"KDC" (space) message & send to 7575

افواجِ پاکستان کے خلاف بیانیہ قومی مفاد میں نہیں!

تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورتحال میں پاکستان داخلی طور پر اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ سیاست کو در پیش خطرات کو سیاسی جماعتوں کے انفرادی مفادات کی وجہ سے نظرانداز کردیا جائے ۔ کسی بھی ریاست کی بقا کے لیے باقی اداروں کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے‘ لیکن کسی ریاست یا قوم کے لیے سب سے زیادہ اہمیت سیاسی اداروں کی ہوتی ہے ۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے کرپٹ سیاسی لوگوں کا احتساب شروع کیا ہے ‘ لیکن ان سیاستدانوں کی وجہ سے معاملات سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہوتے نظر آتے ہیں۔عوام نے وزیراعظم عمران خان کو احتساب کے منشور پر ایوان اقتدار میں پہنچایا تھا ‘جب عوام کو احساس ہوا کہ ان کے ارد گرد ارب پتی ساتھیوں نے ملک کی معیشت کو افغانستان سے بھی نچلی سطح تک پہنچا دیا ہے تو عوام ایک بار پھر انہی کرپٹ سیاستدانوں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئے جن کی کرپشن کی آلودگی نے تحریک انصاف کو 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں فائدہ پہنچایا تھا۔ اگرچہ ''سیاست دان کرپٹ ہیں‘‘ کے سلوگن نے پاکستان میں سیاسی اداروں کو بہت کمزور کیا ہے‘ خود تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی نے سیاست پر عوام کا اعتماد کمزور کردیا ہے اور ایک سیاسی خلا پیدا کردیا ہے ‘ مگر قدرت کے نظام کے تحت اب نئے نظام کی داغ بیل پڑ سکتی ہے۔ ماضی کے اور حالیہ حکومت کے کارندے اگر عوامی جذبات کو مشتعل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یوگوسلاویہ کی مثال بھی ذہن میں رہنی چاہئے۔ سابق حکمران جماعت کے رہنما جس انداز سے اداروں پر یلغار کئے ہوئے ہیں‘ اگر ان کے ذاتی مفادات عملی طور پر سیاست میں غالب آگئے تو پھر وحدتِ ریاست کو مارشل لا بھی نہیں بچا سکے گاکیونکہ بین الاقوامی حالات کے تقاضے تبدیل ہوچکے ہیں اور سی پیک نے پاکستان کو ایک نئے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے ترجمانوں نے انہیں ایک طرح سے بندگلی میں کھڑا کردیا ہے۔ انہوں نے ایسے ادارے سے اپنی مقبولیت کا سروے کروایا ہے جو ماضی میں شہبازشریف کے لیے ایسے ہی سروے کراچکا ہے اور جس کی بطور اپوزیشن لیڈر عمران خان شدید مذمت کرچکے تھے۔ میں اس ادارے کے خدوخال کو اندرونی طور پر اچھی طرح سمجھتا ہوں ‘ پروفیشنل قسم کے سروے کرانے کے لیے ان کو مطلوبہ رقوم فراہم کردیں اور مطلوبہ سروے کی خوبصورت رپورٹ ان سے حاصل کرلیں۔ وزیراعظم کے کسی مشیر نے ان کو اس ادارے کے ماضی کے بارے میں بریف کرنے کی زحمت نہیں کی ۔ وزیراعظم عمران خان کے اردگرد سیاسی پرندے اب گرم علاقوں کی طرف اڑان بھر نے کی تیاری کررہے ہیں اور ان کے ضمنی اتحادی سوچ رہے ہیں کہ اب عوام کی اضطرابی کیفیت کا وہ مزید مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور انہیں اندازہ ہورہا ہے کہ اب نیا راستہ تلاش کرلیا جائے ورنہ وہ کنویں میں نہ جاگریں۔
کچھ لوگوں کا گمان ہے کہ نئی عالمی صف بندی میں اپنے محلِ وقوع کے بنا پر پاکستان کو ایک بار پھر فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے دہشت گردی کا بھارتی منصوبہ بے نقاب کرتے ہوئے ناقابل تردید ثبوت دنیا کے سامنے رکھ دیے ہیں ۔ افغانستان میں بھارتی سفارت خانہ سازشوں کا مرکز اور سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے سات سو افراد پر مبنی ملیشیا بنائی جاچکی ہے۔ الطاف حسین گروپ‘ طالبان اور کالعدم بلوچ تنظیموں کو اسلحہ اور رقوم فراہم کی جارہی ہیں‘ بھارت آزادجموں و کشمیر ‘ گلگت بلتستان ‘ فاٹا اور بلوچستان میں قوم پرستی کو ہوا دے رہا ہے۔اس خطرناک صورتحال کے شواہد سامنے لا کر آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹرجنرل میجر جنرل بابر افتخار نے آئندہ کے خطرات کی گھنٹی بجادی ہے۔انہوں نے بیرونی سازشوں کے کرداروں کے بارے میں قوم کو آگاہ کردیا ہے‘ اس کے ساتھ ملک کے اندرونی سازشوں کے کرداروں کے بارے بھی قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ گمان کیا جاتا ہے کہ بعض دوسرے اداروں کی طرح میڈیا کے ایک حصے میں بھی ایسے عناصر طاقت پکڑتے جارہے ہیں اور ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ وہ کئی چینلز پر چھائے ہوئے ہیں‘ اپنے یو ٹیوب چینلز کے ذریعے حساس ترین اداروں کو متنازع بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کے چہرے ٹیلی ویژن کی سکرین پر بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کا کوئی ذریعہ معاش دیکھنے میں نہیں آتا ہے‘ لیکن ان کے رہن سہن سے گمان ہوتا ہے کہ وہ اسی فہرست کے ذریعے مالی فوائد حاصل کررہے ہیں جس کی طرف میجر جنرل بابرافتخار نے اشارہ کیا ہے۔ ماضی میں حساس اداروں کی ایسے عناصر اور ان کے غیر قانونی ذرائع آمدنی کے سورسزپر گہری نظر تھی ۔
پاکستانی قوم آج شدید انتشار کی کیفیت سے دوچار ہے ‘ حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات کا آئینی حدود میں رہتے ہوئے حل کیا جانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے ۔ احتسابی عمل کو مکمل طور پر حکومت کی مداخلت سے پاک‘ بلاامتیاز ‘ شفاف ‘ منصفانہ اور غیرجانبدارانہ بنائے بغیر انتقام کا تاثر ختم نہیں ہوسکتا‘ جبکہ قومی یکجہتی کے لیے ان تمام علاقوں کی جائز شکایات کا ازالہ اور مکمل آئینی حقوق مہیا کیا جانا بھی ضروری ہے جن کا احساسِ محرومی بھارتی ایجنسیوں کو علیحدگی پسندی کے جراثیم پیدا کرنے کے مواقع فراہم کررہا ہے‘ حالانکہ بھارت کے اپنے نو صوبوں اور ریاستوں میں علیحدگی پسندوں کی تحریک چل رہی ہے ۔ بعض حلقوں کا یہ خیال ہے کہ بھارت نے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے بعض اہم اینکر پرسنز اور ان کے معاونین پر بھاری سرمایہ کاری کررکھی ہے جو میڈیا چینلز میں بیٹھ کر طنزیہ انداز میں پاکستان کے حساس اداروں پر تنقید کرتے ہیں اور محب وطن میڈیا پرسنز ذہنی تناؤ کا شکار ہیں ۔تنخواہوں اور واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث صحافتی کارکنوں کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ‘جبکہ دیانتداری سے کام کرنے والے صحافیوں کو ہر طرف سے خطرات درپیش ہوتے ہیں ۔ ایسے صحافیوں کے لیے بے روزگاری ماہانہ الاؤنس جاری کرنا چاہیے۔
اور آخر میں گلگت بلتستان کا ذکر برمحل ہو گا۔ یہ الیکشن پرامن ماحول میں مکمل ہوگئے ‘ پاکستان کی صفِ اول کی قیادتوں نے سیاسی انداز میں اپنا موقف گلگت بلتستان کی باشعور عوام کے سامنے پیش کیا اور ان کے فرمودات کو عوام نے اپنے انداز میں بڑے تحمل اوربردباری سے سننے کے بعد اپنے حق رائے دہی کا صحیح استعمال کیا ۔ اپوزیشن جماعتیں منشور پیش کرنے اور عوام کی فلاح و بہبود کے پروگرام کا تذکرہ کرنے کے بجائے اپنے تراشے ہوئے دیوتاؤں کی تعریف و توصیف کرتی رہیں اور غیر ملکی برانڈ کے ملبوسات کی خوبصورت انداز میں نمائش کرتی رہیں‘ جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان نے ان سب کو مسترد کرکے حسب روایت وفاقی حکمران جماعت کے حق میں ووٹ ڈالا۔ روایت چلی آرہی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام ہمیشہ وفاقی حکومت کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہیں ۔2015ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) پندرہ نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی‘ جبکہ تحریک انصاف کے حصے میں صرف ایک نشست آئی تھی۔ اب2020 ء کے انتخاب میں تحریک انصاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ تقریباً 15 نشستیں حاصل کرچکی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ( ن) صرف دو نشستیں حاصل کرسکی ہے ۔ سیاسی رہنماؤں نے بلاوجہ گلگت بلتستان کے الیکشن کو ریفرنڈم سے جوڑ دیا ۔ انہیں ادراک ہونا چاہیے تھا کہ ساڑھے سات لاکھ ووٹر رکھنے والا علاقہ ریفرنڈم کے زمرے میں نہیں آتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں