"KDC" (space) message & send to 7575

فارن فنڈنگ کے سیاسی اثرات

ملک میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن‘ عوام کے مسائل چھوڑ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگی ہوئی ہیں۔ براڈ شیٹ سکینڈل اور فارن فنڈنگ کیس انہیں باہم دست و گریبان رہنے کا ایک اور موقع فراہم کر رہے ہیں؛تاہم شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہی سے پتا چلے گا کہ حکومتیں کس طرح ذاتی مفادات کیلئے قومی خزانہ لٹنے کی پروا نہیں کرتیں اور خاموشی سے ایسے فیصلے کرتی ہیں جن کا قومی مفاد ات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
تحریک انصاف‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے فارن فنڈنگ کیسز الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے سرکاری پالیسی بیان میں چشم کشا بات کہہ دی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو مشرقِ وسطیٰ کے دو ممالک فنڈنگ دے رہے ہیں۔اپوزیشن جماعتیں اس الزام کی زد میں آ رہی ہیں مگر ان کے کسی رہنما نے وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کو چیلنج نہیں کیا ‘ان کا محور بدستور تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس ہی ہے اور سنگین مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کو عوام کے سامنے احتجاج کی صورت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ اب اپوزیشن کا کوئی رہنما وزیراعظم عمران خان کے الزام کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کرتا ہے تو وزیراعظم عمران خان کو الیکشن کمیشن میں ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔ اگر وزیراعظم ان کیمرہ میٹنگ میں الزامات پیش کر دیتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی آئین کے آرٹیکل 17کے تحت کالعدم قرارپائیں گی اور اگر وزیراعظم الزامات کے بارے میں شواہد پیش کرنے سے گریز کریں گے تو وہ خود آئین کے آرٹیکل 62 (1)ایف کی زد میں آ جائیں گے ۔
اپوزیشن کو احتجاج اور لانگ مارچ کے بجائے عدالتی فورم پر وزیراعظم کے بیان کو پیش کرنا چاہیے‘ مگر بادی النظر میں وزیراعظم کے بیان میں سچائی کا عنصر پنہاں ہے؛چنانچہ کسی اپوزیشن رہنما نے وزیراعظم کے الزامات پر منطقی طور پر احتجاج نہیں کیا‘ جبکہ فارن فنڈنگ کیس کے بارے میں اپوزیشن اکبر ایس بابر کی پیش کردہ دستاویزات ہی کو میڈیا کی زینت بنائے ہوئے ہیں ۔ ان کے پاس اکبر ایس بابر کے علاوہ مزید ایسے شواہد ہیں تو ان کو بھی الیکشن کمیشن میں پیش کر نا چاہیے ۔بہرحال شواہد بتا رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے معاملات کو دیکھ کر اور شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے ۔ اب اگر تحریک انصاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 204اور 210کی زد میں نہیں آتی اور اسے کلین چٹ مل جاتی ہے تو اکبر ایس بابر اسی ایکٹ کی دفعہ 212 ہی کے تحت سپریم کورٹ میں جانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور سپریم کورٹ جب اس کیس کی سماعت کرے گی تو جہاں اکبر ایس بابر کے شواہداور سابق الیکشن کمشنر سردار رضا کے ریمارکس اور فیصلے کا بغور جائزہ لے گی وہاں سپریم کورٹ اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے سٹیٹ بینک کے گورنر اور نجی بینکوں کے سربراہوں کو بھی طلب کرنے کی مجاز ہے اور ایسے راستوں سے گزرے گی جس سے تحریک انصاف کو ایک بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق ایسے مواقع پر لندن اورکراچی کی اہم شخصیات اس کیس میں فریق بن کر سامنے آئیں گی۔ بظاہردونوں اطراف سے تحریک انصاف پر فارن فنڈنگ کی تلوار لٹک رہی ہے‘ لہٰذا الیکشن کمیشن کو آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے ۔
دوسری جانب پارلیمانی کمیٹی نے مختلف انتخابی اصلاحات پر غور شروع کر دیا ہے جس سے بظاہر آئندہ انتخابات میں شفافیت کا عنصر پروان چڑھتا نظر آ رہا ہے جبکہ پارلیمانی امور سے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انتخابی ایکٹ 2017ء میں بڑے پیمانے پر ترامیم پر مشتمل ایک حکومتی بل پیش کرنے جا رہی ہے جس کا مقصد ارکانِ پارلیمنٹ یا ان کے مدمقابل امیدوار کے واجب الوصول اکاؤنٹس کو اثاثہ جات کے طور پر ظاہر کرنا ہے۔ اس بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ منتخب قانون سازوں اور مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی اہلیت اور نااہلی کا اندازہ لگانے کیلئے مقرر کردہ تاریخ ان کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کی تاریخ سے مؤثر ہو گی۔ اسی طرح سے ملتی جلتی شق صدر فاروق لغاری نے 15نومبر 1996ء کے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جاری کی تھی جس کا عمل درآمد مارچ 1985ء سے شروع کرتے ہوئے نادہندگان کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن کیلئے نااہل قرار دے دیا گیا تھا‘ جس کی زد میں شریف برادران بھی آ رہے تھے ‘ مگر مفاہمت کے پیش نظر نگران وزیراعظم ملک معراج خالد نے آرڈیننس واپس لینے کیلئے کابینہ سے منظوری حاصل کرنا چاہی تو وفاقی وزیر انصاف و قانون جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اگر صدر فاروق لغاری اور نگران وزیراعظم ملک معراج خالد مفاہمت کا این آر او جاری نہ کرتے تو فروری 1997ء کے الیکشن میں شریف برادران اور دیگر اہم شخصیات انتخابی عمل سے باہر ہو جاتیں۔
اب اسی طرز کی انتخابی اصلاحات کے نام پر اصلاحات لائی جا رہی ہیں تاکہ دو اکتوبر 2017ء کو جو شخصیات نااہل ہو چکی ہیں ان کو ہمیشہ کیلئے نااہل قرار دے دیا جائے ۔ بادی النظر میں یہ انتخابی اصلاحات خوش آئند نظر آتی ہیں لیکن اپوزیشن ان اصلاحات کی راہ میں دشواری کھڑی کرے گی‘ البتہ مارچ 2021ء میں تحریک انصاف کو سینیٹ میں نمایاں نمائندگی مل جائے گی ؛چنانچہ ایکٹ 2017ء میں ترامیم کرنے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔بہرکیف بیرونِ ملک سے آنے والے فنڈز کے حوالے سے الزامات اور جوابی الزامات اور تردید در تردید کا سلسلہ جاری ہے ۔ ان میں سامنے آنے والے مواد کو مکمل طور پر قبول یا مسترد کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس باب میں ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے جاتے ۔ بہرحال اپوزیشن کے احتجاج کے بعد عوام کی نگاہیں الیکشن کمیشن کی آئینی و قانونی ذمہ داریوں کی طرف لگی ہوئی ہیں اور سکروٹنی کمیٹی کی گزشتہ ایک سال کی کارروائی نے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ وزیراعظم نے فنڈنگ کیس کی اوپن سماعت کی تجویز دی ہے‘ جو خوش آئند ہے اور سماعت کی صورت میں میڈیا‘ مدعی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات کا ازالہ ہو جائے گا۔
اکبر ایس بابر پونے سات سال سے فارن فنڈنگ کیس کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ ان کو مطمئن کرنا سکروٹنی کمیٹی کا فرض ہے ۔ واک آؤٹ کرنا غیر دانشمندی کے زمرے میں آتا ہے ۔ فارن فنڈنگ کیس میں کسی سیاسی جماعت کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204کے تحت فیصلہ آتا ہے تو وہ جماعت 30دن کے اندر الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212کے تحت سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتی ہے ۔ تحریک انصاف کے اکائونٹس میں غیر قانونی ذرائع سے فنڈز کی ترسیل ثابت ہو جاتی ہے اور 2009ء تا2013ء کے دوران فنڈز کی منی ٹریل سے ثابت ہو جاتا ہے کہ ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ ہوئی ہے تو وزیراعظم کے سیاسی مستقبل پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ‘ مگر اس کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی نے کرنا ہے ‘ الیکشن کمیشن کے اختیارات محدود ہیں۔ فیصلہ خلاف آنے پر پارٹی کی صحت پر اثر نہیں پڑے گا ‘مگرپارٹی کے چیئرمین نے چونکہ الیکشن ایکٹ 2019ء کی دفعہ 210کے تحت حلف نامے پر دستخط کئے ہیں کہ ان کی پارٹی نے غیر ممنوعہ فنڈنگ حاصل نہیں کی؛چنانچہ شواہد اگر اس کے خلاف آ جاتے ہیں تو پھر پارٹی کے سربراہ پر حقائق چھپانے کے الزامات عائد ہوں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں