"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ الیکشن ‘ ترامیم اور آئین

وفاقی کابینہ نے دوررس نتائج کے حامل کئی اہم فیصلے کیے ہیں۔ ان میں براڈشیٹ معاملے کی جامع تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج شیخ عظمت سعید پر مشتمل کمیشن کا قیام اور سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے پارلیمنٹ میں ترمیمی بل لانا شامل ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق وزیراعظم اور کابینہ کی ہدایت پر قانونی ٹیم نے بل کی تیاری پر کام شروع کر دیا ہے۔ خبریں گردش کررہی ہیں کہ وزیراعظم الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 222 میں ترمیم کے ذریعے سینیٹ کے الیکشن میں رازداری کی شق حذف کرانے کے خواہشمند ہیں۔ میرے نقطہ نظر سے اگر پارلیمنٹ سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 222 کے متبادل کوئی فارمولا سامنے آیا تو یہ آئین کے آرٹیکل 226‘ 51 اور106 کی روح کے خلاف قدم اٹھانے کے مترادف تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 218 اور 224 بھی متاثر ہوں گے‘ جبکہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 218 کا کسٹوڈین ہے‘ لہٰذا اس کی غیرجانبداری پر حرف آئے گا۔ اپوزیشن بھی پارلیمنٹ کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گی۔ اب چونکہ صدارتی ریفرنس عدالت میں ہے‘ حکومت اور الیکشن کمیشن کے جوابات عدالت میں داخل کرائے جا چکے ہیں؛ چنانچہ اگر حکومت عجلت میں الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم لانا چاہے گی تو آئین کی بالا دستی پر سوالیہ نشان لگ جائیں گے اور الیکشن کمیشن بھی اپنے آئینی حق کے تحت سپریم کورٹ سے گائیڈ لائن لینے کا مجاز ہو گا۔ وزیراعظم‘ اٹارنی جنرل اور اپنے قانونی ماہرین کے حصار میں رہتے ہوئے الیکشن کمیشن کی رائے کو نظر انداز کر کے آگے بڑھتے ہیں تو ملک میں آئینی بحران پیدا ہو جائے گا مگر یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی غیرجانبداری پر آنچ نہیں آنے دے گا کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء اور اٹھارہویں ترمیم کی روشنی میں الیکشن کمیشن فعال اور مضبوط ادارے کا روپ ڈھال چکا ہے اور کھلی رائے شماری کیلئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔
الیکشن کمیشن نے صدارتی ریفرنس کے موقف کی مخالفت کی تھی جس میں سینیٹ کے آئندہ انتخابات میں خفیہ ووٹ کی جگہ رازداری کے اصولوں کو نظرانداز کرکے کھلی رائے شماری کو متعارف کرانے کیلئے آئین میں ترمیم کرنے کی ضرورت ظاہر کی گئی تھی۔ وزیر اعظم اور صدر کے انتخابات کی طرح سینیٹ کے انتخابات بھی آئین کے تحت ہوتے ہیں اور سب سے عام اور فطری معنی میں جو آئین کے آرٹیکل 226 کے ذریعے واضح ہیں‘ انتخابات آئین کے تحت وہ پولنگ ہیں جو آئین کے ذریعے یا آئین کے اختیارات کے تحت ہوتے ہیں۔ دراصل وفاقی حکومت نے اٹارنی جنرل کی مشاورت سے سیاسی حکمت عملی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا مگر اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 218‘ 224 کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 222 کا بھی بغور جائزہ لینا ہوگا۔
حکومتی پالیسی کے تحت چیئرمین سینیٹ‘ سپیکر قومی اسمبلی‘ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومت نے وفاق کے دائرکردہ ریفرنس کی حمایت کرتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات کو الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق کروانے کی تجویز دی ہے تاکہ سینیٹ انتخابات میں شفافیت آئے کیونکہ خفیہ طریقے سے بڑے پیمانے پر بد عنوانی پھیل رہی ہے۔ فروری کے آخری ہفتے یا دوسرے ہفتے میں سینیٹ انتخابات کا شیڈول آنے کا امکان ہے اور الیکشن کا انعقاد لگ بھگ دو ماہ میں عمل میں آ جائے گا‘ مگر بادی النظر میں قانون میں ترمیم کے لئے آئین کے متعلقہ آرٹیکل 226‘ 106‘ 59‘ 224‘ 218 میں بھی ترامیم کرانا ہوں گی جس کیلئے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لئے سوچ بچار جاری ہے تاکہ حکومت آئین میں ترمیم سے گریزکرے‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ موجودہ ہنگامہ آرائی میں حکومت کے اتحادی اپوزیشن کے سحر میں نہیں آئیں گے‘ ان کے اپنے سیاسی مفادات آڑے آرہے ہیں۔ ان پُرآشوب حالات میں تحریک انصاف پنجاب میں اپنی مقررہ تعداد حاصل کرنے میں ناکام ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے جبکہ پرویز الٰہی کے نمائندے کو سینیٹ میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فارن فنڈنگ کیس میں حکمران جماعت اور اپوزیشن‘ دونوں نے قانونی اور اخلاقی پہلوؤں اور دستاویزی حقائق کو نظرانداز کرکے اسے ایک سیاسی مقدمہ بنا کر اپنا اپنا موقف اختیار کر رکھا ہے اور ممبر قومی اسمبلی فرخ حبیب نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف بھی الیکشن کمیشن میں الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت کیس دائر کر دیا ہے اور درخواست میں جمعیت علمائے اسلام کے سابق جنرل سیکرٹری حافظ حسین احمد کے ٹیلی ویژن انٹرویو کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ حافظ حسین احمد نے مولانا فضل الرحمن کے عراق اور لیبیا سے فنڈنگ لینے کا اعتراف کیا تھا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں مولانا فضل الرحمن سمیت جمعیت علمائے اسلام کے کئی رہنما دونوں ممالک کا متواتر دورہ کرتے رہے۔ یہ دورے قذافی اور عراق کے صدر صدام حسین کے ادوار میں ہوتے رہے لیکن الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی محض ٹیلی ویژن کی بنیاد پر مولانا فضل الرحمن کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی خلاف ورزی پر کیسے کارروائی کرے گی‘ جبکہ مثبت شواہد بھی سامنے نہیں آرہے۔ اسی طرح اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے فوراً بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انٹیلی جنس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل اورمولانا فضل الرحمن کے مابین تلخی کی خبریں بھی پارلیمان کی راہداری میں گردش کرتی رہیں‘ جن میں اسی طرف اشارہ کیا گیا تھا جس طرف حافظ حسین احمد نے اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم نے بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرف سے فارن فنڈنگ کے الزامات لگائے ہیں‘ اس کے باوجود تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر جو دستاویزات الیکشن کمیشن میں پیش کرکے تقریباً سات سال سے یہ مقدمہ لڑ رہے ہیں‘ ان شواہد سے تحریک انصاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204‘ 210 کی زد میں آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ متعدد حقائق ان دستاویزات میں موجود ہیں جو تحریک انصاف پاکستان کی ذیلی شاخ نے گوشواروں کے ساتھ امریکہ کی حکومت کے محکمہ انصاف اور ادارے آر اے ایف اے کے پاس گزشتہ 10 سال کے دوران وقتاً فوقتاً داخل کیے ہیں۔ یہ حقائق پی ٹی آئی یو ایس اے نے تحریک انصاف کی امریکہ میں ذیلی تنظیم کے طور پر فائل کرتے ہوئے خود کو امریکہ میں ایک فارن پولیٹیکل پارٹی کے ترجمان‘ نمائندہ اور اس کیلئے امریکہ میں فارن فنڈنگ کا مجاز قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا نام اور پارٹی کے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر کا ایڈریس درج کیا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے تضاد پایا جاتا ہے کیونکہ امریکہ میں فنڈ ریزنگ کرنے والی کمپنیوں کے قواعدوضوابط کی جانچ پڑتال الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کررہی ہے۔ تحریک انصاف کے قانونی ماہرین سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس کا سہارا لے رہے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ممنوعہ ذرائع سے موصول ہونے والے فنڈز بحق سرکار ضبط ہو سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی یا اس کے سربراہ کی نااہلی نہیں ہوسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس نے یکم اگست 2017ء کو یہ ریمارکس دیئے تھے جبکہ الیکشن ایکٹ اکتوبر 2017 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اسی طرح حقائق کو پوشیدہ رکھنے پر نواز شریف اور جہانگیر ترین آئین کے آرٹیکل 62( 1) ایف کی زد میں آئے اور انہیں تاحیات نااہل قرار دیا گیا‘ لہٰذا فارن فنڈنگ کیس کے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے وزیر اعظم پیشہ ور آئینی و قانونی ماہرین کی رائے سے استفادہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں