"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ کے قبل از وقت انتخابات کا معاملہ

سینیٹ کی نصف (52) نشستیں 12 مارچ کو خالی ہونے والی ہیں اور سینیٹ الیکشن کے ذریعے جو نئے ارکان منتخب ہوں گے وہ ان نشستوں کو پُر کریں گے۔ اس بار سینیٹ کے انتخابات اس اعتبار سے خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ موجودہ ایوانِ بالا میں اپوزیشن کی نشستیں سرکاری نشستوں سے زیادہ ہونے کے باعث تحریک ِانصاف کی حکومت کو کئی مواقع پر قوانین کی منظوری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پس منظر میں وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں دو فیصلے کئے گئے۔ ان میں سے ایک فیصلہ ایوانِ بالا کا قبل ازوقت الیکشن( فروری میں) کرانے کا ہے‘ جس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیا جائے گا‘ جبکہ دوسرا فیصلہ سینیٹ الیکشن میں سیکرٹ بیلٹ کے بجائے اوپن ووٹنگ کا طریقہ اختیار کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدارتی ریفرنس کی صورت میں رہنمائی حاصل کرنے کا ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب خالد جاوید خان نے سینیٹ انتخابات کے قانون پر بریفنگ بھی دی۔
آئین پاکستان میں اوپن بیلٹ کی بظاہر کوئی ممانعت نہیں ‘تا ہم اٹارنی جنرل کی سفارش تھی کہ معاملے کی حساسیت اور اہمیت کے پیشِ نظر آرٹیکل 186 پرمشاورتی دائرہ اختیار کے تحت سپریم کورٹ کی رائے لینا مفید ہو سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل کا مؤقف ہے کہ سینیٹ میں انتخابات شو آف ہینڈز کے ذریعے بھی کیے جا سکتے ہیں، نیز شو آف ہینڈز کے ذریعے سینیٹ انتخابات کے انعقاد کیلئے آئین میں ترمیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے صرف الیکشن ایکٹ2017ء کو تبدیل کرنا ضروری ہے‘ تاہم پراسراریت یوں نمایاں ہورہی ہے کہ اٹارنی جنرل نے9 دسمبر کو ایک خط وزیراعظم عمران خان کو ارسال کیا تھا جس میں اس معاملے پر اعلیٰ عدالتوں کے چند فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا‘ جو اٹارنی جنرل کے دلائل کی حمایت کرتے ہیں؛ تاہم میری رائے کے مطابق اٹارنی جنرل صاحب نے اس حساس معاملے میں آئین کے آرٹیکل 224 اور آرٹیکل 59 کو مدنظرنہیں رکھا اور آئین کے آرٹیکل 226 کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا۔ میری نظر میں وزیراعظم عمران خان کا مؤقف درست ہے کہ خفیہ رائے شماری کے بجائے کھلی رائے شماری یا شو آف ہینڈز کے ذریعے انتخابات کروائے جائیں‘ جبکہ الیکشن ایکٹ 2017 ء کی دفعہ 205 سے230 تک وسیع ترین دائرے میں سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ بتایا گیا ہے ؛ چنانچہ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اپنی آئینی اور قانونی بصیرت کے مطابق جو مؤقف اختیار کیا‘ اس پر پاکستان کی تمام بار ایسوسی ایشنز‘ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو باریک بینی سے غور کرنا چاہئے‘ یہ واضح رہے کہ اٹارنی جنرل صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ سینیٹ کاانتخاب وہ الیکشن نہیں جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور جن کا انعقاد الیکشن ایکٹ کی دفعات کے تحت کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226 سے مراد صدرپاکستان کا انتخاب ہے‘ جسے آرٹیکل (3)41 کے تحت آئین کے دوسرے شیڈول کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ۔
میری رائے میں سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہی کرانے ہیں‘ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کا انتخابی شیڈول سے کوئی تعلق نہیں اور ماضی میں بھی یہ انتخابات 11 فروری اور 11 مارچ کے درمیان ہوتے رہے ہیں‘ لہٰذاوزیراعظم کی قبل ازوقت سینیٹ کے انتخابات کرانے کی تجویز سمجھ سے باہر ہے کیونکہ ریٹائرڈ سینیٹرز کی میعاد11 مارچ کو ختم ہوتی ہے‘ اس لئے 11 فروری سے11 مارچ کے درمیان کسی وقت بھی وقت سینیٹ الیکشن کروائے جاسکتے ہیں‘ جبکہ سینیٹ کے الیکشن شو آف ہینڈز سے کرانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 226 اور59 اور سینیٹ الیکشن ایکٹ 2017ء کی اہم شق 221 میں بھی ترامیم کرنا ہوں گی۔ آئین کے آرٹیکل 226 میں واضح طور پر درج ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے سوا باقی تمام الیکشن سیکرٹ ہوں گے ۔ اس لیے آئینی ترمیم سے قبل سینیٹ الیکشن قانونی طور پر شو آف ہینڈز سے نہیں ہوسکتا۔ آئین میں ترمیم کا طریقہ کار دستور پاکستان میں درج ہے ‘ اسے کسی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نہیں بدلا جاسکتا ہے۔
حکومتی ماہرین کو ادراک ہونا چاہیے کہ سینیٹ کے انتخابات متناسب نمائندگی اور ترجیحی بنیاد کے طریقہ کار کے تحت ہوتے ہیں اور الیکشن ایکٹ2017کی دفعہ 122 کے تحت سینیٹ انتخابات صرف خفیہ طریقہ کار اور پہلی ‘ دوسری اور تیسری ترجیحات کی بنیاد پر ہوتے رہے ہیں‘اسی طرح حکومتی آئینی ماہرین اگر الیکشن ایکٹ 2017 میں‘ جہاں سینیٹ کے انتخابات کے لیے دفعات 205 سے230 تک پھیلی ہوئی ہے‘ کے رولز کا مطالعہ کریں تو سینیٹ کے انتخابات کی ترجیحات کا سلسلہ 14 تک پھیلا ہوا ہے ۔ مارچ1997ء میں ظفراللہ جمالی 14 ویں کاؤنٹ پر ایک ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ترجیحات کی بنیاد پر ان کو کامیاب قرار دیا گیا تھا۔
آئین کے آرٹیکل186 کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان صرف آئین کی تشریح کا اختیار رکھتی ہے جبکہ آئین میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کرسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل کی مشاورت پر اگر وفاقی حکومت سپریم کورٹ سے اس حساس نوعیت کے معاملے پر مشاورت کرتی ہے تو میری رائے کے مطابق چیف جسٹس اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت فل کورٹ اجلاس بلانے کا استحقاق رکھتے ہیں اور جو بھی صدر مملکت کی طرف سے ریفرنس آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت داخل کیا جائے گا پاکستان بار کونسل ‘ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور چاروں ہائی کورٹس کی بار ایسوسی ایشنز اور صوبوں کے ایڈووکیٹس جنرل اپنا اپنا مؤقف پیش کریں گے۔ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی ریفرنس کو مسترد کردیا تو حکومت کی سبکی ہوگی ۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت 20 ستمبر1996ء کو صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کے خلاف ان کی گورننس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ریفرنس داخل کرایا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ نے اپنی رائے سے وفاقی حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے صدر مملکت کے مؤقف کی تائید کردی تھی‘ لہٰذا سینیٹ انتخابات کے معاملے پر صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان میں داخل کرنے سے آئینی‘ سیاسی اور دیگر قانونی معاملات مزید خرابی کا شکار ہوں گے جس سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسا ہوا تو حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ حکومت آئین کی حساس دفعات کو تبدیل کرکے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کرنا چاہتی ہے ۔ میں نے11 مارچ2009 ء کو چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیٹی کی حیثیت سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی منظوری سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو رپورٹ پیش کی تھی کہ سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کے ازالے کے لیے آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کرلیں لیکن حکومت نے اس تجویز پر دھیان نہیں دیا۔اگر میری تجویز پر حکومت بروقت غور کرتی اور سفارشات کو عملی شکل دے دے جاتی تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس آئینی نوعیت کے مسئلے سے بچا جا سکتا تھا، علاوہ ازیں آج کی حکومت کو سینیٹ انتخابات میں ان سوالوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو آج وسیع تر سطح پر زیر بحث ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں