"KDC" (space) message & send to 7575

بیوروکریسی میں اصلاحات

وزیراعظم نے سچائی کا اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ بغیر تیاری حکومت نہیں لینی چاہیے۔بقول ان کے‘ باہر سے جو دیکھ رہے تھے اندر آ کر اُس سے مختلف نکلا‘وزارتوں اور بیورو کریسی نے پرفارم نہیں کیا اور گورننس پر اچھا اثر نہیں پڑا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئی حکومت آئے تو امریکی طرز پر بریفنگ دی جانی چاہیے۔وزیر اعظم نے بیوروکریسی میں اصلاحات کا ذکر بھی کیا۔ وزیراعظم جب اقتدار میں آنے والی ہر حکومت کیلئے پیشگی پوری تیاری کی ضرورت اجاگر کرتے ہیں تو اس میں کسی کمزوری یا اہلیت کی کمی کی بجائے انتقالِ اقتدار کے طریق کار میں اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے مذکورہ بیان کا ایک مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ خود ان کے ذہن میں اپنی حکومت کی کارکردگی کا جو تصور تھا وہ اڑھائی سال کے دوران عملی طور پر سامنے نہیں آ سکا اور وہ خود یہ محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی میعاد کے اڑھائی سال باقی رہ گئے ہیں اس لیے ایسے کسی عذر کی مزید گنجائش نہیں رہی کہ ہم سیکھ رہے ہیں۔وزیر اعظم خود یہ کہہ چکے ہیں کہ اب کارکردگی دکھانے کا وقت ہے ‘ اگر وزارتیں پرفارم نہیں کریں گی تو گورننس بہتر نہیں کی جا سکے گی۔ یہ ایک ایسی حکومت کے وزیر اعظم کا تجزیہ ہے جو شاکی رہی ہے کہ اسے انتہائی مشکل معاشی حالات میں اقتدار ملا اور جس نے نہ صرف غیر ملکی قرضوں کے واجبات کی بروقت ادائیگی کا اہتمام کیا بلکہ معاشی حالات کے حوالے سے اس حکومت کی کاوشوں کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف بھی کیا گیا۔ 
بیوروکریسی کے حوالے سے اصلاحات پر جو کام ہو رہا ہے اور بیوروکریسی کو سیاسی آلودگی اور کرپشن سے بچانے کے لیے جو اصلاحات لائی جارہی ہیں اس کا آگے تفصیل کے ساتھ ذکر ہو گا‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم جب اقتدار میں آئے تو ان کے گرد ایک مخصوص طریقے سے بیوروکریسی کا جال بچھا دیا گیا جو حکومت کو‘ معاملات سے عدم واقفیت اور ابتدا کی باریکیوں سے نابلد ہونے کی وجہ سے‘ غلط سمت پر لے گیا۔جہاں تک بیوروکریسی میں اصلاحات کی بات ہے تو حکومت نے '' سول سرونٹس ایفی شنسی اینڈ ڈسپلن رولز 2020‘‘ لاگو کردیے ہیں۔رواں ماہ دو تاریخ کو وزیراعظم نے ان نئے رولز کی منظوری دی تھی‘ جس کے بعد 11 دسمبر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ان کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ان رولز کی رو سے جائیداد اور آمدن میں مطابقت نہ رکھنے والا حکومتی ادارے کا عہدیدار کرپٹ تصور کیا جائے گا اور خورد برد ثابت ہونے پر ریکوری ‘عہدے سے تنزلی یاجبری ریٹائرمنٹ میں سے کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے۔ الزام علیہ (ملزم) جواب نہ دے سکے تو اتھارٹی 30 دن کے اندر فیصلہ کرے گی۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ 13 صفحات پر مشتمل ایس آر اومیں مس کنڈکٹ کی تشریح کی گئی ہے۔ مس کنڈکٹ سے مراد یہ ہے کہ تقرری ‘ پروموشن ‘ ٹرانسفر ‘ ر یٹائرمنٹ یا سروس کے دیگر معاملات میں سیاسی طور پر اثر ور سوخ استعمال کرنا۔ کرپشن کے بعد کسی ایجنسی سے پلی بارگین کرنا بھی مس کنڈکٹ تصور ہوگا۔ سول سرونٹ کے خلاف انضباطی کارر وائی جن بنیادوں پر کی جاسکے گی ان میں کسی افسرکی اپنی یا اس پر انحصار کرنے والے اہل خانہ کی جائیداد یں ان کے ظاہری ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتی ہوں یا ان کا طرزِ زندگی ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتا ہو یا وہ تخریب کاری یا مشکوک سر گرمیوں میں ملوث ہوں یا وہ سر کاری راز کسی غیر مجاز شخص کو بتانے کا مرتکب ہو۔ ایسی صورت میں اس افسر کے خلاف انضباطی کارروائی ہو گی۔
ایس آر او میں سزاکی بھی تشریح کی گئی ہے۔ کم سزا (Minor Penalty) میں سرزنش‘ سالانہ ترقی کی ضبطی ‘ متعین عرصہ کے لیے سالانہ ترقی کا منجمد کیا جانا‘ جو زیادہ سے زیادہ تین سال کے لیے ہو گی۔نچلے سکیل میں متعین عر صہ کے لیے تنزلی بھی کی جاسکتی ہے اورپروموشن بھی واپس لی جاسکتی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ تین سال کے لیے۔ زیادہ سزا ( Major Penalty ) میں یہ شامل کیا گیا ہے کہ اگر سول سرونٹ پر خورد برد ثابت ہو جا ئے تو فنا نشل رُولز کے تحت اس سے ریکوری کی جا ئے گی‘نچلے سکیل میں تنزلی کی جا سکے گی‘ جبری ریٹائر ‘ ملازمت سے فارغ یا معطل بھی کیا جاسکتا ہے یا جبری رخصت پر بھیجا جا سکتا ہے۔دورانِ معطلی اسے تنخو اہ اور الا ئونس رول 53 کے تحت ملیں گے۔ انضباطی کارروائی کے لیے ضرروی نہیں کہ انکوائری ہی کی جا ئے‘ لیکن ایسی صورت میں الزام علیہ کو کارروائی کی بنیادوں سے آ گاہ کیا جا ئے گا۔ جس کیس میں انکوائری موقوف کی جا ئے گی اس میں الزام علیہ کو تحر یری طور پر آ گاہ کیا جائے گا کہ اس پر یہ الزامات ہیں جن کی بنیاد پر اسے یہ سزا دی جا سکتی ہے۔ شوکا ز نوٹس بھی جاری کیا جا ئے گا اور جواب کے لیے کم سے کم دس دن کا وقت دیا جا ئے گا‘ اگر الزام علیہ اس دوران جواب نہ دے سکے تو اتھارٹی 30دن کے اندر فیصلہ کرے گی‘ سوائے جس میں صدر یا وزیر اعظم اتھارٹی ہوں۔
اگر سول سرونٹ کے خلاف انکوائری ہو تو انکوائری افسر کو متعلقہ ریکارڈ سات دن میں فراہم کیا جا ئے گا۔ اس میں صرف دس دن تک اتھارٹی توسیع کر سکتی ہے۔انکوائری کے لیے انکوائری افسر ملزم سے سینئر ہونا چاہئے اور انضباطی کارروائی کی بنیاد واضح ہونی چاہئے۔ انکوائری افسر ایک بھی ہو سکتا ہے اور انکوائری کمیٹی بھی بنائی جا سکتی ہے۔کسی وجہ سے انکوائری افسر یا انکوائری کمیٹی کے کسی رکن کو تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے جاسکتے ہیں اور دو نوں پارٹیوں کے گواہوں پر جرح بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر الزام علیہ مقررہ عر صہ میں جواب نہیں دے گا تو انکوائری افسر یکطرفہ کارروائی کرنے کامجاز ہے۔انکوائری افسر یا انکوائری کمیٹی یومیہ سماعت کرے گی اور اگر کسی وجہ سے ملتو ی کی جا ئے گی تو وجوہات تحر یر کی جائیں گی۔ یہ التوا سات دن سے زیادہ نہیں دیا جا سکے گا۔اگر انکوائری افسر یاکمیٹی یہ سمجھے کہ ملزم انکوائری کے عمل میں رخنہ ڈال رہا ہے تو اسے وارننگ دی جا ئے گی۔ اگر اس کے باوجود وہ باز نہ آئے تو کمیٹی کو اختیار ہے کہ جو طریقہ مناسب سمجھے اسے اختیار کرے‘ تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔طبی بنیادوں پر التوا بھی ر جسٹرڈ مجاز میڈیکل افسر کی سفارش پر ہو گا۔ انکوائری افسر یا کمیٹی انکوائری کو 60دن میں مکمل کرے گی۔ انکوائری افسر کسی کو بھی طلب کرنے اور حلف پر بیان لینے کامجازہے۔ اسے دستاویز کے حصول کا اختیار بھی ہے۔ دستاویز اتی شہادتوں کے معائنہ کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا اختیار بھی اسے حاصل ہے۔
اگر کوئی افسر جس پر الزام ہو اور وہ لازمی تر بیتی کورس جو ائن کر چکا ہو توا سے ٹریننگ کورس مکمل کرنے کی اجازت ہوگی۔سکالر شپ کی صورت میں بھی یہ سہولت حاصل رہے گی۔ اگر کو ئی ملزم رخصت پر ہو تو اتھارٹی رخصت منسوخ کرکے واپس طلب کرے گی‘اُسے ذاتی شنوائی کا موقع بھی دیا جا ئے گا۔اگر کوئی افسر ڈیپوٹیشن پر ہو تو الزام کی صورت میں متعلقہ محکمہ الزامات کی چارج شیٹ بنا کر اُس محکمے کو دے گا جس سے افسر کا تعلق ہو۔ اگر پاکستان سروس کا افسر کسی صوبے میں تعینات ہو تو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن چیف سیکرٹری سے کہے گا کہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کی جا ئے اور اسے دو ماہ میں مکمل کیا جا ئے۔ اگر کسی چیف سیکرٹری کے خلاف انضباطی کارروائی ہو تو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وزیراعظم کی منظوری سے یہ کارروائی کرے گا۔ سز ا پانے والے ہر سول سرونٹ کو اپیل کا حق حاصل ہوگا‘مگر سز ا خود صدر مملکت نے دی ہو تو اس کے خلاف اپیل نہیں ہو گی ‘البتہ ریویو آرڈر کی استد عا کی جا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں