"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی بحران

عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے والی آئینی درخواستوں پر تفصیلی فیصلے میں نہ صرف صدارتی ریفرنس کو آئین اور قانون کی خلاف ورزی قرار دیا اور صدر مملکت کو اپنے صوابدیدی اختیارات کے درست استعمال میں ناکام ٹھہرایا ہے‘ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں جتنے بڑے پیمانے پر قانون سے انحراف کیا گیا‘ اسے بد نیتی تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے مضر اثرات بہت گہرے اور دور رس ہوں گے۔ ملک کی عدالتی تاریخ کا یہ انتہائی اہم فیصلہ ہے اور کابینہ کے کچھ اراکین کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس آئین اور قانون کی خلاف ورزی تھی۔ ریفرنس داخل کرنے کا سارا عمل آئین اور قانون کے منافی تھا جبکہ صدر مملکت آئین کے مطابق صوابدیدی اختیارات کے استعمال میں بھی ناکام رہے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر میں نے اپنے تجربات اور تجزیات پر مبنی متواتر کالم لکھے تھے کہ صدر مملکت نے ریفرنس بھیجنے سے پہلے دور اندیشی سے کام نہیں لیا‘ سپریم کورٹ اس ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے خارج کر دے گی اور یہ کہ صدر مملکت کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے بھی اہم فیصلہ آنے پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومت کی ناکامی قرار دیا تھا۔ عدالتی فیصلے میں جن افراد کو اختیارات کے غلط استعمال کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے اس پر متحدہ اپوزیشن پارلیمان میں بھی آواز اٹھاسکتی ہے‘ جس سے صدر مملکت اورحکومت کی ساکھ متاثر ہونے کا احتمال ہے۔
ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری نے بھی حکومت کی سیاسی مقبولیت پر شدید اثر ڈالا ہے۔ مہنگائی نے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو عوام کے قریب کر دیا ہے۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں میں سیاسی اثر و رسوخ کی حامل جماعتیں شامل ہیں‘ اس کے برعکس تحریک ِانصاف کو کسی مؤثر سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں۔ جو سیاسی یا مذہبی جماعتیں تحریک انصاف حکومت کی پی ڈی ایم کی طرح مخالف نہیں‘ وہ بھی حکومت کی حمایت میں آگے آنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس تناظر میں یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس وقت سیاسی تنہائی اور عوامی مقبولیت میں گراوٹ کا شکار ہے۔
اس صورتحال میں حکومت کو مشترکہ اپوزیشن کی سیاسی تحریک کا سامنا کرنا ہے جو کئی حوالوں سے ماضی کی تحریکوں سے بہت مختلف ہے۔ اس تحریک کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت کو احتیاط سے کام لینا ہوگا اور موجودہ ترجمانوں کو برطرف کرکے قومی اسمبلی میں اپنے منتخب ارکان میں سے کسی کو یہ اہم ذمہ داری سونپنا ہوگی جو عوام کی نبض کو سمجھتا ہو ۔موجودہ ترجمانوں میں سے کسی کو بھی عوام کی حمایت حاصل نہیں‘ مجھے ان کی حیثیت کرائے کے سپاہیوں جیسی لگتی ہے۔ وزیرا عظم اپنی کابینہ کے بعض ارکان کی کارکردگی سے بخوبی واقف ہیں‘ انہیں چاہئے کہ اپنی منتخب ٹیم کو سامنے لائیں جو اپوزیشن کی یلغار کو روک سکے۔ اپوزیشن جماعتوں کو ملک کے ہر کونے میں پاور حاصل ہے‘ وزیراعظم کو ان سیاسی حقائق کا ادراک ہونا چاہئے۔ پاکستان میں 1966ء سے اب تک جو سیاسی تحریکیں شروع ہوئیں انہیں پس پردہ قوتوں کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ملی۔ صدر ایوب خان 15 مارچ 1969ء کو گول میز کانفرنس میں متحدہ اپوزیشن کے سامنے سرنڈر کر چکے تھے اور ملک میں صدارتی نظام کے بجائے پارلیمانی نظام پر متفق ہوگئے تھے۔ آئین میں ترمیم کرنے اور اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنے کیلئے انہوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس چار اپریل کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ مگر اُسی رات ذو الفقار علی بھٹو نے راولپنڈی میں کمانڈر انچیف آغامحمد یحییٰ خان سے خفیہ ملاقات کی اور گول میز کانفرنس کے فیصلے کی بساط لپیٹ دی گئی۔
وزیر اعظم عمران خان کے لہجے کی سختی سے اپوزیشن مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور اپنی بقا کی خاطر ملک میں انتشار‘ خلفشار اور سٹریٹ پاور کے ذریعے حکومت کو گرانے کی مہم میں آگے بڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف اس وقت عدالتی فیصلے کی زد میں ہے اور وزیراعظم کے خلاف بھی ریفرنس عدالت عظمیٰ میں ہے ‘جس میں وزیراعظم کے کنونشن سنٹرکے خطاب پر نوٹس جاری کیا گیا ہے ۔دوسری جانب الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کو غیر ملکی فنڈنگ کا کیس بھی آخری مراحل سے گزر رہا ہے۔ ان حالات میں کراچی میں کیپٹن (ر)صفدر اعوان کی گرفتاری سے پاکستان مخالف قوتوں نے دنیا بھر میں ملک کا تماشا بنایا اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان میں اسی طرح معاملات چلتے ہیں۔ مزار قائد پر کیپٹن (ر)صفدر اعوان نے ایک طرح سے نفسیاتی مریض ہونے کا ثبوت دیا تھا‘ جسے قانونی طور پر اور مہذب انداز میں حل کیا جا سکتا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے پانچ رکنی وزارتی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا لیکن پولیس افسران کا غم و غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا؛تاہم جناب آرمی چیف کی بروقت کارروائی سے حالات قدرے معمول پر آگئے اور اب یہ معاملہ بظاہرسیٹل ہو چکا ہے‘ البتہ کئی مزید بکھیڑے پیدا ہو چکے ہیں جیساکہ متحدہ اپوزیشن کے جلسوں میں اختیار کیا جانے والا بیانیہ اور قومی اسمبلی میں مسلم لیگ( ن) کے رہنما ایاز صادق کاناپسندیدہ بیان۔اب قومی سیاسی منظر نامے پریہی معاملات چھائے ہوئے ہیں اور عوام بجا طور پر تشویش میں مبتلا ہیں کہ ان کے سیاسی رہنماؤں کی فکری سطح کس پستی کا شکار ہو چکی ہے۔ 
کرپشن کے خلاف جدوجہد پر پاکستان کے پونے دو کروڑ ووٹرز نے عمران خان صاحب کو اقتدار تک پہنچایا لیکن کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ کرپٹ افسروں اور مافیاز نے کرپشن کے خلاف وزیر اعظم کی مہم کو نتیجہ خیز انداز میں چلنے نہیں دیا ۔ خان صاحب کے اردگرد کرپٹ ذہنوں نے گھیرا ڈالا ہوا ہے‘اوریہ' شاہ کے مصاحب‘ امیر ترین ہوتے جا رہے ہیں‘ دوسری جانب عوام کا جو حال ہے محتاجِ بیان نہیں۔ خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے اور وزیر اعظم اسے مافیاز کا کیا دھرا قرار دے کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ مگر ایسی تسلی بھلا عوام کی ڈھارس بندھا سکتی ہے؟ ضروری تھا کہ حکومت ان مافیاز کے خلاف مؤثر کارروائی کرتی‘ ایسی کارروائی جس کا اثر عوام کو حقیقی طور پر دکھائی دیتا‘ جو قیمتوں میں کمی کی صورت میں سامنے آتا۔ ایسا نہیں ہوا۔ اب ایسا ماحول منظر عام پر آ رہا ہے جس سے قومی سیاسی منظر اور عوامی توقعات دونوں کیلئے بحران وجود میں آ چکا ہے۔ عام آدمی خوفزدہ ہے مگر اشرافیہ کے افراد‘ جو غیر ملکی شہریت بھی رکھتے ہیں ‘وہ ان حالات سے بے پروا ہیں۔پاکستان میں کرپشن کی کہانی کو تو سب جانتے ہیں کہ مافیاز نے قائد اعظم اور لیاقت علی خان تک کی جائیدادوں پر بھی قبضہ جما رکھا ہے۔ محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں قائداعظم محمد علی جناح‘ محترمہ شیریں جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کی لاہور کے پوش علاقوں میں سینکڑوں کنال اراضی ٹرسٹ کے نام پر وقف کی گئی تھی‘ یہ قطعاتِ اراضی 1943ء سے انہی اکابرین کے نام پہ ہیں‘ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اب یہاں شاپنگ مال اور پلازے تعمیر ہوچکے ہیں۔ یہاں پر ایک ہوٹل ایک فیملی نے غالباً 1945-46ء میں محترمہ فاطمہ جناح سے زمین حاصل کرکے تعمیر کیا تھا‘ جائیداد کی منتقلی کی تمام دستاویزات ہوٹل کی گیلری میں محفوظ رکھی گئی ہیں۔ اس پر ازخود نوٹس ایک بڑی قومی خدمت ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں