"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن اورفرائض سے غفلت کے مرتکب افراد

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے این اے 75 سیالکوٹ‘ ڈسکہ کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے 18 مارچ کو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا اور اس حوالے سے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ انتخاب آزادانہ اور ایمانداری سے نہیں کرایا گیا‘ خوف و ہراس کے باعث ووٹر کو آزادی سے رائے دینے کا حق نہیں مل سکا۔ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ ایک طرح سے پنجاب حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ ہو سکتا ہے ڈسکہ میں بد عنوانی اور کرپٹ پریکٹس کا منصوبہ مقامی سطح پر بنایا گیا ہو لیکن اس معاملے سے اعلیٰ صوبائی حکام کی پراسرار لا تعلقی اس پورے ایشو کو معنی خیز بنا دیتی ہے۔
میری اطلاع کے مطابق رینجرز کی تعیناتی پر بھی بعض اعلیٰ حکام نے لیت و لعل کا مظاہرہ کیا تھا اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی مداخلت پر رینجرز کو الیکشن کے دفاتر اور ریٹرننگ آفیسرز کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت رینجرز کی طلبی کے لیے وفاقی سیکرٹری داخلہ کو بھی احکامات بھجوائے تھے۔ میری رائے یہ ہے کہ ان تمام افسران کی الیکشن کمیشن آف پاکستان خود انکوائری کرے اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 55‘ 172 اور 184 کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 260 کے مطابق سروس آف پاکستان کی تشریح پر بھی نگاہ رکھے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان انکوائری کمیٹی میں نادرا، ایف آئی اے، آئی ایس آئی، اور آئی بی کے نمائندگان کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 9 (1) کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت اختیارات چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں استعمال کیے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں اور قارئین کی رہنمائی کے لیے تاریخی حقائق بتاتا چلوں کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم پاکستان نے آرڈیننس کے ذریعے آرٹیکل 103 A.A شامل کیا تھا جس کے تحت الیکشن کمیشن کو انتخابات میں دھاندلی‘ بد عنوانی‘ خوف و ہراس پھیلانے اور الیکشن میں خون ریزی کے تدارک کے لیے کسی حلقے کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے وسیع اختیارات تفویض کئے گئے تھے۔ یہ کام انہوں نے اپریل 1977 میں کیا تھا‘ جس سے الیکشن کمیشن کو آزاد اور خود مختار بنانے میں خاصی مدد ملی تھی۔ اسی شق کو بعد ازاں الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 9 میں مدغم کر دیا گیا تھا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ الیکشن کمیشن نے ضمنی الیکشن کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بالکل ٹھیک اور آئین کے تحت حاصل اختیارات کے بالکل مطابق کیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ڈسکہ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 کے ضمنی الیکشن کو کالعدم قرار دینے اور پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ اگرچہ حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی نقصان ہے‘ لیکن یہ فیصلہ کئی حوالوں سے منفرد یا اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ نہیں ہے‘ ماضی میں ایسی کئی نظائر موجود ہیں۔ بہرحال یہ بات بالکل واضح اور طے ہے کہ اس حالیہ فیصلے سے شفاف الیکشن کی جانب قدم بڑھانے کی راہ ہموار ہو گی اور اس فیصلے کے مستقبل میں ہونے والے انتخابات پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ماضی میں بھی الیکشن کمیشن کے حکم پر دوبارہ الیکشن کرائے جا چکے ہیں‘ تاہم اس وقت الیکشن کمیشن نے اس طرح کھل کر بات نہیں کی تھی‘ پہلی دفعہ ایسے ریمارکس دیے گئے ہیں جن سے پوری صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 10 کے تحت الیکشن کمیشن کی حکم عدولی پر اب ان صوبائی اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے‘ جنہوں نے دانستہ یا نادانستہ الیکشن کے معاملات‘ دوسرے لفظوں میں اپنے فرائض سے صرفِ نظر کیا۔ الیکشن کمیشن نے دیگر کئی اہلکاروں کو معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تحت الیکشن کمشنر کو معزز ججوں کے برابر وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ پاکستان میں ماضی میں بھی انتخابات تنازعات کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات‘ جو 7 مارچ 1977 کو منعقد ہوئے تھے‘ میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مبینہ طور پر منظم دھاندلی کرائی تھی تاکہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے جا سکیں، لیکن یہ فیصلہ اور اس حوالے سے اقدامات انہیں بہت مہنگے پڑے تھے۔ اپوزیشن کی تحریک کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہو گئی اور ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ اس وقت بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مارچ 1977 کے ان انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سرکاری گزٹ نوٹی فکیشن سے حذف کر دیا تھا۔ اس کے بعد 1990 کے انتخابات میں فنانشل دھاندلی کی بازگشت سنائی دیتی رہی اور ایک اعلیٰ انٹیلی جنس ادارے کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل اسد درانی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں حلف نامہ بھی داخل کرایا کہ تب ملک کی قد آور شخصیات کو ان کے کہنے پر 35 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے تھے۔ جنرل (ر) حمید گل نے بھی اپنے حلف نامہ میں اس کا اقرار کیا تھا‘ مگر اس سارے معاملے کا کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا؛ تاہم 2013 کے انتخابات کے بعد اپوزیشن لیڈر عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگایا اور حکومت کے خلاف ایک زبردست تحریک چلائی۔ انہوں نے لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا اور اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا؛ تاہم 126 دن کے اس احتجاجی دھرنے سے بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا‘ بالآخر منظم دھاندلی کے ثبوت نہ ملنے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد الیکشن کے نتائج کو تسلیم کر لیا گیا اور تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی نے استعفے واپس لے کر مفاہمت کی راہ اختیار کر لی۔ پھر 2018 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کر دیا؛ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سال 2013 کی طرح انتخابی نتائج برقرار رکھے اور یوں اپوزیشن عمران خان صاحب کی طرز پر بھرپور طریقے سے احتجاجی تحریک نہ چلا سکی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے 2004 میں کراچی میں ایک ضمنی الیکشن کے دوران تشدد کے واقعات کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 103/AA کے تحت چار حلقوں میں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا تھا۔ اس طرح مارچ 2006 میں بھی ایک حلقے میں دوبارہ انتخاب کا حکم دیا گیا تھا اور وہاں دوبارہ پولنگ کرائی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حالیہ فیصلے کے بعد حکومت پنجاب کے ان اعلیٰ ترین افسران‘ جن کے نام اس قضیے میں فرائض مناسب طریقے سے ادا نہ کرنے کے ضمن میں سامنے آ رہے ہیں‘ کی ملازمت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 55‘ 172اور 184 اور اسی کے ساتھ دفعہ 5 کے تحت الیکشن کمیشن کو کسی بد انتظامی یا جانب داری دکھانے پر اعلیٰ ترین افسران کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مکمل اختیار ہے۔
یہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنے اختیارات کے بھرپور استعمال کا پہلا واقعہ ہے‘ جس سے الیکشن کمیشن میں مزید اعتماد پیدا ہو گا اور ملک انتخابی عمل میں شفافیت کی جانب گامزن ہو گا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو اختیارات استعمال کرنے سے متعلق ریمارکس نے بھی الیکشن کمیشن ارکان کو حوصلہ دیا‘ اور ممکن ہے آئندہ انتخابات کے لیے نگران سیٹ اپ قائم کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہی نگران سیٹ کی باگ ڈور تفویض کر دی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں