"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی کشیدگی اور اپوزیشن کے ماورائے آئین مطالبات

سیاسی کشیدگی اس انتہا کو جا پہنچی ہے جہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم سے اختلافات کے تصفیہ کا امکان بظاہر صفر دکھائی دیتا ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان سے31 جنوری تک مستعفی ہونے کا آئین اور قانون سے ماورا مطالبہ کیاہے اور ساتھ ہی لانگ مارچ کا روڈ میپ بھی دیا ہوا ہے۔ ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب سارے اپوزیشن رہنماؤں‘ بالخصوص مولانا فضل الرحمن نے قومی اداروں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ بادی النظر میں ان کے یہ ریمارکس آئین کے آرٹیکل (1) 63 (جی) اور پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017 ء کی دفعات 200 اور 212 سے متصادم ہیں اور اگر کسی شہری نے ان دفعات کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجوا دیا تو ان کے ان ریمارکس پرالیکشن کمیشن آف پاکستان کارروائی کا مجاز ہو گا۔ 
الیکشن 2018ء پر اعتراضات کی آڑ میں مولانا صاحب نے جو الزامات قومی اداروں پر عائد کئے ہیں ایسے ہی ریمارکس تواتر سے خان عبدالولی خان بھی دیتے رہے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ طورخم کی زنجیریں دریائے جہلم کے پل پر لگا دیں گے‘ اس پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کی نیشنل پارٹی کو 1975ء میں کالعدم قرار دے دیا تھا اور پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 1962ء کے تحت چیف جسٹس حمود الرحمن نے وفاقی حکومت کے ریفرنس کی توثیق کر دی تھی۔مولانا فضل الرحمن نے قومی اداروں کے بارے میں جو ریمارکس دیے ہیں انہوں نے انہیں آئین کے ترازو میں نہیں تولا۔ تلخ حقیقت اور بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کے اہم وزرا‘ ترجمان اور معاونین خصوصی‘ آئین کی اہم شقوں سے نابلد ہیں جبکہ محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے آئینی ماہرین اپنی خوشامدانہ چالوں سے انہیں بند گلی میں کھڑا کر نے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ ان کے ایک آئینی ماہر کے بارے میں راقم الحروف وزیراعظم عمران خان کے ایک قریبی ساتھی کو کئی بار آگاہ کر چکا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے حکومتی پالیسی اور مستقبل کے روڈ میپ کے حوالے سے انٹرویوز کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے منفی اثرات ہی پڑ رہے ہیں کیونکہ وزیراعظم لفظوں کا استعمال سوچ سمجھ کر نہیں کر رہے اور ان کے ترجمان منطق سے گریز کرتے ہوئے حکومتی پالیسی بیان کرتے ہیں۔ وہ جو ریمارکس دے رہے ہیں اس سے تحریک انصاف کا ووٹ بینک بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔وزیراعظم آئین اور قانون کے مطابق پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہیں ؛چنانچہ وزیراعظم کو ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر اور احتیاط کے ساتھ بولنا چاہیے۔ماضی میں دیکھیں تو بطور اپوزیشن لیڈر اپنے الفاظ کی ادائیگی کی وجہ سے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری اور سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا نے عمران خان صاحب کو کئی بار متنبہ کیا تھا اور عمران خان صاحب کو ان اداروں کو معافی نامے بھی جمع کروانا پڑے تھے۔
مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام پاکستان پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017ء کی دفعہ 200 اور 201 کے تحت باقاعدہ رجسٹرڈ ہے اور سیکشن 202 کے تحت پارٹی کے سربراہ کو اپنی جماعت کے آئین کے تحت پارٹی سے اختلافات کرنے والے افراد کو خارج کرنے کے مکمل اختیارات ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے آئینی ماہرین نے ان کو باور نہیں کرایا کہ جن چار افراد کو مولانا فضل الرحمن نے پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کی سفارشات پر خارج کیا ہے اس کی ایک کاپی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سیکشن 202 کے تحت بھجوانی چاہیے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی سیاسی سرگرمیوں‘ جلسے‘ جلوس اور پریس کانفرنسوں کو میڈیا 20ستمبر 2020ء سے بڑی اہمیت دے رہا ہے۔ پاکستان کے صف ِاول کے اُردو اور انگلش اخبارات ان کے بیانات اور تقاریر کو فرنٹ پیج کی زینت بنائے ہوئے ہیں۔ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ڈیموکریٹک موومنٹ نے وفاقی حکومت کو ناقابلِ تلافی نقصانات اس لیے پہنچائے کہ ان کے ترجمان اور وزرا سیاسی تاریخ کے 50 سالہ تجربات سے بالکل نابلد ہیں۔اپوزیشن قومی انتخابات 2018ء کے انعقاد کے فوراً بعد سے قومی اداروں کے خلاف مضحکہ خیز الزامات لگا رہی ہے۔ میں اس سے پیشتر اپنے کالموں میں الیکشن 2018ء کے بارے میں بار بار باور کراچکا ہوں کہ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات‘ ملک کے تمام انتخابات جو 1951ء سے چلے آ رہے ہیں میں‘ کئی لحاظ سے بہترین انتخابات تھے۔آئین کے آرٹیکل 221اور آرٹیکل 245کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کے لیے افواجِ پاکستان کی خدمات مستعار لی گئی تھیں‘ ان کا اہم فریضہ امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول کرتے ہوئے بیلٹ بکس کے تقدس کو ملحوظِ خاطر رکھنا تھا۔ اس جذبے اور اسی فرض کی ادائیگی کی خاطر افواجِ پاکستان کے جوانوں نے پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر اپنے فرائض ادا کیے۔ ان کا پولنگ کے عمل‘ گنتی اور پریزائیڈنگ افسران کے تیار کردہ نتائج‘ پولنگ ایجنٹس‘ پولنگ کے عمل اور الیکشن ایجنٹس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ افواجِ پاکستان کے ٹرم آف ریفرنس کے تحت پولنگ کے عملے کو بہ حفاظت گھروں تک پہنچانا اور پریزائیڈنگ افسران کو الیکشن کی دستاویزات‘ پولنگ بکس اور پولنگ کے تھیلوں اور پریزائیڈنگ افسران کو مع اہم دستاویزات کے ریٹرننگ افسران تک پہنچانا بھی ان کی ذمہ داری تھی اور ان کو وی آئی پی سکیورٹی اسی لیے فراہم کی گئی تھی کہ ماضی میں انتخابات کے موقع پرپولنگ سٹیشنوں پر مخالف گروہ قبضہ کر لیا کرتے تھے اور پریزائیڈنگ افسران کو یرغمال بنا کر بیلٹ پیپرز پر جعلی انگوٹھے لگوانے کے بعد بیلٹ بکس بھر دیے جاتے تھے اور 2013ء کے انتخابات میں تو پولنگ سٹیشنوں کے باہر ہزاروں کی تعداد میں بیلٹ پیپرز فٹ پاتھوں پر بکھرے نظر آئے‘لیکن 2018 ء کے انتخابات کے بعد پولنگ سٹیشنوں کے باہر کہیں بھی بیلٹ پیپر بکھرے ہوئے نظر نہیں آئے۔ میڈیا بھی بہت بااثر ہے‘ اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہوتی تو میڈیا کی نظروں سے یہ سب اوجھل نہ رہتا اور صحافی دکھا دیتے کہ فلاں پولنگ سٹیشن کے باہر بیلٹ پیپر پڑے ہوئے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینا ہم مانتے کہ الیکشن میں گڑ بڑ کی گئی ہے۔
چونکہ ایسا کچھ نہیں ہوا اس لیے الیکشن میں بے ضابطگی کے الزامات کو بد نیتی پر مبنی قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی افواج نے 25جولائی 2018ء کے انتخابات میں امن و امان کے ساتھ ساتھ پولنگ سٹیشنوں کو غنڈہ گردی اور سیاسی جماعتوں کے مافیا گروپس سے محفوظ رکھا۔حقیقت یہ ہے کہ فوج کی جانب سے اگر انتظامات یقینی نہ بنائے جاتے تو ان انتخابات میں پہلے سے زیادہ بے ضابطگی ہوتی اور ملک میں جمہوری عمل شدید متاثر ہوتا اور سیاسی بے چینی انتہا کو پہنچ جاتی۔ بین الاقوامی مبصرین بالخصوص یورپی یونین کے مبصرین‘ جن کی ٹیم میں کینیڈا‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا اور برازیل سمیت 22ممالک کے نمائندے موجود تھے‘ نے اپنی رپورٹ میں افواجِ پاکستان کی کارکردگی کو مثالی قرار دیا اور اپنی رپورٹ میں جولائی 2018ء کے انتخابات کو صاف ‘ شفاف اور بہترین انتخابات قرار دیا۔ اسی طرح ملکی مبصرین اور فافن‘ جو انتخابی عمل کو گہری نظر سے جانچنے کا اعلیٰ درجے کے میکنزم کی حامل ہے‘ نے بھی الیکشن 2018ء کو بہترین الیکشن قرار دیا‘ لیکن باوجود اس کے اپوزیشن الیکشن کمیشن کی تیار کردہ نئی ٹیکنالوجی آرٹی ایس کے فلاپ ہونے کا سہارا لیتے ہوئے پورے انتخابات کو ہی متنازع قرار دیتی ہے‘ مگر اس حوالے سے بہت سے حقائق ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں