"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات: قانونی دشواریوں کا سامنا

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے انتخابی اصلاحات کیلئے اپوزیشن کو جو دعوت دی تھی وہ اس اعتبار سے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ انتخابی نظام میں اصلاحات کی ضرورت حکومت اور اپوزیشن میں شامل تمام پارٹیاں محسوس کرتی ہیں جبکہ ووٹر بھی اس نظام کی شفافیت پر گزشتہ کئی عشروں کے تجربات مد نظر رکھتے ہوئے مکمل یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ویسے بھی انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں وقت گزرنے اور سیاسی اور سماجی ارتقا کے ساتھ تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے۔ انتخابی اصلاحات کا آغاز 1909 ء میں لارڈ منٹو وائسرائے ہند کے دور میں شروع ہوا تھا جبکہ برطانوی پارلیمنٹ نے 1911ء میں انتخابی اصلاحات کے نفاذ کی منظوری دیتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت تسلیم کرتے ہوئے انتخابی فہرست ہندو اور مسلم کی بنیاد پر بنانے کیلئے ایکٹ کی منظوری دی تھی۔
انتخابی طریقہ کار اور قواعد میں تبدیلی ایک مستقل عمل ہے جو وقت کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں یہ کام حکومت اور اپوزیشن کو مل کر کرنا ہوتا ہے ۔ گلگت بلتستان کے انتخابات کی گرما گر می کسی نہ کسی انداز میں برقرار ہے۔ انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام لانے اور سینیٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کے بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کا آئینی ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں ہے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ میں حصہ لینے کا حق دینے کیلئے بھی اقدامات زیر غور ہیں۔ پارلیمنٹ میں بل لانے کی بات کریں تو اس کے دو مفاہیم سامنے آتے ہیں‘ یہ کہ اس باب میں کسی نہ کسی قسم کے رابطے پس پردہ چل رہے ہیں جن کو مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے‘ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات سے متعلق کمیٹی کی کارروائی کے دوران یہ ضرورت نمایاں ہوگئی ہے کہ انتخابی عمل کوزیادہ شفاف بنانے کیلئے جلد از جلد کچھ کرنا ہوگا ۔2018 ء سمیت سابقہ تمام انتخابات میں کامیاب اور ہارنے والے دونوں ہی دھاندلی کی شکایات کرتے نظر آئے‘ جبکہ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے ماضی قریب کے واقعات اس لئے حیران کن ہیں کہ میڈیا ٹاک میں سینیٹ کے بعض ارکان خود اپنی پارٹیوں کے لوگوں پر رقوم کی لین دین کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ خود انہیں بھی خیبر پختونخوا سے اپنی پارٹی کے 20 ارکان کے خلاف کارروائی کرنا پڑی جو ووٹوں کی فروخت میں ملوث پائے گئے تھے ۔اب جبکہ اس طرح کی ہارس ٹریڈنگ پنجاب‘ بلوچستان اور سندھ اسمبلی کے اراکین کے ذریعے ہوئی تو کسی سیاسی یا پارلیمانی لیڈر نے کارروائی نہیں کی‘ مگر یہ معاملہ یقینی طور پر تمام جمہوریت پسند حلقوں کے لیے توجہ طلب ہے اور ہونا بھی چاہیے‘لیکن اس سے نمٹنے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ وقتی خرابی دور کرنے کیلئے دائمی خرابی کی صورت نہ پیدا کر لی جائے۔ عمومی طور پر ووٹ کا تقدس جمہوری اقدار کی سربلندی کے لیے لازمی تصور کیا جاتا ہے۔ ضمیر کی آواز کا فلسفہ بھی کئی مواقع پر سامنے آتا رہا‘ مثال کے طور پر جب 1968ء میں عوامی پارٹی کی کامیابی کا رخ دیکھتے ہوئے ملک معراج خالد صدر ایوب خان کی مسلم لیگ سے لاتعلقی کرتے ہوئے'' ضمیر کی آواز پر‘‘ پمفلٹ جاری کرکے ذوالفقارعلی بھٹو کے کیمپ میں چلے گئے تھے ؛ تاہم ملک معراج خالد کے ضمیر نے محسوس نہیں کیا کہ موصوف 1962 ء سے 1968ء تک صدر ایوب خان کی نوازشات سے لبریز تھے۔
پاکستان کے عوام کو بہت احتیاط سے وہ راستہ اختیار کرنا ہے جو جمہوری اقدار کے فروغ کی ضرورت ہے‘ اس کیلئے ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ ماحول اور اعتماد سازی اور واضح ایجنڈا موجودہے جو مذاکرات کی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے؟ جبکہ ایسے سنجیدہ سیاسی حلقوں کا سامنے آنا بھی ضروری ہے جو مذاکرات میں سہولت پیدا کر سکیں اور اس بات کی ضمانت دے سکیں کہ جو کچھ طے ہوگا اس پر عمل درآمد بھی کیا جائے گا۔ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر اخلاص کے ساتھ اس بارے میں قابلِ عمل راستہ نکا لنے کی ضرورت ہے اور بہتر جمہوری روایات بھی پروان چڑھیں گی۔وزیراعظم عمران خان کی اعلان کردہ انتخابی اصلاحات کے نفاذ کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو اتفاق رائے کے ساتھ پختہ عزم کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے نئے بیلٹ پیپرز کے بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک ویری فیکیشن مشین کے استعمال اور اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے تین رپورٹس 2017ء میں پارلیمنٹ کی منظوری کیلئے پیش کی تھیں‘ مگر ان پر قانون سازی نہیں ہوسکی۔ حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے کے بغیر انتخابی قوانین اور آئین میں تبدیلی ممکن نہیں ہوگی کیونکہ اس سے اگلا سارا انتخابی عمل متنازع ہو سکتا ہے۔ بیلٹ پیپرز کی جگہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کیلئے بھی آئینی ترمیم درکار ہوگی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیلئے بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جس نے قانون سازی کے بغیر الیکٹرانک ووٹنگ سے ریاست کیرالہ کے اسمبلی الیکشن کو کالعدم قرار دیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 2017ء میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ کا حق دینے کی تجویز پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے اور اسّی لاکھ تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کیلئے پہلے ہی قانون سازی مکمل کر کے الیکشن کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ صرف ان تارکین وطن کو ووٹ کا حق ملے گا جن کے نام پاکستان میں ان کے آبائی علاقے میں ووٹر لسٹ میں درج ہوں گے ‘لیکن یہ خدشہ رہے گا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ کی رازداری برقرار نہیں رہ سکے گی ۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ 80 لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کو انٹرنیٹ سے ووٹ کا حق ملنے سے پاکستان میں موجود ساڑھے گیارہ کروڑ ووٹرز یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 23 کے تحت انہیں بھی انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ کا حق دیا جائے ۔آرٹیکل 25 میں کہا گیا ہے کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کا مساوی طور پر حق رکھتے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کے اراکین کرپشن کی آلودگی سے کسی حد تک محفوظ ہیں کیونکہ قومی احتساب بیورو‘ ایف آئی اے اور انٹیلی جنس کے اداروں کی ان پر نگاہ رہتی ہے‘ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بھارت کے اراکین پارلیمنٹ اور ریاستی ارکانِ اسمبلی میں سے 4424 ایسے ہیں جو مجرمانہ مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ان میں سابق اراکین بھی شامل ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ میں 539 ارکان منتخب ہوکر آئے ہیں ان میں سے 233 نے خود اعلان کیا ہے کہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات ہیں کچھ ایسے ارکان بھی ہیں جن پر سو سے زیادہ مقدمات چل رہے ہیں۔ اگر ملک کی پارلیمنٹ میں آدھے ارکان ایسے ہیں تو بھارت کے دیگر اداروں میں صورتحال کیسی ہو گی‘ اس کا خود ہی اندازہ لگائیں۔ اس صورتحال کا اثر بھارت کی عدلیہ‘ پولیس ‘بیوروکریسی اور دیگر تمام شعبوں پر پڑرہا ہے اور بھارت میں جمہوریت برائے نام رہ گئی ہے۔ جب ایسے حالات ہیں تو بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کیسے ہے؟ کیا وہاں جمہوریت زندہ ہے؟ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجرمانہ پس منظر کے امیدوار جیت جاتے ہیں اور کمزور امیدوار ان کے مقابلے میں کھڑے نہیں ہوسکتے ۔اگر لیڈر کو سزا ہو جاتی ہے تو رہا ہونے کے بعد وہ پھر واپس آجاتے ہیں کیونکہ بھارت کے ضمنی انتخابات کیلئے کوئی آئینی شیڈول نہیں ہے۔ بھارت کے آئینی ماہر اشونی دھیائے نے پٹیشن دائر کر رکھی ہے اور ایسے رہنما جن پر سنگین جرم ثابت ہوا انہیں پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62 (1) ایف کی طرز پر تاحیات انتخابات لڑنے سے روک دیا جائے گا، جیسے سرکاری ملازمین کو ہمیشہ کیلئے ملازمت سے برخاست کر دیا جاتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں