"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری کے نتائج اورتنازع

مردم شماری کا متنازع ہونا ملک کیلئے بدقسمتی ہے ۔جنوری 2017ء میں شروع ہونے والی یہ مردم شماری سپریم کورٹ کے حکم کے تحت کی گئی تھی‘ تاہم اس کے نتائج پر سندھ ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مختلف سیاسی جماعتوں اور بعض عوامی حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل میں یہ طے پایا تھا کہ کراچی ‘ حیدرآباد اور دیگر شہروں میں مردم شماری کاپانچ فیصد پری آڈٹ کسی تھرڈ پارٹی کے ذریعے کروالیا جائے اور اس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے بلوچستان ‘ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا کو بھی اس میں شامل کر لیاجائے۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ مردم شماری کے نتائج کی منظوری سے پہلے ان صوبوں اور جماعتوں کے تحفظات کو دور کرتی ۔نتائج کے بارے تحفظات دور کرنے کیلئے وہ معاہدہ مددگار ہوسکتا تھا جو سینیٹ میں پارلیمانی لیڈرز کے مابین ہوا تھا۔ اس معاہدے پر تحریکِ انصاف کی طرف سے سینیٹر اعظم سواتی نے دستخط کئے تھے۔ نتائج کو درست کرنے کیلئے معاہدے میں طے پایا تھا کہ منتخب کردہ پانچ فیصد پاپولیشن بلاک میں دوبارہ مردم شماری کرائی جائے گی اور اگر یہ کام کرلیا جاتا تو یہ اہم قومی معاملہ متنازع نہ بنتا۔ اس معاہدے کی وجہ سے آئین کی 24 ویں ترمیم کی راہ ہموار ہوئی جس کے تحت مردم شماری 2017ء کے نتائج پر2017 ء یا بعد میں ہونے والے ضمنی انتخابات کیلئے نئی حلقہ بندیاں کی جاسکتی تھیں‘ لیکن معاہدے کی رو سے ان نتائج کو کسی بھی آئندہ عام انتخابات میں نئی حلقہ بندیوں یا صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا تاوقتیکہ ان نتائج کو درست نہ کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اعتراضات کو ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی درست قرار دیا ہے ‘ مگروفاقی کابینہ نے ان نتائج کی منظوری دے کر مذکورہ معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ آئین کے تحت ان نتائج کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل کو دینی چاہیے۔ سندھ میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا مؤقف تھا کہ مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے ۔ اس کیلئے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مردم شماری میں ایک صوبے میں اس وقت رہنے والے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو شمار نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے شناختی کارڈ پر پتے ان کے آبائی علاقوں کے درج ہیں۔ ان جماعتوں کا مؤقف ہے کہ سندھ میں دوسرے صوبوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے‘ سندھ ان لوگوں پر اپنے وسائل خرچ کرتا ہے ‘لہٰذا انہیں بھی سندھ کی آبادی میں شمار ہونا چاہیے جیسا کہ اسلام آباد کی آبادی کو شمار کیا گیا ہے جہاں 90 فیصد لوگ اسلام آباد کے رہائشی نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی نگرانی میں ہر چار سال بعد سروے ہوتا ہے اور یہ پورے پاکستان میں ہوتا ہے‘ اس سروے کے مطابق سندھ میں ہر گھرانہ اوسطاً سات افراد پر مشتمل ہے۔ مردم خانہ شماری 2017ء کے نتائج کے مطابق سندھ میں پانچ لاکھ 85 ہزار 610 گھرانے ہیں اور اگر اسے سات سے ضرب دی جائے تو سندھ کی آبادی چھ کروڑ 18 لاکھ 392 افراد پر مشتمل ہونی چاہیے‘ لیکن مردم شماری 2017ء میں اسے چار کروڑ78 لاکھ 98 ہزار 51 ظاہر کیا گیا ہے۔ اس طرح سندھ کی آبادی ایک کروڑ 39 لاکھ 30 ہزار 341 یعنی22.5 فیصد کم ظاہر کی گئی ہے ۔ محکمہ شماریات نے اس باریک بینی کو نظر انداز کرتے ہوئے نادرا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈیٹا کو بھی اہمیت نہیں دی۔بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس قومی اہمیت کے معاملے پر اتفاق رائے کے احکامات سے شعوری طور پرفائدہ نہیں اٹھایا گیا اور کابینہ نے مردم شماری اور خانہ شماری کو متنازع بنادیا ہے۔ بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ وزیراعظم کے مشیران اورمعاونین خصوصی میں سے بعض اس ایشو پر کام کررہے ہیں‘ جو پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات اور حقیقی مردم و خانہ شماری کو ملک کیلئے خطرناک تصور کرتے ہیں۔ ان ماہرین پر وزیراعظم کی گرفت کمزور نظر آتی ہے۔
موجودہ دور کا دوسرا اہم ایشو حکومت اور حزبِ اختلاف کی مسلسل شدت اختیار کرتی باہمی محاذ آرائی ہے ‘ مگر اس کے باعث ملک کے بند گلی میں پھنس جانے کا نتیجہ کیا ہوگا اور اس خلفشار میں قومی مفادات کو کس قدر نقصان ہو گا ‘ اس کا احساس کوئی نہیں کر رہا اور اس سوال نے ہر حساس اور باشعور پاکستانی کو بجا طور پر فکرمندی میں مبتلا کررکھا ہے۔ دونوں جانب سے فریق ِمخالف پر الزام تراشی میں پورا زورِ بیان صرف کیا جاتا ہے اور دونوں اطراف کے ترجمانوں کی اس لفظی جنگ میں یہ حقیقت ملحوظ نہیں رکھی جاتی کہ دوسرا فریق بھی کروڑوں پاکستانیوں کی نمائندگی کرتاہے اوراقتدار آنی جانی چیز ہے ۔ جمہوری ملک میں آج کی حکومت کا کل کی اپوزیشن اور آج کی اپوزیشن کا کل برسر اقتدار ہونا بالکل معمول کی بات ہے‘ تا ہم ہمارے حکومتی اور اپوزیشن رہنمائوں کے پُرزور بیانات میں اس حقیقت کا کوئی لحاظ نظر نہیں آتا۔ جہاں تک قومی اداروں پر نکتہ چینی کی بات ہے تو ہر محب وطن پاکستانی اپنے قومی اداروں سے دل و جان سے محبت کرتا ہے۔ جہاں تک اپوزیشن کے 25 جولائی 2018ء کے انتخابات پر تحفظات کا سوال ہے تو اس کے ازالے کیلئے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں پارلیمانی امور کی کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق رائے ہوا تھا اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی رضا مندی کا اظہار کردیا تھا لیکن قائد حزب اختلاف شہبازشریف اوراپوزیشن کے دیگر اہم رہنماؤں نے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے باوجود اس اہم پارلیمانی کمیٹی پر انتخابات میں بے ضابطگیوں کے معاملے پر مزید کارروائی کیلئے زور نہیں دیا۔ اگر اپوزیشن پارلیمانی کمیٹی کے مسلسل اجلاس کا انعقاد کرواتی تو آر ٹی ایس کی ناکامی کی وجوہ سامنے آجاتیں اور فارم45پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط نہ ہونے کی پراسراریت کا راز بھی کھل ہوجاتا۔ مگر اپوزیشن کے سرکردہ رہنماوزیراعظم سے بات منوانے میں ناکام رہے اور یوں اڑھائی سال ضائع کردئیے۔ اب الیکشن 2018ء کا سارا ریکارڈ قانون کے مطابق تلف کیا جاچکا ہے‘ لہٰذا انکوائری کمیشن تشکیل پاتا ہے تو وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ اپوزیشن کو اپنی کوتاہی پر بھی غور کرنا چاہیے۔
25دسمبر کوچکوال کی تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے معروضی حالات کو نظرانداز کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ فوج ان کا تختہ الٹ دے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو آرمی چیف کو ہٹا دے اور یہ کہنا کہ اپوزیشن کو این آر او دینا غداری ہوگی۔ بین السطور میں ان کے الفاظ کے اشارے کسی اور طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپوزیشن کے اشتہاری مجرم جو افواج پاکستان کے بارے میں آئے روز بیانات دے رہے ہیں وہ ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں‘ اپریل1977ء سے یکم جولائی1977ء تک جس محاذ آرائی کا سامنا وزیراعظم بھٹو کو تھا انہوں نے بھی ایسی تقاریر سے ماحول گرمایا تھا؛ تاہم موقع کوئی بھی ہو اسے مخالفین کی توہین و تضحیک اور طعنہ زنی کا ذریعہ بنانا معمول کی بات بن گیا ہے۔ حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ کو سامنے رکھ کر حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہونے لگتا ہے کہ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے غیر ملکی ایجنسیوں نے دونوں جانب کے سیاسی بلاکس میں مخصوص اور متنازع پس منظر رکھنے والے لوگوں کو شامل کر رکھاہے۔حساس اداروں کو ایسے افراد پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان اپنے اتحادیوں کے خدشات اور تحفظات کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچیں اور مردم شماری جیسے حساس معاملات کو حل کرنے کیلئے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو آگے بڑھائیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں