"KDC" (space) message & send to 7575

ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے حلف نامہ ضروری

حکومت مخالف تحریک کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور رفتہ رفتہ یہی چنگاریاں بڑے بڑے انگارے بن کر آگ کو تیز کر دینے کا سبب بن جایا کرتی ہیں۔ امکان یہ ہے کہ اس آگ کی تپش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سید یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہو جائیں گے کیونکہ وزیراعظم عمران خان کے بعض وزرا کی بدعنوانی ان کے خصوصی معاونین کا غیر سنجیدہ رویہ‘ ملک میں مہنگائی‘ بے روزگاری ‘ سیاسی انجینئر نگ اور کرپشن کی وجہ سے قومی اسمبلی کے ارکان کی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کو جنوبی پنجاب کے ارکانِ قومی اسمبلی کی حمایت ملنے کے بھی قوی امکانات ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف میں شامل ہونے والے آزاد امیدوار بھی اپنی راہ کا تعین کر رہے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی احتجاجی تحریک کو حکومت زمینی حقائق کے مطابق نہیں دیکھ رہی‘ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے عوام جلسوں میں جانے سے گریز کر رہے ہیں‘ ان کو اپوزیشن رہنماؤں کے خیالات بڑے چینلز سے سننے کو مل رہے ہیں‘ لہٰذا مجھے وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے انتخابی انجام کا منظر مارچ 1985ء میں خواجہ صفدر جہانگیر والا نظر آ رہا ہے جو جنرل ضیا الحق کی خصوصی حکمت عملی کے باوجود قومی اسمبلی کی سپیکر شپ سے سید فخر امام کے ہاتھوں محروم ہو گئے تھے۔
سید یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ الیکشن میں کامیابی یا شکست سیاسی اُفق پر دور رس نتائج کی حامل ہو گی۔ قومی اسمبلی میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا ہی سینیٹ کا رکن منتخب ہو گا۔ یہاں پر آئین کے آرٹیکل 59 (3) لاگو نہیں ہوتا اور نہ ہی ترجیح بنیادوں پر بیلٹ پر مارک لگانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ پہلی ترجیح سے ہی بیلٹ پیپر کی کاؤنٹنگ ہو جائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں حمایت کر کے وزیراعظم عمران خان کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔پنجاب کے ارکانِ قومی اسمبلی سپیکر اسد قیصر کی پالیسی سے ناخوش ہیں کیونکہ ڈھائی سال گزار کر بھی انہوں نے پنجاب کا رُخ نہیں کیا‘ ان کی ساری توجہ دیگرارکانِ اسمبلی کی طرف مرکوز رہی ہے ۔ میری اطلاع کے مطابق انہوں نے پنجاب کے ارکان قومی اسمبلی سے کبھی رابطہ نہیں رکھا اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کا تعلق صرف مخصوص صوبے سے ہے‘ان کے برعکس گوہر ایوب خان اور الٰہی بخش سومرو کا دائرہ کار پورے پاکستان تک پھیلا ہوا ہوتا تھا اور ان پر کسی مخصوص صوبے کی چھاپ نہیں تھی۔ موجودہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو 19 ارکان کی اکثریت حاصل ہے اور اپوزیشن کی بااثر شخصیات تحریک انصاف کے اُن ارکانِ قومی اسمبلی سے رابطہ کر رہی ہیں‘ جن کو ڈھائی برس نظر انداز کیا گیا ہے اور جو وزیر اعلیٰ پنجاب کے رحم و کرم پر ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی کارکردگی سے بھی تحریک انصاف کے بعض ارکانِ اسمبلی مطمئن نہیں ہیں۔ اسی پس منظر میں یوسف رضا گیلانی نے جہانگیر ترین سے قریبی تعلق اور جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان کی ناراضی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔حکمران جماعت کے ارکان ِقومی اسمبلی کا حفیظ شیخ سے تعلق نہیں رہا ‘پنجاب کے ارکان سے بھی ان کا دور دور کا تعلق نہیں اور ان کی معاشی پالیسی سے حکومتی ارکان کبھی بھی مطمئن نہیں رہے۔
اگر یوسف رضا گیلانی سینیٹ الیکشن میں ہار جاتے ہیں تو آصف علی زرداری کی حکمت عملی ناکام ہو جائے گی اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک دم توڑ جائے گی۔ ادھر یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) یوسف رضا گیلانی کے لیے انتخابی مہم چلانے سے گریز کر رہی ہے ۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی نگاہیں آئندہ قومی انتخابات پر لگی ہوئی ہیں اور مریم نواز پنجاب کارڈ کھیل رہی ہیں اور سپیکر قومی اسمبلی کی مخصوص پالیسی پنجاب کے ارکان کو باور کرا رہی ہیں ‘ اگر انہوں نے پنجاب کے ارکان قومی اسمبلی کی عصبیت کو جگا دیا تو اور ان کا پنجاب کارڈ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات سے عوام کا براہ راست کوئی تعلق نہیں‘ یہ اشرافیہ کے سیاسی مفادات کی جنگ ہے لیکن مبینہ طور پر آصف علی زرداری سے درجن بھر حکومتی ارکان ِقومی اسمبلی رابطے میں ہیں جن کا ٹیسٹ کیس سینیٹ کا الیکشن ہے۔ اگر یوسف رضا گیلانی یہ نشست حاصل کر لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وزیراعظم ایوان کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہو گئے ہیں اور ایسی صورت میں صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 191کے تحت ان سے دوبارہ عدم اعتماد کا وووٹ لینے کے بارے میں صدارتی فرمان جاری کر سکتے ہیں ‘اس لیے وزیراعظم سینیٹ الیکشن کو ایک چیلنج کے طور پر لے رہے ہیں اور براہ راست خود ناراض اور شکستہ دل ارکانِ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے تحفظات اور گلے شکوے دور کر رہے ہیں لیکن اب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے اپنے مفادات اور آئندہ کے انتخابات کے حوالے سے اپنے حلقے کے ووٹروں کو لے کر آگے چلنے کا عزم کر لیاہے۔
سینیٹ انتخابات میں بدعنوانی اور کرپٹ پریکٹسز کے ازالے اورالیکشن کو شفاف بنانے کے لیے سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر اور ارکانِ الیکشن کمیشن کی رائے معلوم کرنے کے لیے انہیں عدالت میں طلب کیا اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا اور ارکان الیکشن کمیشن نے صدارتی آرڈیننس کے برعکس آئین میں ترامیم کی طرف توجہ مبذول کرائی اور کہا کہ قابلِ شناخت بیلٹ پیپرز کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں جبکہ سینیٹ انتخابات میں کرپٹ پریکٹسز کی روک تھام کے لیے الیکشن ایکٹ2017ء کے ضابطہ اخلاق کی دفعات 167 اور 168کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی بنانی چاہیے اور سینیٹ کے امیدواروں سے حلف نامہ حاصل کیا جائے کہ انہوں نے کسی ووٹر‘ سیاسی جماعت‘ سربراہ اور دیگر ذرائع سے مالی فوائد حاصل نہیں کیے۔ حلف نامہ کو اوتھ کمشنر سے تصدیق کرانے کے بعد ہی اس امیدوار کی کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری کیا جائے اوراگر بعد ازا ںایسی وڈیو ظاہر ہو جاتی ہے تو پھر اس امیدوار کے خلاف غلط بیانی کرنے اور حلف نامہ سے انحراف کے جرم میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 67 اور 68 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے اس کو تاحیات نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن سینیٹ کے ضابطہ اخلاق میں حلف نامہ کے پروفارما کو سینیٹ الیکشن رولز میں تبدیلی کرنے کا مجاز ہے تاکہ سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ بند ہو جائے اور اس کے لیے تمام ضروری طریقے بروئے کار لائے جانے چاہئیں۔
سینیٹ کے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی کا آخری مرحلہ ختم ہو چکا ہے۔ اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہو گئی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے ایف بی آر‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف آئی اے کے ساتھ قومی احتساب بیورو سے بھی معاونت حاصل کی۔ اب 48 ارکان کی میعاد پوری ہونے سے خالی ہونے والی نشستوں کے لیے تمام مرحلے مکمل ہو چکے ہیں تاہم یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے کہ انتخابات خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے یا حکومت کی جانب سے تجویز کردہ اوپن بیلٹ کا طریقہ کار استعمال کیا جائے گا‘ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مؤقف ہے کہ اوپن بیلٹ کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں