"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی اداروں کی بحالی اور سینیٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا حکم دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے تحت قانون بنا سکتے ہیں ادارہ ختم نہیں کر سکتے ‘جنہوں نے غلط مشورہ دیا انہوں نے آئین کے آرٹیکل 140(A) کی خلاف ورزی کی ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے مئی 2019ء میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کی دفعہ 3کے تحت بلدیاتی ادارے کالعدم قرار دے کر پنجاب میں عوام کے جمہوری حقوق کو پامال کیا جو آئین کے آرٹیکل 140(A) سے انحراف تھا۔ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا تھا لیکن وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھانے سے پیشتر ہی اپنے خطاب میں پنجاب کے لوکل گورنمنٹ کے ادارے ختم کرنے کی نوید سنادی تھی اور اقتدار میں آتے ہی انہوں نے پہلے سو دن کا جو پروگرام قوم کے سامنے پیش کیا تھا اس میں بھی پنجاب کے لوکل گورنمنٹ پر عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دے کر ایک ماہ میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن میں نے اُسی وقت باور کر لیا تھا کہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات ایک ماہ میں کسی طور نہیں ہو سکتے کیونکہ ازسرِنو حلقہ بندیاں کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو تقریباً تین ماہ کا عرصہ درکار تھا اور نئے الیکشن قوانین بنانے کے لیے پنجاب حکومت کے پاس اکثریت بھی نہیں تھی۔
بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے کورونا وائرس میں عوام کی آگاہی مہم ناکام ہو گئی اور ایسے بے شمار مسائل نے جنم لیا جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی حکومتوں کی میعاد 31دسمبر 2021ء تک تھی لیکن 2018ء کے عام انتخابات کے بعد نومنتخب صوبائی حکومت کے سربراہ نے اپنے مشیران اور وفاقی حکومت کی ایما پر بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے بلدیاتی نظام میں نئی اصلاحات لا کر ایک سال میں الیکشن کرانے کا دعویٰ کیا‘ لیکن 2019ء میں جو پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا گیا وہ وفاقی الیکشن ایکٹ 2017ء سے متصادم تھا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اُس وقت کے چیف نے اس کو مسترد کر دیا تھا۔ میں نے گورنر پنجاب کی وساطت سے حکومت کو سفارشات بھجوائی تھیں کہ صوبائی حکومت نے بلدیاتی ایکٹ منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نظرانداز کرکے اس میں ایسی قانونی شق شامل کرا دی ہے جو الیکشن ایکٹ 2017ء سے متصادم ہے۔ بہرحال اس وقت حکومت کے اردگرد ایسے مصاحب اکٹھے ہو چکے تھے جن کی نظریں اپنے مفادات پر مبنی قانون سازی پر تھیں اور جو وفاقی ڈھانچے کی گہرائی سے نابلد تھے۔ اسی لیے 22 ماہ کا عرصہ گزر گیا اور بلدیاتی انتخابات نہ کرائے جا سکے اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ ہفتہ بلدیاتی اداروں کی بحالی کا حکم دے دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ شہری بلدیاتی یا مقامی حکومتیں عوامی ترقی اور خوشحالی کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایشیا میں انڈونیشیا‘ تھائی لینڈ‘ سنگاپور ‘ ملائیشیا‘ بھارت ‘ نیپال‘ بنگلہ دیش ‘ ترکی اس طرح مغربی ممالک میں امریکہ‘ برطانیہ‘ سویڈن‘ ناروے‘سوشلسٹ ممالک سمیت دنیا بھر میں متعدد ممالک میں مضبوط مقامی حکومتیں عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ میں نے ناروے‘ انڈونیشیا‘ اور تھائی لینڈ کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کا مشاہدہ کیا ہے اوران کے انتظامات کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے‘میرا یقین ہے کہ اگر پاکستان میں ناروے کا لوکل گورنمنٹ سسٹم جاری کر دیا جائے تو پارلیمنٹ کے ارکان قانون سازی تک محدود ہو جائیں گے‘ جیسا کہ صدر پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی سسٹم فعال اور مضبوط ہونے کی وجہ سے سیاسی رہنما ناظم کی فوقیت کو دیکھتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کے بجائے ناظم بننے کو فوقیت دیتے تھے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار تحصیل تونسہ کے ناظم تھے‘ اس طرح کئی دیگر رہنماؤں کے نام بھی پیش کئے جا سکتے ہیں۔
مقامی حکومتوں کا بنیادی مقصد تعلیم‘ صحت کے معاملات کا خیال رکھنا‘ سڑکیں بنانا‘ پانی کی فراہمی اور صفائی کے انتظامات کرنا ہوتا ہے۔ لوکل گورنمنٹ کی کامیابی کے سبب ہی آج بنگلہ دیش ہوم انڈسٹری کی وجہ سے ایشیا میں سب سے آگے نکل چکا ہے۔ پاکستان میں اگر جمہوریت مضبوط نہیں تو اس کی بنیادی وجہ قومی اور صوبائی حکومتوں کی مداخلت کے باعث مقامی حکومتوں کا عدم تسلسل ہے‘ لہٰذا اب عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کے مطابق بلدیاتی نظام حکومت کو فوری بحال کر کے 31دسمبر 2021ء تک ان اداروں کو بغیر وفاقی اور صوبائی مداخلت کے کام کرنے کی اجازت دینی چاہیے اور ان کی مدتِ میعاد میں دو سال کا اضافہ بھی کر دینا چاہیے کیونکہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے تقریباً اتنا ہی عرصہ یہ ادارے عدم تعاون کا شکار اور بلاوجہ مفلوج رہے۔ اب چونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب لوکل باڈیز ایکٹ 2019ء کے سیکشن 3 کو آئین سے متصادم قرار دیا ہے اور تحلیل کیے گئے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا ہے لہٰذا حکومت کو غلط مشورے دینے والے بابوز اور لوکل گرنمنٹ کے نظام میں رکاوٹ بننے والے سیاستدانوں کو اپنے ہتھکنڈوں سے اجتناب کرنا چاہئے ۔
دوسری جانب سینیٹ کا معاملہ زیر بحث ہے جہاں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپوزیشن لیڈر بن چکے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم میں ہلچل کا سماں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کو 31اور مسلم لیگ (ن) کے اعظم نذیر تارڑ کو 21 سینیٹرز کی حمایت حاصل رہی۔ حیران کن طور پر جمعیت علمائے اسلام کے پانچ ارکان لاتعلق رہے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور سابق فاٹا کے چار‘ دلدار گروپ جو پاکستان مسلم لیگ (ن) سے انحراف کر چکے ہیں کے پانچ اور خلافِ توقع جماعت اسلامی کے ایک سینیٹر نے یوسف رضا گیلانی کا ساتھ دیا اور اسی طرح 31ارکان کی حمایت حاصل کرنے پرچیئرمین سینیٹ نے سینیٹ ایکٹ کے تحت یوسف رضا گیلانی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ سیاست کے وسیع تناظر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی کے طرزِ عمل پر جارحانہ ردعمل اختیار ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس طرح نہ صرف حکومت کو فائدہ پہنچ رہا ہے بلکہ ڈیمو کریٹک موومنٹ کے کمزور ہونے کے تاثر کو بھی تقویت ملی ہے‘ بلکہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی علیحدگی اختیار کرنے کا جواز مل جائے گا۔شواہد مل رہے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کے لیڈر اپوزیشن مقرر ہونے کے بارے میں مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کو پہلے سے ہی ادراک تھا اسی لیے انہوں نے معنی خیز خاموشی اختیار کئے رکھی۔ سید یوسف رضا گیلانی کے بارے میں سرکاری اپوزیشن قرار دینا انتہائی نامناسب ہے‘ ماضی میں راجہ ظفر الحق‘ شیری رحمن اور کسی وقت شبلی فراز بھی لیڈر آف دی اپوزیشن رہے ہیں۔ انہوں نے قانون سازی میں ہمیشہ رواداری‘ تحمل اور خاموش حکمت عملی کا ہی مظاہرہ کیا اور کبھی بھی جارحانہ طریقے نہیں اپنائے۔ ویسے بھی سینیٹ کا بہت ہی محدود دائرہ کار ہے اور اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) ان کے بجائے سید مشاہد حسین کو لیڈر آف اپوزیشن کے لیے آگے لاتی تو پانسہ پلٹ سکتا تھا۔ اعظم نذیر تارڑ کو لیڈر آف اپوزیشن کے طور پر نامزد کرنے کا سینئر سینیٹرز نے برا منایا ہو گا۔ اس سے قبل ان کا کوئی پارلیمانی تجربہ بھی نہیں،شریف فیملی کے لیے بطور وکیل ان کی خدمات اہم ہو سکتی ہیں مگر یہ پارلیمان کے ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف مقرر کرنے کا معاملہ تھا‘ لہٰذا اس میں کچھ سنجیدگی تو بہرحال پائی جانی چاہیے ‘ لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ سینیٹ کے آزاد ارکان اور بلوچستان کے سینیٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی صحیح استعمال کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں