"KDC" (space) message & send to 7575

ویڈیو سکینڈل: الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھجوایا جائے!

مارچ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں خیبر پختونخوا کا وہ افسوسناک منظر جس میں سینیٹ انتخابات میں مبینہ طور پر ووٹوں کی خریداری کیلئے رقوم کی وصولی صاف نظر آرہی تھی پاکستانی قوم کیلئے دکھ اور اضطراب کا باعث تھا جو ملک کو مثالی فلاحی جمہوری ریاست کے طور پر دیکھنے کیلئے اپنے خواب کی عملی تعبیر کے عرصے سے منتظر ہیں۔ جمہوری معاشرہ جمہوری طرزِ عمل اپنانے اور جمہوری اقدار کو ہر قیمت پر سربلند رکھنے کے جذبے سے وجود میں آتا ہے‘ جس کیلئے سیاسی قیادت کے دعویداروں اور ان کے کارکنوں کا رویہ امانت‘ دیانت اور بصیرت کا مثالی نمونہ ہونا چاہیے۔ایسے لوگ قابلِ لحاظ تعداد میں موجود بھی ہیں مگر 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں مبینہ طور پر ووٹ فروخت کرنے والے خیبرپختونخوا اسمبلی کے ارکان کی ویڈیو میں دو خواتین سمیت پانچ ارکانِ صوبائی اسمبلی کو رقوم وصول کرتے دیکھا جا سکتا ہے‘ جن میں خیبرپختونخوا کے ایک وزیر قانون بھی شامل تھے۔
اس میں شبہ نہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر اس معاملے کا نوٹس لیا اور ان کی ہدایت پر وزیر قانون سلطان محمد سے فوری طور پر استعفیٰ لیتے ہوئے معاملے کی شفاف انکوائری کا حکم بھی دے دیا گیا‘ مگر یہ سوال ضرور برقرار ہے کہ تحریک انصاف نے جب مارچ 2018ء میں بعض ارکان کو ہارس ٹریڈنگ میں ملوث دیکھتے ہوئے شواہد کی بنیاد پر پارٹی سے خارج کیا اُس وقت وہ سلطان محمد کی مذکورہ سرگرمیوں سے کیوں بے خبر تھے؟ مبینہ ویڈیو میں نوٹوں کی گڈیاں موجود ہیں جنہیں اراکین اپنے بیگوں میں ڈالتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ وزرا نے پریس کانفرنس میں ویڈیو کے مناظر عوام کو دکھائے اور اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد صوبائی وزرا اور دیگر اہم سیاسی حکومتی رہنماؤں کے چہرے بھی دیکھے گئے مگر حسب روایت اس ویڈیو میں دیکھے جانے والے افراد نے ویڈیو کی تصدیق سے انکار کر دیا ہے؛ چنانچہ جہاں اس ویڈیو کا فرانزک معائنہ ضروری ہے وہاں سینیٹ الیکشن میں پورے انتخابی نظام کی شفافیت کے ضمن میں ضروری ہے کہ وفاقی حکومت ان تمام شواہد کو الیکشن کمیشن میں بطور ریفرنس بھجو اتے ہوئے اس واقعے میں ملوث افراد کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 167‘ 168‘ 169 اور 170 کے تحت سزا دلوانے کی استدعا کرے۔ قانون کے تحت یہ ملزمان تین سال قید اور تا حیات نا اہلی کے حق دار ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی رضا کارانہ طور پر الیکشن کمیشن میں پیش ہو کر اُن سرمایہ داروں کے نام سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرنا چاہیے جنہوں نے انہیں سینیٹ انتخابات کیلئے اربوں روپے کی پیشکش کی تھی۔اس طرح متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رکن قومی اسمبلی محفوظ یار خان کو بھی الیکشن کمیشن میں ازخود پیش ہوکر سندھ اسمبلی کے ارکان کے شواہد پیش کرنے چاہئیں‘ جنہوں نے سینیٹ کے انتخابات میں کھلم کھلا ہارس ٹریڈنگ کی اور ان کے سہولت کاروں کو بھی بے نقاب کرنا چاہیے جن کی وساطت سے کروڑوں روپے سینیٹ الیکشن میں بطور رشوت ادا کیے گئے۔ میڈیا ٹرائل کرنے اور سستی شہرت کے حصول کیلئے الزامات لگانے کے بجائے اس سنجیدہ معاملے پر آئینی ادارے میں پیش ہونا چاہیے۔
وطن عزیز میں شروع سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ایسے لوگ بھی سینیٹ کے ایوان تک پہنچ جاتے ہیں جو اس ضمن میں بھاری رقوم کی بولی لگا تے رہے ہیں اور اب اس کے ثبوت کی ویڈیو بھی سامنے آچکی ہے‘ یوں اس تاثر کو مزید تقویت ملتی ہے اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا ہے اور اہم وزرا کے ذریعے ہوا ہے جب حکومت اوپن بیلٹ تجویز کے حق میں کوشش کر رہی ہے۔ جہاں تک سینیٹ کی بات ہے تو یہ وفاقی علامت اور ملک کا سب سے اہم ادارہ ہے‘ لہٰذااس میں انتہائی سنجیدہ‘ بردبار اور مختلف امور پر مہارت رکھنے والے افراد کی موجودگی کا شفاف طریقے سے اہتمام کرنا سیاسی جماعتوں کا فریضہ ہے تاکہ پاکستان میں ایک حقیقی جمہوری اور پارلیمانی نظام قائم ہو سکے‘ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کی اوپن بیلٹ کی تجویز سے سینیٹ انتخابات پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جب قائدِ ایوان اور قائد اپوزیشن باہمی مشاورت سے آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کر کے اوپن بیلٹ کیلئے قانون سازی کریں گے تو سینیٹ انتخابات کے کئی مسائل حل ہو جائیں گے ۔ ہمارے بعض و زرا اور قانونی ماہرین بھارت کی راجیہ سبھا ( ایوان بالا) کے انتخاب کیلئے انتخابی اصلاحات کا حوالہ دیتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کیلئے یہ کہتے ہیں کہ بھارت نے ایوانِ بالا میں خفیہ رائے شماری کو 2010ء میں ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ اس کیلئے بھارت نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1951ء میں ترمیم کی تھی اور اس کے نتیجے میں اب بھارت میں ایوانِ بالا میں یہ طریقہ رائج ہے کہ ہر جماعت اپنا نمائندہ مقرر کرتی ہے جو ووٹ کی تصدیق کرتا ہے‘ دیگر ووٹ مسترد تصور کیا جاتا ہے‘ مگروزرااور حکومت کے قانونی اور آئینی ماہرین تصویر کا ایک ہی رخ پیش کر رہے ہیں ‘ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی آئین میں ایسی شکل موجود ہی نہیں جیسی پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 226 میں درج ہے کہ تمام انتخابات رازداری سے کروائے جائیں گے سوائے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے۔ بھارت کے آئین میں ایسی کوئی شق نہیں‘ تبھی ایوان بالا کے انتخابات کو اوپن کرنے کیلئے بھارتی عوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم کرائی گئی جبکہ پاکستان میں ایسی ترمیم کیلئے آئین میں ترمیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے ازالہ کیلئے بہتر صورت یہی ہے کہ یہ انتخابات براہ راست کروائے جائیں جیسا کہ امریکہ‘ کینیڈا ‘انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں براہ راست انتخابات کا طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔ تھائی لینڈ کے سینیٹ کے انتخابات کیلئے بھی 100 نشستیں تفویض کی گئی ہیں۔ 2006 ء میں تھائی لینڈ کے سینیٹ کے الیکشن کیلئے بطور مبصر مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا ۔میں نے سینیٹ کے الیکشن کیلئے مقرر کردہ پولنگ پریہ ابزرو کیا کہ رازداری کے طریقے میں نقائص ہیں اور ہم نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی کہ تھائی لینڈ کے الیکشن کمیشن نے رازداری کے اصولوں کو جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں اپنایا۔ ہماری رپورٹ کی روشنی میں سپریم کورٹ آف تھائی لینڈ نے الیکشن کالعدم قرار دے دیا ۔
اب جبکہ اپنے مخصوص دوستوں کو سینیٹ میں لانے کیلئے آئین کے آرٹیکل 226 کی نفی کرتے ہوئے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جا رہا ہے تو دیکھنا ہو گا کہ صرف سینیٹ نہیں بلکہ پورے انتخابی نظام کی اصلاح کس طرح کی جائے۔ 2014ء میں انتخابی اصلاحات کیلئے 26 رکنی انتخابی اصلاحات کمیٹی تشکیل دی گئی تھی‘مگر اس کمیٹی نے اپنے مفادات کو مدنظر رکھااور دور رس انتخابی اصلاحات کرنے میں عدم دلچسپی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی شفافیت کیلئے اختیارات سے محروم رکھا۔ اب ویڈیو میں جن حقائق کو سامنے لایا گیا‘ ان سے ہمارے انتخابی عمل کا تاریک منظر نمایاں ہوتا ہے؛ چنانچہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان کے سہولت کاروں کو بھی بے نقاب کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھجوایا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان اپریل2018ء سے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ان کو سینیٹ نشستوں کیلئے بھاری رقوم کی پیشکش ہوئی اور اب وزیراعظم سینیٹ انتخابات رازداری کے بغیر منعقد کرانے کے لیے کوشاں ہیں اور ان کا مؤقف زمینی حقائق کے مطابق ہے‘ لیکن صدارتی آرڈیننس کے ذریعے آئین کی اہم شقوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔دوسری جانب مئی ‘جون میں الیکشن کمیشن کے دوارکان کی نشستیں خالی ہو رہی ہیں اور ارکان کے تقرر کیلئے آئین کے آرٹیکل 213 کے تحت لیڈر آف دی ہاؤس یعنی وزیراعظم اور لیڈر آف دی اپوزیشن میاں شہباز شریف کی باہمی مشاورت لازمی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں