"KDC" (space) message & send to 7575

قومی مفاہمت کی طرف پیش قدمی

پاکستان کے معاشی اورسیاسی نظام کابحران بتدریج بڑھتا جا رہاہے۔قومی سطح پر پاکستانی آج جن بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری‘ غربت اور افلاس میں تیزی سے اضافہ سر فہرست ہے جبکہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے حکومت کو دوست ممالک کے جس تعاون کی ضرورت ہے حکومت اور اپوزیشن کے موجودہ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ان کوششوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ہمارے باہمی اختلافات ہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نریندر مودی نے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع خطہ مقبوضہ کشمیر کو جس ڈھٹائی سے بھارت کا جزو قرار دے ڈالا اور عالمی سطح پر کسی مشکل کا سامنا کئے بغیر کشمیر کے عوام کو جس طرح محبوس کر رکھا ہے یہ حقائق ہر باشعور شخص دیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔ملک میں ایسی کشیدہ صورتحال کا جاری رہنا ایسے قومی سانحات کا سبب بنتا ہے‘ جن کی تلافی آسانی سے ممکن نہیں ہوتی۔کچھ سال پہلے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی اس جانب ا شارہ کیا تھا اور اب ملک کے سینئر ترین صحافی اور دانشور کامران خان نے بھی قوم کو خبردار کیا ہے کہ جمہوری نظام شدید خطرے میں ہے۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے سیاسی نظام پر عدم اعتماد کرتے ہوئے چینی نظامِ حکومت کو پاکستان کے لیے بہتر نظام قرار دینے کی طرف اشارہ کر دیا ہے‘ لہٰذا ہمیں مزید کسی تاخیر کے بغیر حالات کو مزید ابتری سے بچاتے ہوئے بہتری کی جانب مؤثر اور نتیجہ خیز عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران حکومت اور اپوزیشن‘ پارلیمنٹ اور ریاست کے آئینی اداروں‘ کاروباری برادری اور میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈر ز کے گرینڈ قومی ڈائیلاگ کی ضرورت کا کئی بار اظہار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ پاکستانی قوم کو درپیش سنگین چیلنجز جلد از جلد پیش رفت کے متقاضی ہیں۔ ملک کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے گزشتہ سال کے اوائل میں منصب سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے خطاب میں میثاقِ حکمرانی کی تشکیل کے لیے اس وسیع البنیاد ادارہ جاتی ڈائیلاگ کی تجویز پیش کی تھی‘مگر یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی اور پس پردہ چلی گئی۔ اب ان کی تجاویز کو بعض ٹیلی ویژن چینلز کے حالات حاضرہ کے پروگرام وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ یہ گرینڈ قومی ڈائیلاگ ہماری قومی بقا اور سلامتی کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس گرینڈ قومی ڈائیلاگ کا اہتمام محترم چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے ہو تو امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت‘اپوزیشن‘ فوج‘ میڈیا اور دیگر اداروں کو کسی قسم کے تحفظات نہیں ہوں گے۔جہاں تک اس مکالمے کے موضوعات کا تعلق ہے تو اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مابین تعلقات اور قومی ترجیحات کا تعین شامل ہونا چاہیے۔ انتظامیہ اور عدلیہ سمیت اداروں کے اختیارات اور شرائط ِکار کی حدبندی اور جمہوری نظام کے کردار کی از سرنو صورت گری یعنی ہمارے سماجی حالات کے مطابق جمہوری اقدار کے فروغ کا اہتمام‘ آزادی ٔاظہارِ رائے کی حدود نیز خارجہ امور اور معیشت اور دیگر شعبوں کی پالیسی کی حدود کا تعین‘ نظامِ انتخابات اور عدلیہ اور سول سروس میں تمام شعبوں میں اصلاحات کی تفصیلات بھی اس مکالمے کا حصہ ہونی چاہئیں۔پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی اداروں کے علاوہ بار کونسل‘ میڈیا‘ ٹیکنوکریٹس‘ کاروباری برادری‘ مذہبی رہنما‘مزدور‘ طلبہ اور دانشور سبھی کو اس ڈائیلاگ میں مختلف مراحل پر شریک کرکے ایک متفقہ گرینڈ قومی چارٹر تشکیل دیا جانا چاہیے اور حکومت خواہ کسی پارٹی کی ہو‘ میثاق حکمرانی کی پابندی لازمی کی جانی چاہیے۔ یہ گنجائش بھی اس میثاق میں شامل ہونی چاہیے کہ اس پر حالات کے تقاضوں اور ضرورت کے مطابق ایسے ہمہ گیر مکالمے کے ذریعے نظر ثانی کی جاسکے گی۔
پاکستان کی سیاست بتدریج شدید خطرات میں گھر تی جا رہی ہے‘ دوسری جانب فیڈریشن کو کمزور کرنے کے لیے بھارت کھلم کھلا جارحیت پر اترآیا ہے اور مخصوص گروہوں کی خدمات حاصل کر چکا ہے۔ اس طرح کے گمراہ اور ناراض نوجوانوں کو بعض سیاسی جماعتیں اپنا ہمنوا بنا کر ریاست پاکستان کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی سازش کر رہی ہیں۔ ایسے کاموں کے بھیانک نتائج سے بچنے کے لیے ہمیں اپنے لیے درست راستے کا تعین کرنا ہوگا۔قومی سلامتی‘ استحکام اور خوشحالی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہمیں قومی سوچ کی تدبیر اختیار کرنا ہوگی اور یہ قومی فریضہ پاکستان کی صفِ اول کی پرائیویٹ یونیورسٹیاں بھی ادا کر سکتی ہیں اور جمہوری مقاصد کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں ان کو تعمیری‘ قانونی اور انتخابی نظام پر مبنی رہنما اصول فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔بہرکیف ملکی ترقی اور روشن مستقبل کے لیے انتخابی نظام میں در پیش تبدیلی وقت کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان غیر معمولی اختیارات کے حامل ہیں‘ تاریخ میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے انہیں حقیقی انتخابی نظام میں دوررس تبدیلیوں کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ اس وقت ملک کے نظام کی بہتری کے لیے انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے عندیہ دیا ہے کہ سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق قومی اسمبلی میں دیے گئے بیان پر ان کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے گی‘تاہم اس حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک رکن اسمبلی کی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر پر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاسکتی کیونکہ انہیں آئین کے آرٹیکل 66 کی شق (1) کے مطابق پارلیمنٹ میں اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ کسی رکن پارلیمنٹ کی ایوان میں کی گئی کسی بات پر اس کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ اس پس منظر میں میری ناقص رائے یہ ہے کہ ایسی متنازع تقریر کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ 1997ء میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے حواریوں نے قومی اسمبلی میں اُس وقت کے چیف جسٹس کی تضحیک کی تھی تو اُن کے خلاف توہین عدالت کے نوٹسز چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے جاری کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 183(1)کے مطابق کارروائی کا آغاز کیا اور اور وزیر اعظم کو عدالت عظمیٰ میں ذاتی حیثیت سے طلب کرکے ان کو نا اہل قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کیا۔ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کو تضحیک کا نشانہ بنانے کے لیے جو سازشی کردار ادا کئے گئے اسی کی لپیٹ میں صدر فاروق لغاری بھی آگئے۔ اب جبکہ سردار یا صادق نے ایسی متنازع بات کی ہے تو ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 ون جی کے تحت قومی اسمبلی کے سپیکر کو ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے اور قومی اسمبلی کے سپیکر کو 48 گھنٹوں کے اندر یہ ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئینی طور پر بھجوانا ہوگا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 30 دن کے اندر اپنا فیصلہ سنانا ہوگا۔
متحدہ اپوزیشن کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے متحدہ اپوزیشن کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے پیش رفت کا آغاز کردیا ہے۔ انہوں نے بالواسطہ نواز شریف کی پالیسی سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ بیک ڈور حکمت عملی کے تحت آصف زرداری سے بھی رابطہ ہو چکا ہے۔ اس طرح امید پید ہوتی ہے کہ نظام کی بہتری کے لیے اکتوبر2011ء میں وطن کے سیاسی حلقوں‘ غیرجانبدار دانشوروں اور سول سوسائٹی نے جن کوششوں کا آغاز کیا تھا موجودہ سیاسی پیش رفت شاید اسی خواب کی تکمیل کے لیے بنیادیں فراہم کر دے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں