"KDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کابینہ کو منظم کریں!

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعظم نے الیکشن کمیشن پر جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کر کے تحریک انصاف کے بکنے والے 16 ارکان کو تحفظ دیا ۔ انہوں نے سوال کیا کہ1500بیلٹ پیپرز پر بارکوڈ لگانا کیا مسئلہ تھا؟الیکشن کمیشن نے اس بیان کے بعد وضاحتی بیان پر ہی اکتفا کیا حالانکہ وزیراعظم نے جس طرح الیکشن کمیشن کو چارج شیٹ کرتے ہوئے اسے ووٹوں کی خرید و فروخت کا ذمہ دار ٹھہرایا ‘الیکشن کمیشن اس پر آئین کے آرٹیکل 204 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 15 کے تحت نوٹس لے سکتا تھا جس کے مطابق الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 63 (1) جی کے تحت کارروائی کا مجاز ہے۔
وزیر اعظم نے حقائق کے برعکس قوم کو باور کرایا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات کیلئے خفیہ بیلٹ کی سفارش کر کے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ‘ مگر الیکشن کمیشن نے حکومت کو آگاہ کر دیا کہ کسی کی خوشنودی کیلئے ترمیم کر سکتے ہیں نہ آئین کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔بادی النظر میں الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کے الزامات مسترد کر دیے ہیں اور فی الحال زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے محاذ آرائی سے گریز کیا ہے ‘ تاہم وزرا نے الیکشن کمیشن کے وضاحتی بیان پر موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت کی الیکشن کمیشن پر تنقید توہین کے زمرے میں نہیں آتی۔
دراصل سینیٹ الیکشن میں سید یوسف رضا گیلانی کی غیر متوقع کامیابی نے ملکی سیاست میں بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ دیے ہیں‘اسی بنا پر وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کرنا پڑا‘ تاہم اسلام آباد کے اہم حلقوں میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ اپوزیشن عنقریب پنجاب کے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے والی ہے جو اس معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی فراست سے سینیٹ کے 11 ارکان بلامقابلہ کامیاب ہو گئے اور اس مفاہمت میں یہ بھی طے پایا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پاکستان مسلم لیگ (ق) غیر جانبدار رہے گی۔ اسی طرح کا ماڈل بعد ازاں بلوچستان میں بھی آزمایا جا سکتا ہے اور شنید یہ ہے کہ سب سے آخر میں صدر مملکت کے مواخذہ کی تحریک پیش ہو سکتی ہے۔ صدر مملکت کے خلاف مواخذہ کی تحریک خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے‘ لہٰذا اپوزیشن سید یوسف رضا گیلانی کے فارمولے کے تحت صدر مملکت کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کرنے پر سنجیدگی سے سوچ رہی ہے اور طاقتور ادارے اس متوقع صورتحال کو گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں وزیراعظم کو الیکشن کمیشن کو چارج شیٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ادھر گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی مقامی انتظامیہ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکم کے تحت معطل کر دیا گیا ہے جبکہ چیف سیکرٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کے خلاف باقاعدہ انکوائری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی زیرنگرانی شروع ہو چکی ہے اور انہوں نے الیکشن کمیشن کی طلبی کے دوران حقائق سے پردہ اٹھا دیا ہے جس پر حکومتی حلقوں میں اضطراب پایا جا رہا ہے ۔مذکورہ حلقہ کے ایک امیدوار نے عدالتِ عظمیٰ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہے جس کا حق اسے الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 9 (اے) نے فراہم کیا ہے‘ مگر الیکشن کمیشن اپنے دفاع میں اہم دستاویزات عدالتِ عظمیٰ میں پیش کرے گا جس سے حقائق سامنے آ جائیں گے ‘اس میں 20 پریذائیڈنگ افسران کی نقل و حرکت کے شواہد اور ریکارڈ بھی شامل ہے۔
اب چونکہ وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ اکثریت رائے سے حاصل کر لیا ہے تو اتفاقِ رائے کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے گرینڈ مذاکرات شروع کر دینے چاہئیں کیونکہ دونوں اطراف سے محاذ آرائی سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے ارکان قومی اسمبلی کو خط میں ان کے نااہل ہونے کے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63(1) کے تحت ایکشن لینے کی دھمکی بھی دی تھی‘ مگر یہ بات حقائق کے برعکس معلوم ہوتی ہے کیونکہ عائشہ گلالئی کا ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بدنیتی پر مبنی قرار دے کر خارج کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ عائشہ گلالئی نے اگست 2017ء میں شاہد خاقان عباسی کو اعتماد کا ووٹ دے کر پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی تھی‘ بعد ازاں عمران خان نے بطور چیئرمین تحریک انصاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر کر دی تھی جس پر اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اسے بدنیتی ہی قرار دیا تھا۔وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ احسن طریقے سے حاصل کر لیا ہے‘ لہٰذا انہیں اب اپنی کابینہ کے ان ارکان کوفارغ کرنا چاہیے جو ان کو دانستہ طور پر حالات سے بے خبر رکھے ہوئے ہیں اور ضروری ہے کہ وہ ان معاونین خصوصی کو بھی ہٹا دیں جو مخصوص انداز میں محاذ آرائی سے ملک کو ایمرجنسی پلس II کی طرف لے جا رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سینیٹ نشست پر سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کی درخواست الیکشن کمیشن میں دائر کر رکھی ہے۔ درخواست میں صوبائی وزیر سندھ ناصر شاہ کی آڈیو اور علی حیدر گیلانی کی وڈیو کا حوالہ دیا گیا ہے‘ مگرسید یوسف رضا گیلانی کے رزلٹ پر جو سوال اٹھائے جا رہے ہیں اس کا فیصلہ ٹربیونل نے کرنا ہے‘ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت سینیٹ الیکشن میں اعتراضات کے ازالہ کیلئے سینیٹ ٹربیونل کا قیام عمل میں آتا ہے یا نہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ متنازع درخواستوں کو ٹربیونل میں بھجوا دیں یا درخواست کنندگان کو ہدایت دی جائے کہ وہ متعلقہ ٹربیونل سے رجوع کریں۔ جہاں تک ڈسکہ کے الیکشن کا تعلق ہے تو اس حلقہ میں الیکشن کے بعد 20 سے زائد پریذائیڈنگ افسران کو اغوا کر کے مبینہ طور پر رزلٹ میں تبدیلی کی گئی تھی‘ جس کے تمام ثبوت الیکشن کمیشن نے حاصل کر لیے ہیں۔ ڈسکہ کے الیکشن سے سینیٹ کا موازنہ کرنا حقائق کے برعکس ہے۔
وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی کے فلور سے خطاب کے دوران الیکشن کمیشن پر ایک مرتبہ پھر تنقید کی جو آئین و قوانین کے خلاف تھی اور سننے میں آیا ہے کہ اس پرالیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 204 اور الیکشن ایکٹ2017ء کی دفعہ 15کے تحت کارروائی کیلئے غور کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز اور وزیر مملکت طلال چوہدری کو اسی قسم کے ریمارکس پر عدالت نے پانچ سال کیلئے نااہل قرار دیا تھا۔الیکشن کمیشن نے وفاقی وزراء کی وڈیوز پیمرا سے حاصل کر لی ہیں ‘ اس طرح چار مارچ کو وزیراعظم کے قوم سے خطاب اور چھ مارچ کو قومی اسمبلی سے خطاب کا آئین اور قوانین کے مطابق جائزہ لیا جا رہا ہے۔اب الیکشن کمیشن کی قیادت کی صوابدید ہے کہ وہ وزیراعظم اور ان کے بعض وزرا کے خلاف کس نوعیت کی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کو انٹیلی جنس ایجنسیوں سے بریفنگ لینے کا جو مشورہ دیا وہ بھی حقائق کے برعکس ہے۔ ملک کی انٹیلی ایجنسیاں وزیراعظم کو بریف کرتی رہتی ہیں اور اس کی روشنی میں وزیراعظم عملی اقدامات کرتے ہیں لیکن آئینی اداروں کے رولز آف بزنس میں انٹیلی ایجنسیوں سے بریفنگ لینا شامل نہیں ہے۔ اگر یہی روایت رہی تو کل کلاں کو وزیراعظم اعلیٰ عدلیہ کو بھی اس قسم کا مشورہ دے سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں