"KDC" (space) message & send to 7575

الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور مضمرات

آئندہ انتخابات میں رائے دہندگان کے لیے بیلٹ پیپر کے بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور دیگر ٹیکنالوجی کے استعمال کی حکومت کی تجویز پر الیکشن کمیشن نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خصوصی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بغیر شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے جبکہ اپوزیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی تجویز پر تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ ہمارے ملک میں ناخواندگی کی شرح 40فیصد سے زیادہ ہے اور ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں بجلی کی سپلائی اکثر و بیشتر معطل رہتی ہے؛ چنانچہ حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تجویز ناقابلِ عمل ہے۔ اپوزیشن کے تحفظات میں وزن نہیں ہے‘ ملک کی ناخواندگی کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور نہ ہی بجلی کے ساتھ اس کا کوئی خاص تعلق بنتا ہے کیونکہ یہ بیٹری کے ساتھ بھی چلائی جا سکتی ہے۔ ووٹ کاسٹ کرنے کا یہ آسان ترین طریقہ کار ہے جس میں ووٹر نے مطلوبہ انتخابی نشان پر بٹن ہی دبانا ہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن حکومت کی معاونت سے آگاہی مہم شروع کر سکتا ہے‘ لیکن میں انتخابی اصلاحات کمیٹی کے سربراہ اور ارکانِ کمیٹی اور حکومت کے ماہرین کی رہنمائی کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں خدشات کا اظہار کر رہا ہوں۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال میں بیلٹ پیپرز کا تصور نہیں ہے اور ووٹر نے جس پارٹی کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا ہو‘ اس کا ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں اپوزیشن پارٹیوں نے الزامات لگائے تھے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ایک ایسی چپ خفیہ طور پر لگا دی جاتی ہے جو بٹن دبانے پر اُس پارٹی کے حق میں ‘جس نے ماہرانہ طریقے سے چپ لگائی ہوتی ہے ووٹ منتقل کرتی جاتی ہے۔ اسی طرح کے الزامات امریکی صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے الیکشن میں 2016ء میں لگائے گئے تھے اور روسی حکومت پر تنقید کی گئی تھی اور حالیہ امریکی الیکشن میں بھی صدر بائیڈن نے روس کی قیادت پر الزامات عائد کئے‘ لہٰذا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے رزلٹ کی تبدیلی کے بارے میں تحفظات مغربی جمہوری ممالک میں ظاہر کئے جا رہے ہیں تو پاکستان میں بھی اس قسم کے اعتراضات ضرور سامنے آئیں گے۔ پاکستان میں تو1951ء سے کوئی الیکشن ایسا نہیں گیا جو اعتراضات سے پاک ہو اور سب پارٹیوں کی نظر میں الیکشن شفاف اور صاف طریقے سے انجام پایا ہو۔ بھارت میں بھی سیاسی جماعتوں کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتماد نہیں رہا ۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے رزلٹ کی تبدیلی کے بارے میں وہاں بھی شکایات منظرِعام پر آ چکی ہیں ؛چنانچہ یکم فروری 2019 ء کو کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے صحیح ہونے کے بارے میں شکوک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشین کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کا ایک متبادل نظام بھی چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کا انتخابی نظام پر اعتبار برقرار رہے۔یاد رہے کہ جنوری 2019ء میں امریکہ میں مقیم ایک ٹیکنالوجسٹ سید شجاع نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھاکہ انڈیا کی ووٹنگ مشینوں کو ہیک کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ 2014ء کے انتخابات میں ان مشینوں کے ذریعے دھاندلی کی گئی تھی۔
ہمارے الیکشن کمیشن نے اپریل 2008ء میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے حوالے سے اقوامِ متحدہ‘ یورپی ممالک اور امریکہ کے ماہرین سے رپورٹیں منگوائی تھیں ‘ ان ماہرین کی رپورٹیں الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں یقینا موجود ہوں گی۔ میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن‘ چیف الیکشن کمشنر قاضی محمد فاروق کی ایما پر ان ممالک سے ماہرانہ رائے حاصل کرنے کیلئے یو ایس ایڈ کی ذیلی تنظیم انٹرنیشنل الیکٹورل سسٹم سے بھی استفادہ کیا تھا‘ ان کی رپورٹ کے مطابق اس وقت بیس ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال ہوتی ہیں جن ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ بھارت میں 2004ء سے تمام پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں یہ مشینیں استعمال ہو رہی ہیں۔ الیکشن میں دس لاکھ سے زیادہ مشینیں استعمال کی گئیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین بھارت کے علاوہ آسٹریلیا‘ برطانیہ‘ بلجیم‘ برازیل‘ اسٹونیا‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ ناروے‘ ہالینڈ‘ سوئٹزر لینڈ اور فلپائن میں استعمال ہو رہی ہیں۔ وینزویلا کے الیکشن میں وہاں کے ووٹرز نے دھاندلی کے الزامات لگائے تھے اور انتخابی فسادات بھی دیکھنے میں آئے تھے۔ بھارت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی خریداری کیلئے کامیاب مارکیٹنگ کی ہے۔ اوائل 2007ء اور 2008ء میں اسلام آباد میں مقیم بھارتی ہائی کمشنر نے الیکشن کمیشن کے دورے کیے تھے اور بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لیے تجربات پر مبنی کئی مظاہرے بھی کروائے تھے ۔اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کا یہی موقف تھا کہ جب تک آئین میں قانون سازی نہیں ہو جاتی اس پراجیکٹ پر کام کرنا بے سود ہے۔
پاکستان میں ساڑھے تین لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنے پر تقریباً 50ارب روپے کے اخراجات آنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘ جبکہ ووٹرز کی آگاہی اور عملے کی تربیت کیلئے جو اخراجات آنے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں۔ الیکشن 2023ء کیلئے ایک لاکھ سے زائد پولنگ سٹیشنوں کا قیام عمل میں آنا ہوگا اور عملے کی تعداد بھی 15لاکھ سے زائد ہو گی۔ یاد رہے پاکستان میں 2023ء کے انتخابات کے موقع پر ووٹرز کی تعداد 15 کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ان بھاری اخراجات کے باوجود اگر الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم آر ٹی ایس کی طرح فلاپ ہو گیا تو پھر الیکشن کمیشن کے پاس متبادل انتظامات بھی نہیں ہوں گے۔ پولنگ سٹیشنوں پر ہنگامہ آرائی اور امن و امان کی صورت حال پر کنٹرول کرنے کے بارے میں بھی جائزہ لینا ہوگا۔ علاوہ ازیں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے بھی قانون میں ترمیم کرنا پڑے گی کیونکہ ایک دن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد ناممکن ہوگا۔ جعلی ووٹنگ کی روک تھام کیلئے بائیو میٹرک سسٹم بھی لازمی ہونا چاہیے تاکہ ووٹر کی شناخت ہو سکے۔ انڈیا میں الیکشن کا عمل ایک ماہ پر محیط ہوتا ہے اور اپریل مئی 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات میں 91کروڑ سے زائد ووٹرز میں سے 67فیصد نے 542حلقوں میں ان مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالے۔ پاکستان میں اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کیلئے اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو الیکشن شیڈول میں تبدیلی کرتے ہوئے انتخابات ایک ہفتہ تک بڑھانے ہوں گے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مناسب وقفہ دینا ہو گا جس طرح فروری 1997ء کے انتخابات سے پیشتر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تین روز کا وقفہ ہوتا تھا‘لیکن صدر فاروق لغاری نے ایک ہی دن میں الیکشن کرانے کیلئے آرڈیننس جاری کیا تھا جس کی اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار فخرعالم نے مخالفت کی تھی۔یہ آرڈ یننس اس لئے جاری کیا تھا کیونکہ ان کو خدشات تھے کہ اگر پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں ان کی خواہش کے مطابق نشستیں حاصل نہ ہو سکیں تو قوی امکان ہے کہ بے نظیر بھٹو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے آئینی بحران پیدا کر یں‘ جس طرح پاکستان قومی اتحاد نے 7 مارچ 1977ء کے قومی اسمبلی کے نتائج دیکھ کر صوبائی اسمبلیوں کا بائیکاٹ کر دیا تھا‘ جن کے انتخابات دس مارچ 1977ء کو ہوئے تھے اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے موقع پر پولنگ سٹیشنوں میں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیلئے انتخابی شیڈول پر نظرثانی کرناہوگی۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ پاکستان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین تیارکرلی ہے۔اس حوالے سے ابھی کام چل رہا ہے تاہم بہتر ہو گا کہ ملک میں تیار کردہ ان مشینوں کو ضمنی انتخابات میں آزما لیا جائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں