تحریک سیاسی رہنماؤں کے مفادات کی نذر ہو جا ئے گی۔ اس پس منظر میں اب اگر قومی اسمبلی کے 160 اپوزیشن اراکین مستعفی ہو گئے تو حکومت کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی مذاکراتی حکمت عملی اپنانا پڑے گی اور نیا راستہ نکالنا پڑے گا۔ ممکن ہے استعفوں کے بعد انتخابات کرانا پڑ جائیں‘ بہرحال اپوزیشن کے مستعفی ہونے سے سینیٹ کے الیکشن متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ الیکٹورل کالجز بحال اور فعال رہیں گے جبکہ صدر کے الیکشن میں الیکٹورل کالجز اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بہرکیف اپوزیشن کے استعفیٰ کی مہم سے حکومت بند گلی میں کھڑی ہو جائے گی اور ایسا ماحول وزیراعظم صاحب نے پیدا کر دیا ہے کہ ان کے اتحادی بھی ایسے بحران کے وقت ان کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ اگست‘ ستمبر 2014ء میں عمران خان کی تحریک کی کامیابی کی پشت پر ڈاکٹر طاہرالقادری کی حمایت تھی اور ان کی منظم سیاسی جماعت ان کی پشت پر کھڑی تھی۔ میرا پھر مشورہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنے اردگرد نادان دوستوں پر گہری نظر رکھنا ہوگی‘ جن کی ایما پر لاہور کے ایک نواحی پولیس سٹیشن میں بغاوت کے مقدمات درج کرائے گئے۔ا گر اس شخص نے اپنے طور پر بغاوت کا مقدمہ درج کرایا ہے تو اس کی ایف آئی آر کی انکوائری کرائی جائے‘ کیونکہ آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم اور دیگر 40 سے زائد رہنماؤں پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ جو شخص پاکستان کے خلاف جنگ کی کوشش کرے گا اسے سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی ‘ یہ شق نواز شریف نے 2016ء میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی جارحانہ تقاریر کا راستہ روکنے کے لیے ہی شامل کی تھی۔ اس میں زیادہ سے زیادہ 14سال کی سزا شامل ہے۔ مکافات عمل دیکھئے اس شق کو نواز شریف اور ان کے بڑے ہمنواؤں میں شامل 40 ارکان کے خلاف بروئے کار لاتے ہوئے بغاوت کا مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں