"KDC" (space) message & send to 7575

سٹیٹ بینک‘ وزیر خزانہ اور قومی معیشت

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے بارے میں جو آرڈی ننس سامنے لایا گیا ہے وہ ایک قابلِ غور معاملہ ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے کہا یہ جا رہا ہے کہ اس آرڈی ننس کے بعد پارلیمنٹ، وزیر خزانہ کا مرکزی بینک پر سے کنٹرول ختم ہو جائے گا اور گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان تحقیقاتی اداروں کو جواب دہ نہیں رہیں گے۔ شنید ہے کہ اس آرڈی ننس کا متن ایک سابق وزیر خزانہ نے ایک عالمی اقتصادی ادارے کے ایما پر اور مشاورت سے تیار کیا تھا‘ اور اس کا مبینہ مقصد یہ ہے کہ چیک اینڈ بیلنس لاگو نہ رہے‘ یوں تمام ملکی مالی ادارے عالمی اقتصادی اداروں کے کنٹرول میں ہوں گے کیونکہ 2018ء کے الیکشن سے اب تک ملک کی معاشی صورت حال روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس مجوزہ آرڈی ننس اور بعد ازاں قانونی صورت میں بل کی منظوری کے بعد خود مختاری حاصل کرنے کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسی کئی اداروں پر اثرات مرتب کر سکتی ہے اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کا جو وژن وزیر اعظم عمران خان کی پلاننگ کا حصہ ہے وہ شاید ختم ہو جائے گا۔ اب ان خبروں اور اطلاعات میں کتنی حقیقت ہے اس کی وضاحت تو حکومت ہی کر سکتی ہے جبکہ اس کی جانب سے اس بارے میں کچھ واضح نہیں کیا جا رہا ہے یا پھر اقتصادی و معاشی معاملات کے ماہرین ہی اس معاملے پر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ اس آرڈی ننس کے ہمارے ملک‘ اس کی معیشت اور اس کے اداروں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
بعض معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک آرڈی ننس کے اجرا کے بعد ملک کے تمام وسائل سٹیٹ بینک کے کنٹرول میں آ جائیں گے‘ اور مملکت مالیاتی بحران کا شکار ہو جائے گی۔ اس حوالے سے موجودہ گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی مصر میں تعیناتی کے دوران کی مثال دی جاتی ہے جن وہاں کئی رفاہی اداروں کو بند کر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں غربت کی لکیر انتہائی پستی کی طرف آ گئی تھی۔ ایک جائزے کے مطابق تب مصر میں دو تہائی کے قریب رفاہی ادارے بند کر دیئے گئے تھے۔ بہرحال حکومت اس معاملے میں جتنی جلدی وضاحت کرے گی اتنا ہی بہتر ہو گا اور اگر اس آرڈی ننس کے نفاذ سے وہی نتائج برآمد ہوں گے‘ جن کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے تو میرے خیال میں ایسے اقدام سے پہلوتہی اختیار کرنا ہی بہتر ہو گا۔
اب آتے ہیں دوسرے معاملے کی جانب‘ یعنی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے حفیظ شیخ کو وزارتِ خزانہ کے منصب سے سبک دوش کرنے پر بات کرتے ہیں۔ شنید ہے کہ انہیں مہنگائی پر قابو پانے کے لئے مناسب اقدامات نہ کر سکنے کی بنا پر اس عہدے سے فارغ کیا گیا ہے‘ حالانکہ اس سے چند روز پہلے جب حفیظ شیخ سینیٹ کے امیدوار کے طور پر کامیاب ہونے میں ناکام رہے اور وزیر اعظم نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا تو حفیظ شیخ سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں۔ لوگ حیران ہیں کہ پھر نہ جانے کیا ہو گیا کہ انہیں اچانک عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔ ان کی جگہ وفاقی وزیر برائے انڈسٹری حماد اظہر کو وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حفیظ شیخ کو وزارتِ انصاف و قانون کی ایڈوائس کے بعد عہدہ سے فارغ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی؛ اگرچہ حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نے ملک میں مہنگائی کے سونامیوں کا سبب بننے والی حفیظ شیخ کی پالیسیوں کے باعث انہیں وزارت کے منصب سے فارغ کیا ہے۔ اب اس سارے معاملے میں حقیقت کیا ہے یہ تو حکومت اور حکمران ہی بتا سکتے ہیں یا پھر حفیظ شیخ خود اس پر کوئی لب کشائی کر سکتے ہیں لیکن فی الحال دونوں طرف مہر بلب والا معاملہ نظر آتا ہے۔
اس دوران سابق وزیر خزانہ شوکت ترین والا ایپی سوڈ ہوا‘ جس سے حکومت کی معاملات پر گرفت کم ہونے کی نشاندہی ہوئی۔ ایسا ہی سلسلہ بھارت سے تجارت کرنے یا نہ کرنے کے ایشو پر ہوا۔ گڈ گورننس کا تقاضا ہے کہ حکومت ایسے افراتفری میں کئے گئے فیصلوں اور اقدامات سے بچے۔ قومی اور عالمی سطح پر ساکھ بہتر بنانے اور عوام میں اپنی مقبولیت قائم رکھنے کے لئے یہ بے حد ضروری ہے۔ بہرحال سابق وزیر خزانہ کی پالیسیوں کے برعکس وزیر اعظم اب عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے کے لئے عملی اقدامات کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے حماد اظہر صاحب کو اہم مشن دیا گیا ہے۔
عوام کی آگاہی کے لیے بتانا ضروری محسوس کرتا ہوں کہ حفیظ شیخ ماضی میں بھی آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر ملکی معیشت اور اس سے منسلک انتظامی امور پر معاملات کرتے رہے تھے۔ انہیں سب سے پہلے سندھ حکومت میں پرویز مشرف کے دور میں بطور مشیر مالیات لایا گیا‘ جس کے بعد وہ شوکت عزیز کابینہ میں وفاقی وزیر برائے نج کاری مقرر کیے گئے اور ان کو سینیٹ کا ممبر بنوایا گیا۔
بعد ازاں یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرادری کے ایما پر انہیں سینیٹر منتخب کرایا گیا اور وزارتِ خزانہ ان کے سپرد کی گئی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے 148 ارکان کی جعلی ڈگریوں کا کیس بنوا کر زرداری حکومت کو بند گلی میں کھڑا کر دیا تھا‘ لیکن اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس حامد مرزا نے تکنیکی طور پر ان کو بیل آؤٹ کر دیا۔ ایک تاثر یہ ہے کہ حفیظ شیخ صاحب نے پاکستان اور اس کے عوام کے بجائے عالمی مالیاتی ادارے کے مفادات کا زیادہ خیال رکھا۔ اسی بنیاد پر ان کے پیش کردہ وفاقی بجٹ میں نئے ٹیکسوں کی بھرمار ہوئی اور مروّجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں وہ ٹیکسوں کی وصولی کا کوئی خاص ٹھوس طریقہ کار بھی وضع نہ کر سکے جبکہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار سے مہنگائی کا سارا بوجھ عام آدمی کی جانب منتقل ہو گیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کا تقرر کر کے تحریک انصاف کے منشور سے انحراف کیا تھا جس سے فلاحی مملکت کی تشکیل سے متعلق حکومت کے اخلاص پر سوال اٹھنا فطری امر تھا۔ حفیظ شیخ اپنا امیج خاص منصوبہ بندی کے تحت بین الاقوامی ملٹی نیشنلز کارپوریٹ کے ذریعے اُجاگر کرتے رہے۔ شوکت عزیز کی کابینہ میں ان کو آگے بڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا لہٰذا وہ مستعفی ہو گئے۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ بعد ازاں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
ایک روز میں انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں مشاورت کے لیے ایوانِ صدر مدعو تھا کہ بات چیت کے دوران اچانک صدر آصف علی زرداری نے مجھ سے عبدالحفیظ شیخ کے بارے میں پوچھا کہ ان کو کس نگاہ سے آپ دیکھتے ہیں؟ میں نے انہیں بتایا کہ انہوں نے شوکت عزیز اور پرویز مشرف سے اختلافات کرتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ صدر آصف علی زرداری مسکرائے اور مجھے کہا کہ دو گھنٹے کے بعد ان کو بتا دیں کہ ان کو وزارت میں لیا جا رہا ہے۔ میں نے ایوانِ صدر سے نکلنے کے بعد دبئی میں ان کو اطلاع کر دی کہ ان کو وزارت میں لیا جا رہا ہے۔ حفیظ شیخ کو سابق ادوار میں اتنی اہمیت نہیں تھی جتنی وزیر اعظم عمران خان نے ان کو دی۔ بہر حال اب کہا جا رہا ہے کہ حفیظ شیخ کے جانے کے بعد ملک کی معیشت بہتر ہونے کی توقع ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو‘ لیکن اس کے لئے دیکھنا پڑے گا کہ ہمارے نئے وزیر خزانہ کیا مالی پالیسیاں لاتے ہیں۔ وہ یقیناً لائق ہیں اور ان کا پہلا امتحان اگلے مالی سال کا بجٹ ہو گا‘ جو دو ماہ بعد پیش کیا جانا ہے اور جس کے لئے حکومتی سطح پر یقیناً تیاریاں شروع کر دی گئی ہوں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں