"KDC" (space) message & send to 7575

اداروں کے خلاف بیانیے کا نوٹس لیا جائے!

وفاقی حکومت نے چیف الیکشن کمشنر اور ارکانِ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عدم اعتماد کرتے ہوئے فوری استعفا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ چند روز پہلے پریس کانفرنس میں اہم وفاقی وزرا نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ میری رائے میں وفاقی وزرا کی پریس کانفرنس غیر منطقی اور غیر آئینی تھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نہ صرف ریاست کا ایک بہت اہم آئینی ادارہ ہے بلکہ اس کے پاس بہت سے آئینی اور قانونی اختیارات بھی ہیں۔ وفاقی حکومت کا الیکشن کمیشن کے ارکان بشمول چیف الیکشن کمشنر کو گھر بھیجنے کا مطالبہ کرنا اس لیے بھی غیر مناسب ہے کہ اگر آج ایک آئینی ادارے کے سربراہ اور ارکان سے مستعفی ہونے کا یوں مطالبہ کیا جا رہا ہے تو کل کلاں کسی دوسرے آئینی ادارے کے فیصلوں پر بھی اسی قسم کے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس کے معزز ارکان سے عہدے چھوڑنے کا مطالبہ ہو سکتا ہے۔ معاملے کی نزاکت کے ان پہلوؤں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ وفاقی وزرا کو ادراک ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس اسی طرح اختیارات ہیں جس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس آئینی اختیارات ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے یا مس کنڈکٹ کے زمرے میں آنے والی جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے تو اس حوالے سے عوامی سطح پر شواہد اور ثبوت فراہم کیے جائیں اور الیکشن کمیشن کے خلاف وہی راستہ اپنایا جائے جو آئین میں بتایا گیا ہے۔ دراصل یہ سارا مسئلہ ڈسکہ کے حلقہ 75 کے الیکشن سے پیدا ہوا ہے۔
حکومت الیکشن کمیشن پر انوکھے انداز میں دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے‘ جبکہ الیکشن کمیشن میں تقریباً سات سال سے زیر التوا فارن فنڈنگ کا کیس اب آخری مراحل سے گزر رہا ہے جبکہ تحریک کے ایک نو منتخب سینیٹر کی اہلیت کے بارے میں اہم کیس بھی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔ الیکشن کمیشن نے درخواست گزاروں سے تحریری جواب مانگ لیا اور اس اہم کیس کی مزید سماعت 6 اپریل تک ملتوی کی گئی ہے۔ بادی النظر میں تحریک انصاف کے مذکورہ رہنما نے کاغذاتِ نامزدگی میں جو حقائق پوشیدہ رکھے انہی کی بنا پر نواز شریف اور جہانگیر ترین کو تاحیات نااہلی کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ ان معاملات میں وزیراعظم کے آئینی‘ قانونی مشیر اور ماہرین ان کو مناسب بریفنگ نہیں دے رہے۔ انہیں یہ ایک راستہ دکھایا ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن پر سخت دباؤ ڈالے تو حکومت کی رٹ مضبوط ہوگی‘ دراصل ایسا نہیں ہو گا اور اگر الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کا استعمال کیا تو ایک آئینی اور سیاسی بحران کھڑا ہو سکتا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے پریس کانفرنس پر وفاقی وزرا کو آئین کے آرٹیکل 204 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10 کے تحت نوٹسز جاری کر دیے اور وہ پیش نہ ہوئے تو الیکشن کمیشن کے پاس چونکہ توہین عدالت کی طرح کے اختیارات ہیں؛ چنانچہ وہ انہیں آئین کے آرٹیکل 63 (ون جی) کے تحت انہیں نااہل بھی قرار دے سکتا ہے۔ اس سے حکومت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا اور ان کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔
حکومت الیکشن کمیشن پر مسلسل الزامات لگا رہی ہے کہ اس نے عدالت کی ہدایات پر عمل نہ کرتے ہوئے اوپن بیلٹ کے لیے کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا‘ جبکہ زمینی اور قانونی حقائق کے مطابق عدالت نے نہایت عمدہ رائے دی جس میں قانونی سازی کے ساتھ ساتھ کسی ایسی ٹیکنالوجی کو اپنانے کی رائے شامل تھی جس سے ہارس ٹریڈنگ کا سدباب کیا جا سکے۔ اس پر الیکشن کمیشن کوآئین کے آرٹیکل 204 کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے اور وہ ایک دن کے محدود وقت میں بیلٹ پیپر میں ایسی کسی بھی ترمیم کے آئینی و قانونی اختیارات نہیں رکھتا۔ الیکشن کمیشن بغیر اختیارات اور قانون سازی کے محدود وقت میں کسی ایک فریق کی خواہش کے مطابق کیسے کام کر سکتا تھا؟ لہٰذا انہوں نے عدالت کی رائے پر مستقبل میں اپنی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کے بارے میں ماہرین کی ایک کمیٹی مقرر کر دی ہے۔ اگرالیکشن کمیشن نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہوتی‘ جیسا کہ حکومت کا موقف ہے‘ تو سپریم کورٹ خود ہی اس پر ایکشن لے لیتی۔ الیکشن کمیشن نے بارہا قانون سازی کرنے کا مشورہ دیا مگر حکومت نے اس سے بھی چشم پوشی کی؛ چنانچہ اب الزام الیکشن کمیشن پر عائد کرنا حقائق کے برعکس ہے۔ جہاں تک حکومت کی جانب سے فیصلے کی تشریح کی بات ہے تو میرے خیال میں ایسی کوئی ہدایت یا رائے نہیں دی۔ آئین میں ووٹ کی رازداری بہت واضح طور پر بیان کی گئی ہے جبکہ حکومت شو آف ہینڈز چاہتی تھی اور رولنگ کی تشریح ایسے کر رہی تھی جیسے اس میں شو آف ہینڈز کا کہا گیا ہے۔ میرے خیال میں رولنگ کی یہ تشریح درست نہیں۔ ایسی کوئی رائے نہیں دی گئی اور الیکشن کمیشن آئین کے تحت کام کرنے کا پابند ہے۔
ملک میں افراتفری‘ انتشار اور اداروں کی رٹ کو کمزور کرنے کے لیے اداروں کی کارکردگی پر جو تنقید کی جا رہی ہے‘ اس میں اپوزیشن کی اہم شخصیات بھی پیش پیش ہیں‘ مثال کے طور نواز شریف‘ جو پی ڈی ایم کے جلسوں میں اداروں پر لفظی حملے کر چکے ہیں‘ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان پر اسی قسم کی تنقید کرکے وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان نے ظاہر کر دیا ہے کہ ان کے دلوں میں اداروں کے لیے کتنی ''عزت‘‘ ہے اور وہ اداروں کو کس طرح ''مضبوط‘‘ بنانا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی رفقا کی جانب سے الیکشن کمیشن کے حوالے سے جو تاثرات سامنے آئے ہیں اس سے بعید از قیاس نہیں کہ مرضی کا فیصلہ نہ آنے کی صورت میں حکومت الیکشن کمیشن کے خلاف وہی طرز عمل اختیار کر لے جو ماضی میں حکومت کے خلاف اختیار کر چکی ہے۔ ان حالات میں اعلیٰ عدلیہ کو اداروں کے حوالے سے جاری الزام تراشی پرآئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت ازخود نوٹس لے کر مملکت پاکستان کے آئینی اداروں کا تحفظ کرنا چاہیے کیونکہ باہر بیٹھی ہوئی سیاسی شخصیات اور برسر اقتدار جماعت قومی اداروں کے حوالے سے جس انداز سے تضحیک آمیز بیانیہ جاری کر رہی ہیں اس سے اداروں کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے۔
ماضی کا ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ 1990ء میں اُس وقت کے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور نے اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس نعیم الدین کے خلاف اسی انداز میں پریس کانفرنس کی تھی جیسے چند روز پیشتر وفاقی وزرا نے الیکشن کمیشن کو مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے‘ چیف الیکشن کمشنر جسٹس نعیم الدین نے ڈاکٹر شیر افگن نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس آئین کے آرٹیکل 204 اور عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت جاری کرتے ہوئے ان کو فوری طور پر طلب کرنے کا حکم دیا تھا۔ ڈاکٹر شیر افگن نیازی‘ سید اقبال حیدر‘ سردار فاروق لغاری آئے اور معافی نامہ داخل کرا کے رحم کی اپیل کی تھی۔ میری موجودگی میں ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے چیف الیکشن کمشنر سے معافی مانگی۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں چیف الیکشن کمشنر کو ان کی معافی قبول کرنا پڑی۔ اسی طرح 10دسمبر 1996ء کو چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار فخر عالم کے بارے میں لیڈر آف دی اپوزیشن نواز شریف نے گستاخانہ ریمارکس دیے تو چیف الیکشن کمشنر نے توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کر دیا تھا۔ میں نے ہی وہ نوٹس سید مشاہد حسین کے ذریعے تعمیل کرایا تھا۔ اس پر نواز شریف نے فوری طور پر سرتاج عزیز‘ گوہر ایوب خان اور سید مشاہد حسین کے ذریعے معافی نامہ داخل کرا کے معافی مانگی تھی۔ یہ تمام دستاویزات الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں