"KDC" (space) message & send to 7575

فارن فنڈنگ کیس ،ایک جائزہ

سٹیٹ بینک کے قوانین کے مطابق غیرملکی عطیات سٹیٹ بینک کی وساطت سے ہی کوئی جماعت وصول کر سکتی ہے۔ اسی پس منظر میں تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے تحریک انصاف کے غیرملکی عطیات کی وصولی میں سٹیٹ بینک کی پالیسی کو نظر انداز کئے جانے کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔ اکبر ایس بابر نے تحریک انصاف کے بارے میں الزامات عائد کئے ہوئے ہیں کہ بیرونِ ملک تحریک انصاف کے نام سے کئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں‘ جن کے ذریعے ممنوعہ رقوم اس پارٹی کے اکاؤنٹ میں آتی رہی ہیں۔ اس پارٹی کے خلاف فارن فنڈنگ یا دیگر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز وصول کرنے کا چھ سال پرانا کیس زمینی حقائق کے مطابق درست ثابت ہوا تو الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 210 کے تحت الیکشن کمیشن ممنوعہ رقوم ضبط کرنے کا مجاز ہے۔ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی تقریباً دو سال سے اس فنڈنگ کے معاملات کا جائزہ لے رہی ہے اور تحریک انصاف سے ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں الزامات کے بارے میں بار بار جواب طلب کرنے کا مرحلہ ابھی ختم نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کا کیس متنازع ہوتا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرنے کے لیے مارچ 2018ء میں سکروٹنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار نے گائیڈ لائن دیتے ہوئے پارٹی کی متنازع فنڈنگ کی جانچ پڑتال کرانے کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔ کمیٹی کو تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کا آڈٹ ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ذمہ داری دی گئی؛ تاہم بعد میں اس کمیٹی کو غیر معینہ مدت تک توسیع دے دی گئی تھی۔ اس کمیٹی کے 75 سے زائد اجلاس ہو چکے ہیں لیکن یہ انکوائری مکمل کرنے اور الیکشن کمیشن میں رپورٹ جمع کرانے میں ابھی تک ناکام ہے۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کمیٹی کے ممبران کی کارکردگی پر برہم ہوتے رہے ہیں۔ دراصل کمیٹی کی تشکیل اور ٹرم آف ریفرنس اس نوعیت کے ہیں کہ الیکشن کمیشن ان کے معاملات میں مداخلت یا باز پرس کی پوزیشن میں نہیں۔ کمیٹی کو بھی فریقین کے وکلا کی عدم پیروی کی وجہ سے اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تحریک انصاف کے وکلا عموماً کمیٹی کے روبرو پیش نہ ہونے کیلئے اپنی عدالتی مصروفیت کا سہارا لیتے ہیں۔ کمیٹی نے تحریک انصاف کے اہم کیس کے بارے میں جو سست روی کا مظاہرہ کیا‘ اس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو اپوزیشن کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کی وجہ سے ہی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے 19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تحریک انصاف کے حوالے سے غیرملکی عطیات کیس نومبر 2014ء سے زیر التوا ہے جو‘ جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے دائر کر رکھا ہے۔ انہوں نے جو الزامات لگائے ہیں ان میں غیرملکی ذرائع سے فنڈنگ اندرون ملک اور بیرون ملک بینک اکاؤنٹ پوشیدہ رکھنا‘ منی لانڈرنگ اور مشرق وسطیٰ سے غیرقانونی رقوم کی وصولی کیلئے تحریک انصاف کے ملازمین کی جانب سے فرنٹ مین کے طور پر نجی بینکوں کے اکاؤنٹ استعمال کرنا شامل ہے۔ سکروٹنی کمیٹی کی اب تک کی کارروائی صیغہ راز میں ہے اور بقول سابق چیف الیکشن کمشنر سردار رضا پارٹی نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے التوا کیلئے عدالتوں کا سہارا لیا اور ساڑھے تین سال تک یہ کیس عدالتوں میں زیر سماعت رہا۔ حنیف عباسی نے بھی سپریم کورٹ میں اسی نوعیت کا کیس دائر کررکھا تھا جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے تک سماعت مؤخر کرنا پڑی۔ اسی دوران تحریک انصاف نے فرخ حبیب کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے فارن فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے درخواست دائر کر دی‘ لہٰذا سکروٹنی کمیٹی مذکورہ دونوں پارٹیوں کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کر رہی ہے۔ اسی دوران تحریک انصاف نے اکبر ایس بابر کے خلاف بھی لوئر کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا‘ جو خارج کر دیا گیا۔ گزشتہ سال تحریک انصاف نے اسی نوعیت کا کیس سپریم کورٹ میں بیرسٹر فروغ نسیم کی وساطت سے دائر کر رکھا ہے جس کی سماعت ابھی تک نہیں ہوئی اور اس طرح اگر سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو ان کے تحت اگر غیرملکی رقم سٹیٹ بینک کی وساطت سے نہ آئے تو متعلقہ فرد‘ کمپنی یا پارٹی کے خلاف مرکزی بینک کیس دائر کرنے کا مجاز ہے جس کے تحت تین سال کی سزا کا تعین ہے۔ یہ معلومات بھی گردش کر رہی ہیں کہ اسی کے تحت سٹیٹ بینک تحریک انصاف کے 23 کے لگ بھگ اکاؤنٹس کا جائزہ لے چکا ہے جن میں غیرملکی رقوم آتی رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے ماہرینِ قانون نے تحریک انصاف کو غلط رائے دیتے ہوئے اس کے سربراہ کو بند گلی میں کھڑا کردیا ہے۔ دراصل جب اکبر ایس بابر نے نومبر 2014ء میں الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی‘ اسی وقت معاملات طے کئے جا سکتے تھے‘ لیکن تحریک انصاف کے مشیران نے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا جس سے یہ کیس متنازع ہوتا چلا گیا۔
اب اپوزیشن 19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ میرے خیال میں چیف الیکشن کمشنر کو چاہیے کہ 19 جنوری سے پیشتر ہی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سرکردہ رہنماؤں کو الیکشن کمیشن میں بریفنگ کیلئے بلائیں اور ان کو کیس کی پیشرفت کے بارے اعتماد میں لیں۔ ستمبر 2007ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کو انتخابی فہرستوں پر تحفظات تھے اور انہوں نے الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا تھا تو میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن مخدوم امین فہیم‘ سردار لطیف کھوسہ‘ ناہید عباسی اور دیگر اہم رہنماؤں کو الیکشن کمیشن میں مدعو کیا اور ان کی ملاقات چیف الیکشن کمشنر جسٹس قاضی محمد فاروق سے کروائی تھی۔ انہوں نے سیاسی رہنمائوں کے تحفظات دور کر دیے‘ جس سے وہ مطمئن ہو گئے تھے۔ فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات کے لیے سکروٹنی کمیٹی کے روبرو تحریک انصاف کے وکیل نے اعتراف کر لیا ہے کہ امریکہ میں پارٹی کے ایجنٹ نے غیرقانونی فنڈنگ کی تو اس کی ذمہ دار تحریک انصاف نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے وکیل شاہ خاور نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کی دو کمپنیوں سے فنڈنگ ان کا ایجنٹ کرتا رہا۔ اس نے اگر اپنے طور پر کوئی غیرقانونی فنڈنگ کی تو اس کی ذمہ داری تحریک انصاف پر نہیں آتی‘ مگر بادی النظر میں پارٹی نے تسلیم کر لیا ہے کہ غیرملکی فنڈنگ ہوئی ہے‘ یوں الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 210 کے تحت الیکشن کمیشن کی تحریک انصاف کے خلاف کارروائی کے لیے راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ 
اکبر ایس بابر کا مؤقف ہے کہ ابھی تو سعودی عرب اور آسٹریلیا کی فنڈنگ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ تحریک انصاف لندن‘ امریکا‘ سعودی عرب اور آسٹریلیا سے جو فنڈنگ حاصل کرتی رہی تو پارٹی فنڈنگ کے حصول کے ذرائع سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرنے کی بھی پابند تھی؛ تاہم میری اطلاع کے مطابق سکروٹنی کمیٹی اس معاملے کو مزید طوالت دینے کیلئے ممبر قومی اسمبلی فرخ حبیب کی درخواست‘ جو انہوں نے اپنے وکیل فیصل چوہدری کی وساطت سے الیکشن کمیشن میں دائر کر رکھی ہے‘ کو تحریک انصاف کے خلاف دائر کردہ درخواست کے ساتھ اکٹھا کرکے فیصلہ سنانا چاہتی ہے؛ تاہم اگر پارٹی کے خلاف فارن فنڈنگ کے حوالے سے فیصلہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 204 کے تحت آتا ہے تو وقتی طور پر پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے‘ لیکن الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے کیلئے دروازے کھلے ہیں‘ لہٰذا میری ناقص رائے کے مطابق 19 جنوری سے پیشتر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو منطقی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں