"KDC" (space) message & send to 7575

مسئلہ کشمیر اور چند مبہم کردار

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھارت سے چینی‘ کپاس اور سوتی دھاگہ درآمد کرنے کی منظوری دی۔ کمیٹی نے بھارت سے زمینی اور سمندری راستے سے 30جون 2021ء تک نجی شعبے کے ذریعے پانچ لاکھ میٹرک ٹن سفید چینی کی درآمد کی منظوری بھی دی۔ اس درآمد کی اجازت نے قوم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ پوری قوم جاگ اُٹھی اور اندرونی طور پر شدید ردعمل آنے کے خوف سے اور شاہ محمود قریشی‘ شیخ رشید‘ اسد عمر اور شیریں مزاری کی شدید مخالفت کی وجہ سے وزیراعظم نے یو ٹرن لیتے ہوئے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی تجویز مسترد کردی اور قومی مؤقف اپناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال ہونے تک تجارت نہ کرنے کا عندیہ دیا۔
وزیراعظم کو کابینہ اجلاس کے لیے مرتب کردہ ایجنڈے سے بھارت سے چینی‘ کپاس اور دھاگے کی درآمد کی تجویز کو خارج کرتے ہوئے نئے وزیر خزانہ کو تنبیہ کرنا چاہیے تھی تاکہ بین الاقوامی سطح پر اور خصوصی طور پر بھارت کو یہ واضح پیغام دیا جاتا کہ وزیراعظم پاکستان مسئلہ کشمیر پر اپنے مضبوط قومی مؤقف پر قائم ہیں۔ معاشی فیصلوں سے متعلق ابہام کی ذمہ داری سربراہ حکومت ہی پر عائد ہوتی ہے اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان سے یہ پیغام گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے فیصلوں میں استحکام نہیں ہے۔ حکومت کی فیصلہ سازی میں ناکامی کی وجہ نااہلی‘ ناتجربہ کاری اورمشاورت کا فقدان معلوم ہوتی ہے جس کی طرف ملک کے ممتاز معاشی ماہر شوکت ترین نے بھی اشارہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ وزیراعظم صاحب کی مرضی سے وزارت ِ تجارت نے سمری کابینہ کے ایجنڈے میں شامل کی تھی اور مقتدر حلقوں نے جب دستاویزات سے وزارتِ تجارت کی تیار کردہ سمری کی روح اور محرک کے بارے میں حقائق معلوم کئے تو بھارت سے درآمدات کے فیصلے پر دباؤ آنے کے بعد یوٹرن لیا گیا۔ واللہ اعلم۔
کچھ تاریخی حوالے موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اختیار کی گئی مربوط پالیسی کے بارے میں 1948ء ہی سے ابہام پیدا کرنے کے لیے مختلف حربے اختیار کئے جاتے رہے ہیں۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد مقبوضہ کشمیر پر فیصلہ کن جنگ ستمبر 1965ء میں لڑی گئی اور جب تاشقند کانفرنس میں روسی وزیراعظم کوسی گن نے برصغیر کی جغرافیائی حکمت عملی کے تحت پاکستان اور بھارت کو یہ عندیہ دیا کہ جموں وکشمیر کے تنازع پر وہ آئندہ سکیورٹی کونسل میں ویٹو استعمال نہیں کریں گے اور کارگل کا وسیع علاقہ جو بھارت نے 7ستمبر 1965ء کو قبضے میں لے لیا تھا وہ 8 جنوری 1966ء کو معاہدہ تاشقند کے تحت روسی وزیراعظم نے پاکستان کو واپس کرا دیا تھا جس پر بھارتی پارلیمنٹ میں اپنے ہی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے خلاف قراردادِ مذمت پیش کی گئی‘ ممکنہ طور پر اسی کے غم میں لال بہادر شاستری عارضۂ قلب کا شکار ہو گئے ‘ جبکہ امریکہ کی پینٹاگون نے دائیں بازو کی جماعتوں کے ذریعے پاکستان میں صدر ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کروا دی اور شیخ مجیب الرحمن کے ذریعے چھ نکات کا شوشہ چھوڑا گیا ۔ اسی ہنگامہ آرائی کے دوران وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ماہرانہ اداکاری کرتے ہوئے اور اپنے چہرے کے تاثرات سے یہ ظاہر کیا کہ وہ صدر ایوب خان کے معاہدۂ تاشقند کے خلاف تھے حالانکہ موصوف جنوری 1966ء سے جون 1967ء تک معاہدہ تاشقند کی وکالت کرتے رہے تھے۔
شملہ جانے سے پیشتر جون 1972ء میں وزارت ِ اطلاعات و نشریات نے خصوصی حکمت عملی کے تحت کشمیر کے بارے میں لگاتار تین مضامین نیشنل پریس ٹرسٹ کے ایک اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر آر ایچ برکی کے توسط سے شائع کروائے اور یہ تجویز پیش کی گئی کہ یہ بات کی جائے کہ تنازع کشمیر قانونی نقطہ نظر سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کم اور بھارت اور کشمیر کے درمیان زیادہ ہے۔ دوسرے مضمون میں دو قومی نظریہ پر اعتراض کیا گیا تھا اور تیسرے مضمون میں ہندوستان کے ساتھ کنفیڈریشن بنانے کی وکالت کی گئی تھی۔ پہلا مضمون جو '' آئیے ماضی سے فاصلہ ختم کریں‘‘ کے عنوان سے 11 جون 1972ء کو سعید حسن خاں نے پاکستان ٹائمز میں لکھاتھا‘کا یہ جملہ ملاحظہ ہو ''اسی شہر لاہور میں ہم نے 1940ء میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں آزادانہ اور خود مختار اسلامی مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا‘ اگر اجازت دیں تو میں یہ کہوں گا کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کیا جانا دراصل قراردادِ لاہور کا ہی تسلسل ہے۔ بنگلہ دیش سے قطع نظر بھارت سے ہمارا واحد تنازع کشمیر کے بارے میں ہے اور سچ پوچھیں تو یہ تنازع پاکستان اور ہندوستان کے تنازع کے بجائے ہندوستان اور کشمیر کے درمیان تنازع ہے‘‘۔ سعید حسن خان ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے اور ان کو غالباً 1973ء میں لاہور ہائی کورٹ کا جج بھی مقرر کیا گیا‘اور 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں برطرف کر دیا تھا۔ بعد ازاں ان کو 1988ء کے ضمنی انتخاب میں لاہور سے میاں شہباز شریف کے مدمقابل قومی اسمبلی کی نشست پر کھڑا کیا گیا‘ جو وہ ہار گئے تھے۔ ان کے خیالات 11 جون 1972ء کے پاکستان ٹائمز کی فائل میں محفوظ ہیں۔ دوسرا مضمون ‘ جس کا عنوان ''بنگلہ دیش کا مسئلہ‘‘ تھا 21جون 1972ء کو آئی اے رحمن صاحب کے نام سے شائع ہوا تھا ۔ اس میں دو قومی نظریہ پر براہ راست حملے کئے گئے تھے۔ جناب آئی اے رحمن نے روزنامہ ''آزاد‘‘ کا بھی اجرا کیا تھا جو 1970ء کی الیکشن مہم میں ذوالفقار علی بھٹو کے افکار کو اُجاگر کرتا رہا اور ان کے ایک ایڈیٹر نے ''اِدھر ہم‘ اُدھر تم‘‘ کا سلوگن مسٹر ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب کیا تھا۔ اسی طرح 26 جون 1972ء کو اعلیٰ سطحی کانفرنس کی ترجیحات کے عنوان سے ایک تیسرے مضمون میں شیخ حامد محمود نے ہندوستان کے ساتھ کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی اور کشمیری عوام کے لیے حقِ خود ارادیت کے مؤقف سے دست بردار ہونے کی وکالت کی۔
ریکارڈ کے لیے بتاتا چلوں کہ شیخ حامد محمود اُن دنوں نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین تھے اور صدر ذوالفقار علی بھٹو کے معاون خصوصی کا پروٹوکول رکھتے تھے۔ شیخ حامد محمود کے آرٹیکل کے شائع ہونے پر رائے عامہ کے تمام طبقوں نے تنقید کی اور اسے قومی مفادات کے منافی قرار دیا گیا‘ یہاں تک کہ وزارتِ اطلاعات و نشریات بہت دیر تک اس ذریعے سے بے خبر رہی جو اس مضمون کی اشاعت کا باعث بنا تھا۔ میں نے تفصیل سے اس بارے میں اپنی سرگزشت میں لکھا ہے جو اِن دنوں اشاعت کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ میں اُن دنوں وزارتِ اطلاعات میں ہی تھا‘ میں نے ان تینوں مضامین کی کاپیاں ذاتی طور پر نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی صاحب کو پہنچائیں۔ چونکہ شیخ حامد محمود نوائے وقت کے بانی مالکان میں سے تھے لہٰذا مجید نظامی صاحب نے براہ راست صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو سے نیشنل پریس ٹرسٹ کے تحت چھپنے والے اخبارات کے آرٹیکلز کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات میں برائے نام انکوائری کے احکامات بھی جاری کئے گئے۔ 16اکتوبر 1972ء کو سیکرٹری اطلاعات کے ایک مراسلہ کا جواب دیتے ہوئے شیخ حامد محمود نے کہا کہ مذکورہ مضامین کی منظوری خود صدرِ مملکت نے دی تھی۔
جس طرح شملہ میں منعقد ہونے والی اعلیٰ سطحی کانفرنس سے پیشتر لگاتار تین مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور بے حس سیاستدانوں کی وجہ ایسے زہریلے مضامین لکھنے والوں کا احتساب نہ ہو سکا‘ اسی طر ح کے ذہن رکھنے والوں نے 31 مارچ کو چینی‘ کپاس اور دھاگہ بھارت سے درآمد کرانے کی سمری پُراسرار طریقے سے منظور کرکے کابینہ کے ایجنڈے میں شامل کرا دی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں