"KDC" (space) message & send to 7575

جہانگیر ترین کا معاملہ

جہانگیر ترین اور ان کے خاندان کے 36اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں جن میں چار فارن کرنسی اکاؤنٹس بھی شامل ہیں‘ان میں جہانگیر ترین کی اہلیہ اور بیٹے علی ترین کے 15سے 21اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔ اسی پس منظر میں جہانگیر ترین نے تحریک ِانصاف کے ہم خیال رہنماؤں کے اعزازمیں عشائیہ دے کر پہلے مرحلے میں 30ارکانِ اسمبلی کا پاور شو دکھا دیا ۔ ان ارکانِ اسمبلی نے جہانگیر ترین سے یکجہتی کا اظہار کر کے ممکنہ طور پر پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی بنیاد رکھ دی ہے۔ جہانگیر ترین کے چندوفادار ساتھی کابینہ میں بھی موجود ہیں اور وقت آنے پر وفاقی کابینہ کے تین سے چار وزراء بھی جہانگیر ترین کے ہمراہ کھڑے نظر آسکتے ہیں‘ شاید ابھی وہ کسی خاص حکمت عملی کے تحت پس پردہ ہیں۔
مجھے ایسا نظر آرہا ہے کہ بجٹ اجلاس کے دوران صوبہ پنجاب یا وفاقی سطح پر کسی بھی وقت تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے اور ایک ممکنہ عبوری نظام کے تحت سندھ سے ایک اہم شخصیت‘ جو اِس وقت کابینہ کی اہم رکن ہے‘ کو آگے لایا جاسکتا ہے‘ جس کی تائید آصف علی زرداری اور شاید نواز شریف بھی کر دیں گے ۔ ایسا ہوا تو متحدہ قومی موومنٹ اور پیر پگاڑا گروپ بھی ان کا ہم خیال ہو گا جبکہ پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پارٹی کے اندر ہی سے آسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں چوہدری پرویز الٰہی کو سائیڈ لائن کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب سننے میں آ رہا ہے کہ وہ 22آزاد ارکانِ صوبائی اسمبلی جنہوں نے اگست 2018ء میں الیکشن قوانین کے تحت سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی ان کا آزاد گروپ اس وقت تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔ یہ گروپ بنا تو ان میں سے کسی شخصیت کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے دیگر آزاد ارکانِ اسمبلی اپنا علیحدہ گروپ بناتے ہیں تو ان پر انٹرا فلور کراسنگ کی شق لاگو نہیں ہوگی۔
جہانگیر ترین کوآئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت کاغذاتِ نامزدگی میں حقائق کو پوشیدہ رکھنے کے جرم میں تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا ‘ مگرقانونی حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ اس کیس میں زمینی حقائق کو مد نظرنہیں رکھا گیا اورآئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کی تشریح نہیں کی گئی اور'' لندن فارمولہ‘‘ کے تحت ترین صاحب کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا ۔ یہ چہ میگوئیاں بھی گردش کرتی رہیں کہ جہانگیر ترین کو کسی حکمت عملی کے نتیجے میں نااہل قرار دیا گیا۔ میں نے بھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے 2019ء میں اسحاق خاکوانی کی موجودگی میں جہانگیر ترین کو بتا دیا تھا کہ اُن کو نااہل قرار دینے کے لیے بیلنس کا فارمولہ استعمال کیا گیا ۔ آئین کا آرٹیکل 62(1) ایف مدت کا ذکر تخصیص سے نہیں کرتا اس لیے اسے دائمی پابندی میں پڑھا جاتا ہے‘ لیکن آرٹیکل 62 (1) ایف اور آرٹیکل 63(1) ایف مختلف اور الگ ہیں‘ لہٰذا آئین کے تحت مختلف مقام‘ معانی اور اثر رکھتے ہیں۔ آرٹیکل 63(1) جرم کی ذمہ داری کے نتائج سے متعلق ہے تو آرٹیکل 62(1) ایف دیوانی مقدمات میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔ اسی کیس کو باریک بینی سے دیکھتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس عظمت سعید شیخ نے عمدہ اور احسن طریقے سے استدلال کے ساتھ تفصیلی فیصلہ لکھا اور اسی طرح کے ملتے جلتے ریمارکس میں جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی ایک اہم مقدمے کے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ سترہ رکنی فُل کورٹ میں لے جانے کے لیے رائے دی تھی تاکہ آئین کے اس اہم آرٹیکل کی تشریح ہوسکے۔ میرے خیال میں چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار کو آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف پر فیصلہ دیتے ہوئے پارلیمنٹ کے ارکان کو پیش کردہ کاغذاتِ نامزدگی کو ایف بی آر اور قومی احتساب بیورو سے جانچ پڑتال کرانا چاہیے تھی اور کمیشن مقرر کرنا چاہیے تھا۔ اگر وہ ایسا کر دیتے تو شاید ستر فیصد ارکان پارلیمنٹ صادق اور امین کے زمرے میں نہ آتے۔کاغذاتِ نامزدگی میں حقائق چھپانے کے جرم میں سزا دیتے وقت آئین کے آرٹیکل 225کو مدنظر رکھنا چاہیے‘ جس میں واضح ہے کہ پارلیمنٹ یا کسی صوبائی اسمبلی کا الیکشن چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ سوائے اس کے کہ کسی الیکشن ٹربیونل میں قانون کے مطابق پٹیشن دائر کی جائے جبکہ پرانے عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 63‘ 52‘ 51 اور 130 (AA) کے مطابق کسی الیکشن یا ضمنی انتخاب سے متعلق کوئی پٹیشن اس کے انعقاد کے 45دن کے اندر دائر کی جا سکتی ہے۔ جب یہ مدت ختم ہو جائے تو کسی الیکشن کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اس قانون کو اب الیکشن ایکٹ 2017ء میں ضم کر دیا گیا ہے‘ لہٰذا میری رائے میں کسی کو اختیار نہیں کہ کسی پارلیمنٹ کے رکن کو آئینی اور قانونی مدت گزرنے کے بعد نااہل قرار دے یا دوسری صورت میں اگر الیکشن شیڈول کے دوران کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران کسی مخالف یا ووٹر نے اعتراض دائر نہیں کیا تو مدت گزرنے کے بعد کاغذاتِ نامزدگی کو آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت کارروائی کرنے کے لیے متعلقہ آرٹیکل 225میں ترمیم کرنا چاہیے تھی۔ اسی طرح کسی پارلیمنٹ کے رکن کی نااہلی کا کیس زیربحث آئے تو نااہلی کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی کو کرنا چاہیے۔ انڈین الیکشن کمیشن کو بھارتی آئین نے مکمل اختیار تفویض کر رکھے ہیں کہ پارلیمنٹ کی نااہلی کا معاملہ الیکشن کمیشن ہی کرتا ہے جبکہ پارلیمنٹ کے رکن کے خلاف انتخابی عذرداری کا معاملہ انڈین کورٹس میں ہی جاتا ہے‘ انڈیا میں الیکشن ٹربیونلز مقرر کرنے کا قانونی رواج نہیں ‘ براہِ راست عدالت میں کیس دائر کیا جاتا ہے۔الیکشن کمیشن ان دنوں دُہری شہریت کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کر رہا ہے‘ اسی طرح فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔ ان دونوں کیسز کی آئینی اور قانونی حیثیت ایسی ہے کہ الیکشن کمیشن ان کیسز کی سماعت کا مجاز ہے۔ الیکشن کمیشن انتظامی ادارے کی حیثیت سے عدالتی نظام اپنانے کے بجائے انڈین الیکشن کمیشن کے طرز پر انتخابی طور پر فیصلہ سنائے ‘ تاریخیں دینے کی روایت سے گریز کرے اور سماعت چند ہفتوں میں مکمل کر کے فیصلے صادر کرے۔متاثر ہ فریق کو ان فیصلوں پر آئینی اور قانونی طور پر اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق حاصل ہے۔
جہانگیر ترین کا معاملہ اب حساس ہوتا جا رہا ہے۔ تیس سے زائد ارکانِ پارلیمنٹ نے وزیراعظم کے اقدامات کو مسترد کر دیا ہے ‘ ان ارکانِ اسمبلی کے مفادات اور سیاسی مقاصد جہانگیر ترین کے ساتھ منسلک ہیں ‘ یوں لگتا ہے کہ ہوا کا رُخ تبدیل ہو رہا ہے۔ جہانگیر ترین کے ساتھیوں کو تحریک انصاف نے اگر نوٹسز جاری کئے تو ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی کیونکہ ان میں سے بیشتر نے آزاد حیثیت سے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی اور یہ ارکان اپنے قائد عمران خان کی پالیسی سے یوٹرن لیتے ہوئے آزاد حیثیت میں واپس آ سکتے ہیں اور ان پر آئین کے آرٹیکل 163(1) لاگو نہیں ہوتا۔ ویسے بھی اس حوالے سے عائشہ گلالئی کیس میں سابق چیف الیکشن کمشنر سردار رضا فیصلہ دے چکے ہیں جس کی توثیق سپریم کورٹ آف پاکستان کر چکی ہے۔بہرکیف جہانگیر ترین گروپ میں پنجاب اسمبلی میں تیس کے لگ بھگ ارکان بڑے فعال ہیں اور سننے میں آیا ہے کہ وفاقی سطح پر گیارہ ارکانِ قومی اسمبلی کے علاوہ چار وفاقی وزراء بھی جہانگیر ترین کی پشت پر کھڑے ہیں ۔ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کوکچھ اہم فیصلے کرنا ہوں گے‘ تبھی معاملات کو قابو میں رکھا جا سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں