"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی کشاکش اور قومی مسائل

اس وقت ملک میں ایک عجیب کشاکش جاری ہے۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن کے گیارہ جماعتی اتحاد‘ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ کی تحریک عروج کی جانب گامزن ہے اور 13 دسمبر کو پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے مینار پاکستان گراؤنڈ میں اس تحریک کا جلسہ ہونے جا رہا ہے۔ یہ جلسہ پی ڈی ایم کی جانب سے اعلان کردہ جلسوں کے پروگرام کا آخری مرحلہ ہے؛ تاہم اس سے پی ڈی ایم کی تحریک کا خاتمہ نہیں ہو جائے گابلکہ اگلے مرحلے میں متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا عندیہ دیا گیا ہے۔ 
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اقتدار تو چھوڑ سکتے ہیں مگر اپوزیشن کو این آر او نہیں دے سکتے۔ انہیں معلوم ہو گا کہ اعلیٰ عدلیہ اکتوبر 2009ء میں این آر او کو کالا قانون قرار دے کر کالعدم قرار دے چکی ہے؛ چنانچہ اب کوئی چاہے بھی تو این آر او نہیں دے سکتا۔ اب تو شاید وہ کسی بیورو کریٹ کو برطرف کرنے کے مختار بھی نہیں‘ اور نہ ہی ریاست پاکستان ان کو ایسا کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن کا یہ کہنا ہے کہ وزیر اعظم بتائیں کس نے ان سے این آر او مانگا ہے۔ ایک طرف یہ معاملات چل رہے ہیں تو دوسری جانب صدر مملکت سہواً سابق وزیر اعظم جمالی کی موت کا بیان جاری ہو جانے کے بعد یہ سرکاری بیان واپس لے لیتے ہیں۔ بندہ بشر ہونے کے ناتے غلطی ہو ہی جاتی ہے‘ لیکن مناسب یہی ہے کہ ایسے حساس معاملات پر زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی جائے اور کسی ایشوز پر طبع آزمائی سے پہلے اچھی طرح چھان پھٹک کر لی جائے تاکہ غلطی کا احتمال باقی نہ رہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا لاہور جلسے کے حوالے سے کہنا تھا کہ اپوزیشن کو جلسے کی اجازت نہیں دیں گے‘ لیکن رکاوٹ بھی نہیں ڈالیں گے‘ جبکہ اپوزیشن کے قائدین نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ جلسے میں رکاوٹ ڈالی گئی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے نہ صرف اپوزیشن کے جلسوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں بلکہ حکومتی عہدے دار اپوزیشن سے یہ بھی کہہ رہے کہ کورونا کے پیش نظر وہ کچھ عرصے کے لئے اپنی احتجاجی تحریک روک دے کیونکہ خطرہ ہے کہ جلسوں اور جلسوں کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلائو کی رفتار بڑھ جائے گی۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے مداخلت پر اپوزیشن اسلام آباد تک لانگ مارچ کرے گی اور پھر اسے غیر معینہ مدت کے دھرنے میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پیشتر قومی اسمبلی سے استعفے دئیے جانے کے معاملے پر بھی غور ہو رہا ہے۔ اگرچہ ملک میں کورونا کیسوں کی بڑھتی ہوئی رفتار کے پیشِ نظر کوئی بھی ذی شعور جلسوں کی حمایت نہیں کر سکتا مگر یہاں بھی حکومت کی ناکامی واضح ہے جو دوسروں کو عوامی اجتماعات سے منع کر رہی ہے لیکن خود کبھی یوتھ کنونشن اور کبھی پارٹی اجلاس کا انعقاد کر رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال نہیں اٹھے گا کہ کیا کورونا صرف اپوزیشن کے جلسے جلوسوں سے پھیل رہا ہے؟ ملک میں جاری یہ مسلسل کشاکش قومی سطح پر شدید بے یقینی اور مستقبل کے حوالے سے بڑھتی ہوئی بے اعتمادی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ ان حالات میں جب ملک کو داخلی اور خارجہ‘ دونوں محاذوں پر سنگین خطرات کا سامنا ہے‘ قومی یگانگت اور یکجہتی ہماری اولین ضرورت ہے‘ لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت کی اب تک کی پوری مدت قومی سطح پر تقسیم اور تفریق میں گزری ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کا موقف پہلے دن سے یہ ہے کہ ماضی کے حکمران چور‘ ڈاکو اور لٹیرے ہیں اور حکومت کی مخالفت صرف اس لئے کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف کرپشن کے الزامات اور جاری احتسابی عمل بند ہو جائے۔ دوسری جانب موجودہ حکومت کے معیشت اور کشمیر سمیت ہر محاذ پر ناکام ہو جانے کے دعوے کے ساتھ اپوزیشن کا اعلانیہ مؤقف اس کے مطالبات کی شکل میں قوم کے سامنے آیا ہے‘ یعنی ملک میں آئین کی مکمل بالادستی اور تمام اداروں کی جانب سے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ذمہ داریوں کی انجام دہی یقینی بنانا۔ علاوہ ازیں طاقتور اداروں کے ذمہ داروں کی سیاسی و حکومتی معاملات میں صرف ملکی مفاد میں مداخلت ‘ انتخابی عمل کا مکمل طور پر شفاف اور تمام غیر متعلق اداروں کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کا قابل اعتماد بندوبست ‘ احتساب کے عمل کا پوری طرح غیر جانبدار اور شفاف ہونا ضروری ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی پوری مدت میں عملاً حکومت کے سیاسی مخالفین ہی ہدف بنے رہے ہیں اور حکومتی صفوں میں شامل کرپشن کے ملزمان کے مقدمات پر کارروائی بالعموم سست روی کا شکار اور معطل ہے۔ کئی حکومتی عہدے داران اور مخصوص نشستوں پر دہری شہریت کے حامل خواتین کے کیس عدالتوں میں مدت سے زیر التوا ہیں‘ جبکہ تحریک انصاف کا انتہائی سنگین فارن فنڈنگ کیس بھی ساڑھے چھ سال سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تعطل کا شکار ہے ۔ تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے سے تحریک انصاف کی حکومت شدید خطرات کی زد میں آ کر اپنی جماعت کے انتخابی نشان سے بھی محروم ہو سکتی ہے‘ جبکہ ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی سے تحریک انصاف کے خلاف کیس بھی دائر ہو سکتا ہے۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ جنوری 2021ء میں تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کے معاملے کا فیصلہ بھی ہو جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان تواتر سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ این آ ر او نہیں دیں گے ‘اور اپوزیشن لیڈر اس پر یہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم سے پوچھیں کہ ان سے کون این آر او مانگ رہا ہے‘ تو اس پر ہونا تو یہ چاہیے کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی میں آ کر جواب دیں کہ اپوزیشن کے وہ کون سے ارکان ہیں جو ان سے این آر او کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ اپوزیشن پر این آر او لینے کے الزامات کو دہراتے رہنے کے بجائے یا تو ان مطالبات کو ثابت کریںورنہ ان سے بات چیت پر آمادگی کا واضح اظہار کر کے اس گرینڈ نیشنل مذاکرات کی راہ ہموار کریں جس کی ضرورت کا احساس ابتدائی طور پر سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دلایا تھا۔ اس غیر یقینی صورت حال سے قوم کو نجات دلانے کی یہی تدبیر ممکن نظر آتی ہے؛ البتہ تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس پر آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس اس معاملے میں آگے بڑھنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ موجودہ خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے نومبر 1997ء کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے از خود نوٹس ‘ جس میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل(B)2 58- کو بحال کرتے ہوئے صدر مملکت فاروق لغاری کے اختیارات بحال کر دئیے تھے‘ کو مشعلِ راہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایک اور تجویز یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 5 کی روشنی میں وحدتِ پاکستان اور ریاست کو محفوظ کرنے کے لیے عدالت میں آئینی ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے کہ ملک کو انتشار‘ خلفشار‘ سازشیں‘ ملکی اور بین الاقوامی ریشہ دوانیوں سے محفوظ کرنے اور پاک چین راہداری معاہدوں کی تکمیل کے لیے کوئی آئینی راہ نکالتے ہوئے ملک میں آئندہ تین سال کے لیے نگران سیٹ اپ بنا کر ملک میں آئندہ شفاف الیکشن کی راہ ہموار کی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں