"KDC" (space) message & send to 7575

ایوان بالا اور اوپن بیلٹ آرڈیننس

صدر مملکت نے سینیٹ کے انتخابات کیلئے اوپن بیلٹ آرڈیننس جاری کر دیا ہے جس کے تحت مارچ میں متوقع سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سیاسی جماعت کا سربراہ ووٹ دیکھنے کی درخواست ریٹرننگ افسران کو دے سکے گا۔ گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں اس ضمن میں مسودہ قانون پیش کیا گیا لیکن وہاں اسے منظور نہیں کرایا جا سکا‘ جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا اور صدارتی آرڈیننس کا راستہ اختیار کیا گیا۔ یوں موجودہ دورِ حکومت میں پارلیمان میں قانون سازی کے عمومی آئینی طریقہ کار کے بجائے صدارتی حکم ناموں کے غیرمعمولی طریق کار کے تحت قانون سازی کی ایک اور مثال قائم ہوئی۔ ڈھائی برس کی حکومتی مدت میں بیشتر قانون سازی اسی طرح عمل میں آئی ہے۔ اس دوران تقریباً تیس سے زائد صدارتی آرڈیننس جاری کروائے گئے۔ اس صورتحال کو جمہوری روایات کی رُو سے کسی طور قابلِ رشک قرار نہیں دیا جا سکتا؛ تاہم تازہ آرڈیننس عدالت میں زیرِسماعت صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط ہے۔ اگر سپریم کورٹ ریفرنس میں رائے دیتی ہے کہ سینیٹ کے ارکان کے انتخابات آرٹیکل 226 کے دائرہ کار میں نہیں آتے تو سینیٹ کے آئندہ مارچ میں اور اس کے بعد ہونے والے الیکشن اوپن بیلٹ اور قابلِ شناخت انداز میں ہوں گے‘ مزید یہ کہ سینیٹ ارکان کے الیکشن کے بعد اگر کسی سیاسی جماعت کا سربراہ الیکشن کمیشن سے یہ درخواست کرے کہ انہیں اپنی پارٹی کے کسی ممبر کا کاسٹ کیا ہوا ووٹ دکھایا جائے تو نامزد کردہ فرد کو کاسٹ کیا گیا ووٹ دکھایا جائے گا۔ 1974ء تا 2018ء پارلیمان کے ایوانِ بالا کے انتخابات ملک کے متفقہ آئین میں متعین کردہ خفیہ رائے دہی کے طریقہ کار کے تحت ہی انجام پاتے رہے ہیں اور خفیہ رائے دہی کا اصول دنیا کے عموماً سارے ہی جمہوری ملکوں میں اس وجہ سے اختیار کیا گیا کہ رائے دہندہ ہر قسم کے دباؤ اور خوف سے آزاد ہو کر اپنے اصول کے مطابق اس امیدوار کے حق میں ووٹ دے سکے جسے وہ متعلقہ منصب کیلئے سب سے زیادہ اہل سمجھتا ہو۔ ہمارے ہاں سینیٹ کے انتخابات میں حلقۂ انتخاب صوبائی اسمبلیاں ہوتی ہیں اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ ارکانِ صوبائی اسمبلی بالعموم خفیہ رائے دہی میں بھی اپنی جماعت کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں‘ تاہم عوام کا منتخب نمائندہ ہونے کی بنا پر انہیں خفیہ رائے دہی کے طریقہ کار میں یہ موقع بہرحال حاصل رہتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے نامزد کردہ امیدوار کے مقابلے میں کسی دوسرے امیدوار کو اہل اور بہتر خیال کرے تو پارٹی کی جانب سے کسی بھی کارروائی کے خوف سے آزاد رہتے ہوئے اس کے حق میں رائے دے سکیں‘ لیکن اس واقعاتی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس سہولت کا گزشتہ انتخابات سمیت ماضی میں بہت بڑے پیمانے پر ناجائز استعمال ہوا اور سینیٹ کے رائے دہندگان کے ووٹ بھاری رقوم اور مفادات کے عوض فروخت ہوئے اور خریدے جاتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں طے پانے والے میثاقِ جمہوریت میں سینیٹ کے انتخابات کیلئے اوپن بیلٹ کے طریق کار پر اتفاق کیا گیا تھا‘ لہٰذا حزب ِ اختلاف کے پاس اوپن بیلٹ کے طریق کار سے اصولی طور پر اختلاف کاکوئی جواز نہیں‘ تاہم جو حکومتیں 2008ء سے 2018ء تک اقتدار میں رہیں ان کے دورمیں اٹھارہویں ترمیم بھی منظور کی گئی‘ اس وقت میثاقِ جمہوریت کی شق23 کے مطابق قانون سازی کروانے میں ان کی رائے میں کسی قسم کی بھی دشواری نہیں تھی‘ لہٰذا سابقہ حکومتیں بھی آئین کے آرٹیکل 226میں کوئی ترمیم نہ لائیں جیسا کہ الیکشن کمیشن کی مرتب کردہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن کی حیثیت سے اور الیکشن کمیشن کی منظوری کے تحت اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو 11مارچ 2009ء کو سفارشات پیش کی گئی تھیں کہ سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام کیلئے آئین کے آرٹیکل 226میں ترمیم کرتے ہوئے اوپن بیلٹ کا طریقہ کار اختیار کیا جائے‘ لیکن حکومت نے الیکشن کمیشن کی سفارشات کو نظرانداز کر دیا۔
اپوزیشن کا یہ اعتراض درست ہے کہ ترمیم صدارتی آرڈیننس کے بجائے پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے سے کی جانی چاہیے‘ اس قانون سازی میں ضمیر کی آزادی برقرار رکھنے کیلئے اس امر کی یقینی ضمانت بھی لازماً فراہم کی جانی چاہیے۔ سینیٹ الیکشن میں اگر کوئی ووٹر اپنی جماعت کے نامزد کردہ امیدوار کو ووٹ نہ دے تو اسکے خلاف محض اس بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں ہو گی‘ ایسے کسی بھی اقدام کیلئے متعلقہ رکن کے خلاف سودے بازی کا یقینی ثبوت فراہم کیا جانا لازمی ہوگا لیکن اس کی روح کو برقرار رکھنے کیلئے پارٹی میں انٹرا پارٹی الیکشن بھی مسلمہ جمہوری اصولوں کے مطابق ہونے چاہئیں اور ٹکٹ ایوارڈ کرتے وقت اس کے حلقے کی یونین کونسل کی سطح کے ووٹرز کی رضامندی لازمی ہونی چاہیے‘ جیسے انڈیا نے اصول طے کیا ہوا ہے کہ پارلیمانی بورڈز اسی کو نامزد کرتا ہے یونین کونسل کی سطح پر جس کی مقبولیت ہو اور یہی طریقہ امریکہ میں رائج ہے کہ صدارتی امیدوار کو یونین کی سطح سے اوپر کی سطح کے تمام مرحلے طے کرنے ہوتے ہیں‘ جبکہ ہمارے ہاں پارٹی ٹکٹ اس کو دے دیا جاتا ہے جو معقول فنڈنگ کرتا ہو۔ الیکشن کمیشن کو بھی الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 210 اور203 کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
میری نظر میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ آرڈیننس کی آئین میں ترمیم کے بغیر کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اگر عدلت نے خفیہ بیلٹ کی تائید کرتے ہوئے آئین کو آرٹیکل 226 کی حیثیت برقرار رکھی تو آرڈیننس خودبخود تحلیل ہو جائے گا۔ اگر عدلت یہ رائے دیتی ہے کہ سینیٹ انتخابات آرٹیکل 226 کے دائرہ کار میں نہیں آتے تو مارچ میں ہونے والے انتخابات قابلِ شناخت طریقہ کار کے ذریعے کروائے جائیں گے۔ آرڈیننس الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 81‘ 33اور 185 پر فوکس کیا گیا ہے جن کا تعلق قومی اسمبلی کے انتخابات سے ہے‘ سینیٹ سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔اس آرڈیننس سے قومی و صوبائی اسمبلی کے آئندہ انتخابات بھی اوپن بیلٹ پر ہوں گے۔ آرڈیننس برقرار رہتا ہے یا اس میں ترمیم نہیں ہوتی تو 18 فروری کو 16 اضلاع میں ہونے والے ضمنی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو گا۔
حکومت نے عدلت میں صدارتی ریفرنس آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت دائر کر رکھا ہے‘ زیر سماعت ریفرنس میں الیکشن کمیشن نے اپنا مؤقف بھی دے دیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم سے پہلے آئین کے آرٹیکل 226‘ 224‘ 223‘ 59 اور 106 میں ترمیم کیے بغیر سینیٹ الیکشن میں اوپن بیلٹ ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن عدلت کے فیصلے اور رائے کے بعد ہی آئندہ لائحہ عمل اختیار کرنے کا مجاز ہے۔ صدارتی ریفرنس کے فیصلے سے ہی جمہوری نظام پائیدار ہو گا۔ اوپن بیلٹ آرڈیننس تضاد کا شکار ہو چکا ہے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یا پاکستان بار کونسل نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک سے سپریم کورٹ میں صدارتی آرڈیننس کو چیلنج کر دیا تو سینیٹ کے الیکشن مؤخر ہو جائیں گے۔ ان حالات میں حکومت کا مؤقف خوش آئند ہے کہ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کا جواب نہیں دیا تو الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان تبھی سیاسی طور پر سرخرو ہوں گے جب انہوں نے ہارس ٹریڈنگ کے ازالے کیلئے قانونی راستہ اپنانے کی کوشش کی۔ اوپن بیلٹ کیلئے میثاقِ جمہوریت کی شق کا حوالہ دینا نامناسب ہے کیونکہ یہ دو جماعتوں کے درمیان باہمی معاہدہ تھا اس کی قانونی حیثیت نہیں ہے اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں نے اس کو مسترد کر دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں