"KDC" (space) message & send to 7575

قومی حکومت کے کتنے امکانات ہیں؟

اپوزیشن اور حکومت کے مابین شدید محاذ آرائی اور اداروں پر وزیراعظم کے لفظی حملے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک کا سسٹم خطرے کی زد میں آچکا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم نے خاص حکمت عملی کے تحت الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کی مہم شروع کر رکھی ہے اورملک میں صدارتی نظامِ حکومت اور چین کی طرز پر سیاسی تبدیلی سے ملک میں ایسی فضا پیدا کرنے کی حکمت عملی پر کام ہو رہا ہے تا کہ سیاسی نظام کو لپیٹ دیا جائے۔ اسلام آباد میں اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اس حوالے سے اپریل‘ مئی کے مہینے اہمیت کے حامل ہیں۔
سینیٹ انتخاب سے پہلے اور بعد میں قوم سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نے برملا اپنی ہی جماعت کے 16 ارکانِ اسمبلی کو کرپٹ ترین قرار دیتے ہوئے ان کو غدار‘ بددیانت اور ضمیر فروش قرار دیا تھا۔ اس طرزِ عمل سے حکمران جماعت کے پارلیمانی گروپ اور اتحاد کے معیار اور اعتبار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ وزرا اور سرکاری ترجمانوں کو الفاظ کے چنائو پر قابو نہیں اور ان کے طرزِ عمل سے وزیر اعظم کی صحیح سوچ اور فکر عوام تک نہیں پہنچ رہی ‘ جس کے باعث عوام میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔
میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم اپنے 16 ارکان کے خلاف الیکشن کمیشن کو ریفرنس نہیں بھیجیں گے‘ جبکہ اس کے برعکس الیکشن کمیشن یوسف رضا گیلانی کے خلاف ریفرنس کا مقدمہ 22 مارچ سے سننے والا ہے اور بادی النظر میں الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 218 (3) اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 167‘ 168 اور 169 کے تحت وزیر اعظم کو نوٹس بھجوانے ہیں کہ وہ جن 16 افراد کو ضمیر فروش‘ جمہوریت دشمن اور بکائو مال سمجھ رہے ہیں ان کے ناموں کی فہرست الیکشن کمیشن کو سرکاری طور پر بھجوائیں۔ اسی طرح علی حیدر گیلانی سمیت چار ارکانِ قومی اسمبلی کے خلاف بھی انہی دفعات کے تحت کارروائی کا امکان ہے۔ سینیٹ کے حالیہ الیکشن نے پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ نواز اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی ہارس ٹریڈنگ کو زندہ کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آئندہ چند ہفتوں میں اہم فیصلہ کرنے والا ہے اور اس کا اصل امتحان اور آزمائش پارٹی فنڈنگ کیس ہے۔ اس کیس میں میرٹ پر فیصلہ آئے گا اور یوں تحریک انصاف بند گلی میں کھڑی ہو جائے گی اور اس کے ارب پتی سینیٹرز‘ جنہوں نے اپنے کاروباری مفاد کو مدِنظر رکھا ہے‘ کے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ ان سب پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے خلاف ریفرنس دائر کر کے تحریک انصاف نے از خود پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ تحریک انصاف کے 16 سے زائد بکائو افراد اور وڈیو میں نظر آنے والے چار ارکانِ اسمبلی کے خلاف جب نااہلی کا مقدمہ آگے بڑھے گا تو موجودہ حکومت 172 ارکان پورے نہ کر سکے گی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو معزز ارکان کی مدت ملازمت میں ابھی چند مہینے ہیں اور اسی عرصے میں آنے والے ممکنہ فیصلوں سے ملک کی تاریخ ہی تبدیل ہو سکتی ہے اور ہماری سول سوسائٹی‘ دانشور اور سیاسی رہنما جو بھارت کے الیکشن کمیشن کی بار بار مثالیں دیتے ہیں‘ ان کیسز کے فیصلے آنے سے بھارتی سیاستدان اور میڈیا پاکستان کے الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی مثالیں دیا کریں گے۔ ملک میں مہنگائی‘ بیروزگاری‘ امن و امان کی خراب صورتحال‘ وزرا میں کشمکش‘ کابینہ میں ہم آہنگی کا فقدان حکومت عملداری کیلئے خطرناک ہے۔ حکومت انتخابی اصلاحات پر آئے روز بیانات دے رہی ہے‘ مگر مفلوک الحال عوام کو انتخابی اصلاحات سے سروکار نہیں‘ موجودہ الیکشن قوانین پر اگر سنجیدگی سے عمل درآمد کرایا جائے تو انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انتخابی اصلاحات کے ذریعے کرپشن کے دروازے بند نہیں ہوں گے۔ کرپشن کے دروازے بندکرنے کے لیے قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے کو خود مختار بنانا ہو گا۔ میری رائے میں وزیر اعظم کو 6 مارچ کے روز اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت نہیں تھی‘ کیونکہ فوزیہ ارشد نے 174 ووٹ حاصل کر کے حکومت پر اعتماد خود بخود بحال کر دیا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 91 کی ذیلی سیکشن سات کے تحت صدر مملکت ہی از خود اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم صادر کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کی رائے پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا میری رائے میں غیر آئینی ہی تصور کیا جائے گا۔ جن آئینی ماہرین نے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے صدر مملکت کو سمری بھجوائی تھی‘ انہوں نے غلط روایت ڈال دی ہے۔ اب اگر اپوزیشن کے آئینی ماہرین سپریم کورٹ آف پاکستان میں صدارتی اعتماد کے ووٹ کی تحریک کو چلنے دیں تو ملک میں آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔
چیئرمین سینیٹ کی انتہائی اہم نشست کا انتخاب گزشتہ روز ہوا اور صادق سنجرانی ایک بار پھر چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے ہیں۔ اس انتخاب میں بھی دونوں اطراف سے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ دوسری جانب حفیظ شیخ موجودہ پوزیشن پر جون تک براجمان رہیں گے اور حکومت ان کو ہر صورت میں کسی نشست پر کامیاب کرانے کی کوشش کر رہی ہے؛ تاہم ان کے وزیر خزانہ رہنے سے آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر گہرا اثر پڑے گا۔ ملک میں انتخابات میں شفافیت لانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی افادیت کے حوالے سے وزیر اعظم متاثر نظر آ رہے ہیں تاکہ جعلی ووٹوں کا سلسلہ روکنا ممکن ہو جائے۔ دراصل وزیر اعظم کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی اندرونی پراسراریت سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ مئی 2010ء میں بھارتی الیکشن کمیشن نے مجھے بریفنگ کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی افادیت کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انڈین الیکشن کمیشن پاکستان کو الیکٹرانک مشین فراہم کرنے کو تیار ہے۔ جب میں نے عملی مظاہرہ کرانے کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے جو مشین دکھائی وہ ہمارے ہاں کی چوہے پکڑنے والے پنجروں سے مشابہ تھی۔ ناقص میٹریل اور ٹین کے ڈبوں سے بنائی گئی تھی‘ جبکہ پاکستان میں الیکٹرانک مشین پاکستان ٹیلی فون انڈسٹریز سے بنوانے کا سلسلہ میں نے اپنے دور میں 2008ء اور 2009ء میں شروع کرا دیا تھا۔ اب فواد چوہدری صاحب کی منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بین الاقوامی معیار کے مطابق ووٹنگ مشین تیار کرنے کے پروجیکٹ پر کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں یہ نظام متعارف کرانا چاہیے جبکہ اس کے نفاذ کے لیے آئین کے آرٹیکل 224 اور 218 میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی شق شامل کرنا ہو گی۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے 1984ء میں کیرالہ ریاست کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کیا تھا جسے سپریم کورٹ آف انڈیا نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ریاست کیرالہ کے انتخابات ہی کالعدم قرار دے دیے تھے‘ لہٰذا حکومت کو تمام پارلیمانی گروپس کی نمائندگی ان میں شامل حقیقی ماہرین سے کرانے کے لیے آئین میں ترمیم کر کے مثالی صورتحال پیدا کرنا ہو گی۔ جناب وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ہمارے انتخابات ایسے ہونے چاہئیں جیسے امریکہ میں ہوتے ہیں‘ حالانکہ وہ پاکستان کے زمینی حقائق کے برعکس نظام ہے۔ میں نے نومبر 2008ء میں امریکی انتخابی سسٹم کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہ سسٹم پاکستان میں قابلِ عمل نہیں اور ان کا فلسفہ پاکستان میں1966ء کے انتخابی نظام سے مشابہ ہے‘ جب صدر ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا سسٹم روشنا س کرایا تھا۔ اگر ملک میں نت نئے تجربات کے بجائے پارٹی کے اندرونی انتخابات بھارتی طرز پر کروا دیے جائیں تو ملک میں شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ویسے بھی اپریل میں صورتحال سامنے آ جائے گی‘ اگر نظام کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے تو پھر ہر دس سال کے لیے قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں