"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات کی راہیں متعین ہو رہی ہیں

مجھے پچھلے کچھ عرصے سے یوں گمان ہو رہا ہے کہ ملک کے سیاسی نظام پر عوام کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے اور اس طرح پارلیمانی نظام خطرے میں ہے‘ حالانکہ ملک کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان روایتی ڈگر پر گامزن ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے معاملے میں ماضی کی طرح گومگو کی کیفیت اب بھی برقرار ہے۔ شاید ہی کوئی حکومت ایسی ہو جس نے بلدیاتی نظام پر نت نئے تجربات نہ کیے ہوں لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ کسی صوبے میں بھی ٹھوس اور مؤثر بلدیاتی نظام کو دوام حاصل نہ ہو سکا۔ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں اپنے سابق دور میں کی جانے والی تبدیلیوں کی روشنی میں پنجاب میں نیا نظام لانے پر کام کر رہی ہے اور اگست 2019ء میں پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے قانون کے تحت حکومت نے انتخابات کرانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ نئے ویلیج پنچایت ایکٹ کے تحت تقریبا 26240 بلدیاتی حلقہ بندیاں کی جانی تھیں۔ اب حکومت نے مالی دشواری کے پیشِ نظر خزانے پر بوجھ کم کرنے کی غرض سے ویلیج پنچایت نیبرہڈ کونسل کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان نشستوں کو کم کرکے آٹھ ہزار تک لانے کی تجویز ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے جب تک نئے سرے سے حلقہ بندیاں نہیں ہوتیں‘ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کو مردم شماری کے حتمی گزٹ کا انتظار ہے۔
الیکشن کمیشن نے اگست 2020ء میں ہر ضلع میں تین رکنی کمیٹیاں تشکیل دی تھیں جنہیں متعلقہ ہدایات اور قوانین کی روشنی میں حلقہ بندیوں کا عمل شروع کرنا تھا۔ اس کیلئے الیکشن کمیشن نے شیڈول بھی جاری کیا تھا‘ مگر کورونا وبا کے پیش نظر یہ شیڈول مؤخر کر دیا گیا۔ دوسرے صوبوں کی صورتحال بھی پنجاب سے مختلف نہیں اور گزشتہ برس سابق بلدیاتی حکومتوں کی میعاد بھی پوری ہو چکی ہے‘ اس لیے بلدیاتی انتخابات میں مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہوا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات بروقت نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو ان کی سرد مہری کے پیش نظر آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینے کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کیونکہ صوبائی حکومتوں نے آئین کے آرٹیکل 140 اے کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کی روح کو نظر انداز کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے حکومت کی توجہ آئین کے آرٹیکل 51 کی طرف مبذول کراتے ہوئے آئین میں ترمیم کرنے کی تجویز دی تھی کیونکہ عبوری مردم شماری کے گزٹ نوٹیفکیشن کے تحت الیکشن کمیشن نے جولائی 2018ء کے انتخابات کیلئے صوبائی اور قومی اسمبلی کیلئے از سر نو حلقہ بندیاں مکمل کی تھیں‘ لیکن اس آرٹیکل میں لوکل گورنمنٹ کے اداروں کی حلقہ بندیاں کرانے کا ذکر نہیں ہے‘ اسی طرح پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کے تحت انتخابات کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017ء میں بھی ذکر نہیں ہے‘ اسی طرح اسی الیکشن ایکٹ کی دفعات 219 سے 229 تک کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ان قوانین میں براہ راست انتخابات اور پنچایت اور نیبرہڈ اور ویلیج کونسل کا ذکر نہیں ہے جبکہ پنجاب حکومت کے بلدیاتی ایکٹ 2019ء میں پنچایت ایکٹ کو لوکل گورنمنٹ کے دائرہ کار سے باہر رکھا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن بادی النظر میں صوبوں کے مرتب کردہ قوانین کے تحت انتخابات کرانے کا مجاز ہے لیکن براہ راست انتخابات کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کرانا وفاقی حکومت کا آئینی و قانونی فرض ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو انتخابات بروقت کرانے کیلئے الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 ء کے مطابق آگے چلنا ہو گا۔ میئر کے براہ راست انتخابات سے ملک میں ضلع میں آمریت کا نیا روپ سامنے آئے گا کیونکہ میئر کے اختیارات وزیر اعلیٰ کے برابر ہوں گے۔ یوں پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع خود مختار ہوں گے اور ان کی نظر یں وزیراعظم کے احکامات کی طرف مرکوز رہیں گی اور وزیر اعلیٰ کے اختیارات محدود ہو کر ایوان وزیر اعلیٰ تک محدود ہو جائیں گے۔ انڈیا میں میئر کے براہ راست انتخابات کے حوالے سے قانون سازی نہیں ہو سکی اور میئر کے براہ راست انتخابات کا طریقہ کار مسترد کر دیا گیا تھا۔ صدر ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں کے نظام کو انڈونیشیا نے اپنایا اور 55 سال سے ان کے ہاں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ ضیاالحق کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1979ء اور پرویز مشرف کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001ء کا بنیادی مقصد اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم تھا لیکن ایوب‘ ضیاالحق اور مشرف کے ادوار میں صدارتی نظام حکومت کی راہ ہموار کی جاتی رہی۔ صدر آصف علی زرداری نے 2009ء میں لوکل گورنمنٹ کے تحت انتخابات کا شیڈول آنے کے باوجود مؤخر کر دیا کیونکہ ان کو متحدہ قومی موومنٹ سے خطرہ لاحق تھاکہ وہ کراچی‘ حیدرآباد اور میرپور خاص میں بلدیاتی حکومت بنانے میں کامیاب ہوکر جنوبی سندھ کا الگ صوبہ بنانے کی کوشش کرے گی‘ لہٰذا ان کی سوچ 2015ء تک سندھ میں بلدیاتی انتخابات مؤخر کرنے کی تھی۔ بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے لیکن میئر کراچی وسیم اختر کو اختیارات تفویض نہیں کیے گئے اور انہوں نے بے بسی سے اپنے پانچ سال مکمل کئے۔ اب جبکہ حکومت نے مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی ہے‘ حقیقی قیادت کی نشوونما کیلئے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے فوری طور پر قانونی دشواریوں کا ازالہ کیا جائے۔ میرے خیال میں پنجاب کے لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو 2019ء میں تحلیل کرکے غیرقانونی قدم اٹھایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لیتے ہوئے برہمی کا اظہار کیاتھا۔
بلدیاتی اداروں کی موجودگی میں پنجاب میں 36 مسلم لیگی رہنماؤں نے سرکاری زمینوں پر جو قبضہ کیا اور وفاقی حکومت اور پنجاب کی حکومت نے 210 ارب روپے کی زمین واگزار کروائی اس کا آئندہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ق کے درمیان بلدیاتی انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہونے سے تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ وزیراعظم کے اردگرد موجود بعض وزرا کا تعلق ماضی میں پاکستان مسلم لیگ ق اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ رہا‘ مگر انہوں نے وزیراعظم کو بلدیاتی انتخابات سے دور رکھا ہوا ہے کیونکہ ان انتخابات میں جو جماعت پنجاب کے 36 اضلاع میں برتری حاصل کرے گی اس کے اثرات 2023ء کے انتخابات پر بھی پڑیں گے۔
لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرانے کیلئے فیصلہ جاری کیا جائے گا‘ جس کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے ہیں۔ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومتیں اگست اور ستمبر میں انتخابات چاہتی ہیں۔ اب اگر سپریم کورٹ کے لوکل گورنمنٹ کے ادارے بحال کر دیے تو تحریک انصاف کو سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور ضمنی انتخابات پر بھی اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ الیکشن کمیشن کو اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے کیلئے آئین کے آرٹیکل 218 کو مدنظر رکھتے ہوئے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ آئین کے آرٹیکل 218 کی ذیلی شق 3 الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ بدعنوانی سے پاک شفاف اور آزادانہ انتخابات کو یقینی بنائے جس کی طرف عدالت نے الیکشن کمیشن کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل دو سو بیس بھی الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے معاونت لے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 178 اور 179 کا سہارا لے سکتا ہے اور جماعتوں کے انتخابات کیلئے بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 200 سے 203 کے تحت پارٹی کے انتخابات کا جائزہ لینے کی پوزیشن میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں