"KDC" (space) message & send to 7575

استعفے نمائشی ہوں گے؟

اندیشہ ہے کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے اپوزیشن ارکان کے ممکنہ استعفوں کی صورت میں پاکستان ایک بار پھر تصادم کی سیاست کے راستے گامزن ہو سکتا ہے۔ اگست 2014ء(آزادی مارچ) کی نسبت یہ ممکنہ تصادم بہت گہرا ہو گا اور ہمارے سیاسی اور سماجی نظم و نسق کے لیے خوفناک پولرائزیشن کااندیشہ ہے۔ سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کی وجہ سے معاشی بحالی کی کوششوں اور سی پیک کے عظیم منصوبوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے‘مگر تشویش کا موجب یہ بھی کہ وزیراعظم کااپنے وزرا پر کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ دو وفاقی وزرا اور ایک ترجمان اپوزیشن کو اشتعال دلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور تحریک ِ انصاف کے کارکن تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں نہ صرف پارلیمنٹ یعنی سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں عددی اعتبار سے مضبوط ہیں بلکہ پارلیمنٹ سے باہر پنجاب‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی ان کا بہت اثر و رسوخ ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے منشور کے مطابق اپوزیشن کی کرپشن کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اور ان کے مقدمات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں‘ اس کے باوجود وہ کابینہ معاملات سے نبرد آزما ہونے کے سلسلے میں بہت مضبوط دکھائی نہیں دیتے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ تذبذب کا شکار ہیں اور ترجمان ذہنی انتشار میں مبتلا ہیں مگر ایک بات یاد رہے کہ کشیدگی بڑھی تو یہی ترجمان بریف کیس اٹھائے اپنے اصل وطن کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو حالات کی سنگینی اور بین الاقوامی سازشوں کا ادراک نہیں ہے کیونکہ ان کے ہاں کوئی ایسا فوکل پرسن موجود ہی نہیں جو ان کو حالات سے آگاہ کرنے کے لیے ملک کے تجزیہ کاروں‘ دانشوروں اور دیگر ذرائع سے تجزیات حاصل کرے اور انہیں وزیراعظم تک پہنچائے۔ پرویز مشرف نے طارق عزیز‘ جنرل حامد جاوید مرحوم اور بریگیڈیئر نیاز احمد کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں جو ان کو خاص لوگوں کی رپورٹس کے ساتھ ساتھ عوام کی صحیح تصویر بھی پیش کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح صدر آصف علی زرداری نے سلمان فاروقی کی تشکیل دی ہوئی بیورو کریسی پر انحصار کیا اور متنازع نظریات کے حامل دوستوں سے فاصلہ رکھا۔ بطور تجزیہ کار اور سول سروس کے طویل تجربے کی روشنی میں‘مجھے احساس ہے کہ بعض غیر ملکی ادارے پاکستان میں خلفشار برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔مجھے 2006ء میں سابق امریکی سفیر پیٹرسن نے بتا یا تھا کہ صدر بش کی ڈاکٹرائن کے مطابق صدر پرویز مشرف کا سورج غروب ہو رہا ہے اور جو تجربہ صدر بش نے مصر کے صدر حسنی مبارک کے انتخاب میں کیا تھا‘ اب وہی ناکام فارمولا پاکستان میں نافذ نہیں کیا جائے گا اور ایک نئی سوچ کے تحت 2007ء کے انتخابات کے موقع پر بے نظیر بھٹو پاکستان میں موجود ہوں گی۔ میں نے جب ان سے نواز شریف کے مستقبل کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ امریکی ڈاکٹرائن کا نواز شریف سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ وہ سطحی نوعیت کے سیاستدان ہیں۔اس طرح کے اشارے لازمی طور پر وزارت ِ خارجہ کے سینئرزاور ماہرین کو بھی موصول ہو رہے ہوں گے اور میری دانست میں وزارت ِ خارجہ کی محب وطن بیوروکریسی اپنے خدشات اورتحفظات وزیراعظم تک پہنچانے میں مشکل کا شکار ہو گی کیونکہ وزیر اعظم کے گرد چند مخصوص لوگ آئرن کر ٹین بنائے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے بااعتماد فوکل پرسنز مقرر نہیں کئے جو اُن کو ملک اور بین الاقوامی سازشوں سے آگاہ کر تے رہیں۔ مجھے تشویش ہے کہ اپوزیشن کو ٹکراؤ کی حد تک لانے میں ان وزرا کا اہم کردار ہے جو خفیہ طور پر اپوزیشن کے طاقتور حلقوں سے رابطے میں ہیں‘ اور جنہوں نے وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی دعوت دی تھی۔
اگر اپوزیشن جماعتوں کے تمام اراکین استعفیٰ دیتے ہیں تو میرا اندازہ ہے کہ الیکشن کمیشن کیلئے سینیٹ الیکشن کا انعقاد مشکل ہو جائے گا۔ ویسے آئینی طور پر کمیشن الیکشن کرانے کا پابند ہے‘ تاہم استعفوں کی صورت میں ملک میں سخت قسم کا سیاسی بحران آ جائے گا اور اخلاقی طور پر سیاسی بحران والے حالات میں حکومت کو دوبارہ مینڈیٹ حاصل کرنے کیلئے ضمنی الیکشن کے بجائے عام انتخابات کرانا پڑیں گے‘ نیز فروری 2021ء میں سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد بھی مؤخر کرنا پڑے گا ‘جبکہ انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت سینیٹ کے انتخابات کراسکے گی۔
شہباز شریف سیاسی جنگ میں پیادے کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے قریبی دوستوں کی وساطت سے ہی خبریں مل رہی ہیں کہ وہ ملک کی سیاسی صورتحال سے مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں ‘ اسی وجہ سے انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے اپنی ضمانت کی درخواست واپس لی تھی اور اپنی خواہش اور آئندہ کی حکمت عملی کے تحت قومی احتساب بیورو کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان کو اس سیاسی جنگ اور نواز شریف کی حکمت عملی کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہے۔ دوسری جانب اندرونِ ملک جاری سیاسی جنگ کو تیز کرنے کے فرائض شیخ رشید احمد نے سنبھال رکھے ہیں۔ وہ دو دھاری تلوار سے ایک طرف اداروں کا دفاع کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں‘ لیکن بین السطور میں وہ اشتعال بھی پھیلا رہے ہیں۔ پوری قوم اپنی افواج پر اعتماد رکھتی ہے ‘ان سے محبت کرتی ہے اور متحدہ طور پر افواجِ پاکستان کی پشت پر کھڑی ہے‘ اس لیے شیخ رشید کے یہ ریمارکس کہ وہ فوج کے خلاف بولنے والوں کی زبان کھینچ لیں گے‘ غیر ضروری ہیں اور تکبر سے خالی نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جنگ میں فریقین منصوبہ بندی کرتے نظر آ رہے ہیں اور نظام عدل بھی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دیتا۔ وزیراعظم کے کنونشن سنٹر اسلام آباد میں خطاب پر جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس سے صورتحال قانونی طور پر سنگین ہو گئی ہے جبکہ الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس بھی آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔اُدھر بلدیاتی انتخابات کرانے میں بھی وفاقی حکومت سنجیدہ نظر نہیں آ رہی ۔
اس ساری صورتحال میں کچھ ادارے بہت سے معاملات سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ عوام کے مسائل کے حل پر حکومت کی توجہ کم ہے‘ دوسری طرف اپوزیشن کو صرف ووٹ کی حرمت کی نام نہاد فکر ہے اور یہ اُس وقت سے ہے جب سے کرپشن کے معاملات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔اس صورتحال میں اگلے چند ہفتے پاکستان کیلئے اہم نظر آ تے ہیں۔اندرون ملک سیاست کی جنگ نے ملک کی معاشی حیثیت کو بھی بدحال کر رکھا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور نا اہل مشیروں کی وجہ سے وزیراعظم کی معاشی مثبت پالیسیاں مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر دکھائی دے رہی ہیں۔ اسی طرح حکومت میں کرپشن نچلی سطح پر کینسر کی طرح پھیل چکی ہے۔ میجر(ر) طاہر صادق نے اس بارے میں چشم کشا حالات بیان کئے ہیں۔ کشمیر کی پالیسی کے بارے میں وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر راجہ فاروق حیدر کی جذباتی گفتگو کا بعض کالم نگاروں نے نمایاں طور پر حوالہ دیا ہے جو چشم کشا ہے ۔ کشمیر کے بارے میں جامع پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری سرحدوں پر بھی صورتحال خاصی مخدوش ہے ‘تین سال قبل سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس حوالے سے اشارتاً خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی نشیب و فراز سے گزر کر ملکی مفاد میں متحد ہوا جائے اور راجہ فاروق حیدر بھی اپنی قوم کو اعتماد میں لیں اور جو جذبات ان کے سینے میں اُبل رہے ہیں‘ ان کی قدر کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں