"KDC" (space) message & send to 7575

ایوب خان کی رحلت سے تین دن پہلے کی ملاقات

19 اپریل کو سابق صدر ایوب خان کی برسی تھی۔ میری ان کے ساتھ کچھ ملاقاتیں رہیں۔ چند یادداشتیں قارئین کی نذر ہیں۔
صدر ایوب خان گیارہ سال کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد خاموش، پُرسکون اور اطمینان سے اپنے ایام گزار رہے تھے جب 15 اپریل 1969ء کو راولپنڈی میں میری ان سے ملاقات ہوئی ۔ میں ان دنوں پاکستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر تھا، جس کی مغربی اور مشرقی پاکستان میں تقریباً تین سو سے زائد برانچز تھیں۔ ایوب خان کے خلاف نومبر 1968ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اور مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں ایجی ٹیشن شروع کر رکھا تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے اکتوبر 1969ء سے 17 اپریل 1974ء تک میری ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک روز ایوب خان نے انکشاف کیا کہ تاشقند کانفرنس (3تا 10 جنوری 1966ء) کے انعقاد سے پہلے سوویت یونین، پاکستان اور انڈیا کے وزرائے خارجہ کی اہم میٹنگ تاشقند کانفرنس کا ایجنڈا مرتب کرانے کیلئے منعقد ہوئی تھی اور پاکستان کے وفد کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ایوب خان کہتے تھے کہ جب تاشقند کانفرنس شروع ہوئی تو انہیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ پاکستانی وفد نے ایجنڈے میں جموں و کشمیر کا مسئلہ شامل ہی نہیں کیا تھا۔ان کے مطابق انہیں اپنے وزیرخارجہ پر اعتماد تھا لہٰذا کانفرنس سے پہلے وہ ایجنڈے کی فائل کو نہ دیکھ سکے۔ بہرحال سوویت یونین کے وزیر اعظم کوسی گن نے ایوب خان کی خصوصی درخواست پر ایجنڈے میں جموں و کشمیر کا مسئلہ شامل کر لیا۔ کانفرنس کے دوران انہوں نے مسٹر بھٹو کی سرزنش اُردو زبان میں کی تو مسٹر بھٹو نے صدر ایوب سے کہا کہ مجھے زیادہ سرزنش نہ کریں وزیراعظم کوسی گن اُردو سمجھتے ہیں۔ وہ مسٹر بھٹو کے اس جملے پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا تاشقند کانفرنس کے دوران رویہ مایوس کن رہا، جسے سوویت یونین کے وزیراعظم کوسی گن‘ بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے پرسنل سیکرٹری اور برطانیہ میں بھارتی ہائی کمشنر کلدیپ نیّر نے بھی محسوس کیا۔صدر ایوب خان نے اس ملاقات کے دوران یہ بھی بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر بننے کے بعد ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے گوہر ایوب خان کے ہمراہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی۔ یہ رسمی سی ملاقات سرد مہری پر مبنی رہی۔ میں نے صدر ذوالفقار علی بھٹو سے دریافت کیا کہ انہوں نے 1968ء سے 1969ء تک اپنی سیاسی تقاریر میں اعلانِ تاشقند کا راز بیان کرنے کے بڑے دعوے کیے تھے اب بطور صدر مملکت اور چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر تاشقند کے راز کو ظاہر کرنے میں کیا حرج ہے؟بقول صدر ایوب خان، ذوالفقارعلی بھٹو نے صرف ایک ہی جملہ کہا کہ سیاست میں ایسی شعبدہ بازی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے ۔
ایوب خان نے اپنے عارضۂ قلب کا امریکہ میں علاج کروانے کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ان پر امریکہ میں مقیم بنگالی طلبا کی طرف سے ہسپتال میں علاج کے دوران قاتلانہ حملہ کرنے کی سازش تیار ہوئی جسے امریکی انتظامیہ نے ممکن حد تک ناکام بنانے کے لیے ایوب خان کے بجائے ڈیوڈ جیکب کے نام پر ہسپتال میں کمرہ بک کرایا اور جیکب کے کوڈ ورڈ کے طور پر تمام ڈاکٹر حضرات کو اشارہ دیا گیا۔فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے استعفا کا پس منظر بتاتے ہوئے بتایا کہ جنرل یحییٰ خان 14 مارچ 1969ء کی کامیاب گول میز کانفرنس سے ناخوش تھے، کیونکہ بطور صدر پاکستان انہوں نے گول میز کانفرنس کی تمام تجاویز کو تسلیم کرتے ہوئے اور اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالجبار خان کوسپرد کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس 15 اپریل 1969ء کو طلب کر لیا تھا، لیکن اس دوران جنرل یحییٰ خان، جنرل پیرزادہ اور جنرل عبدالحمید نے مسٹر بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن سے سازبازکر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کی حکمت عملی تیار کرلی۔ انہوں نے یحییٰ خان کا ما فی الضمیر جاننے کیلئے مسٹر ایس ایم ظفر مرکزی وزیر قانون اور مسٹر الطاف گوہر سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات کو 22 مارچ 1969ء کو یحییٰ خان کے پاس بھیجا اور انہوں نے دوستانہ ماحول میں یحییٰ خان کواعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ ملک کے حالات بہتر ہو گئے ہیں اور اقتدار آئین کی رُو سے سپیکر قومی اسمبلی کو منتقل کرنے کیلئے وزارت قانون اور پارلیمانی امور آئینی دستاویزات تیار کر رہی ہے، اس پر جنرل یحییٰ خان نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ایوب خان کو کہہ دیں کہ ہم پشاور نہیں جائیں گے۔ جس انداز سے یحییٰ خان نے ایوب خان کا مذاق اڑایا وہ اس امر کی نشاندہی کر رہا تھا کہ یحییٰ خان کے خطرناک عزائم ہیں۔ایس ایم ظفر اور الطاف گوہر صورتحال ایوب خان کے نوٹس میں لائے تو ایوب خان کے بقول انہوں نے بغاوت اور ناخوشگوار واقعات سے بچنے کیلئے فوری طور پر جنرل یحییٰ خان کو خط لکھا اور ان کو ہدایت جاری کی کہ وہ آئین کے مطابق کارروائی کریں۔ آئین کے جس آرٹیکل اور شق کا اس خط میں ذکر تھا اس کے مطابق یحییٰ خان نے اقتدار کی منتقلی میں قومی اسمبلی کے سپیکر کو تحفظ فراہم کرنا اور معاونت کرنا تھی اور اس کے ساتھ ہی صدر مملکت کی حیثیت سے انہوں نے مستعفی ہوتے ہوئے 25 مارچ 1969ء کو قوم سے آخری خطاب کیا۔
دراصل یحییٰ خان نے ایوب خان کی قومی اسمبلی کے سپیکر کو اقتدار منتقل کرنے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کردی تھی اورحیرانی اس بات کی ہے کہ پاکستان کے وہ سیاستدان جنہوں نے ان کو گول میز کانفرنس کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے انہیں ایشیا کا عظیم سیاستدان قرار دیا تھا اُنہوں نے ہی 26مارچ 1969ء کو یحییٰ خان کی حمایت کی۔ اگر سیاستدان یحییٰ خان کا اقتدار تسلیم نہ کرتے تو پانچ اپریل 1969ء کو اقتدار پُرامن طریقے سے قومی اسمبلی کے سپیکرکو منتقل ہو جاتا اور مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔
ایوب خان نے بتایا کہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر مملکت اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہو گئے تو ان کی حکومت کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے ایک طرف عاصمہ جیلانی اور دوسری طرف الطاف گوہر نے اپریل 1972ء میں سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی۔الطاف گوہر کا موقف یہ تھا کہ چونکہ یحییٰ خان نے 1962ء کے آئین سے انحراف کرتے ہوئے اقتدار فیلڈ مارشل ایوب خان کے آئینی خط کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی کو منتقل کرنے کے بجائے ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے آئین کو منسوخ کر دیا تھا لہٰذا یحییٰ خان کا یہ اقدام غداری کے زمرے میں آتا ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمن نے الطاف گوہر کے دلائل کی روشنی میں یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا تھا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے مجھے اور میری اہلیہ کے لیے 19 اپریل 1974ء رات آٹھ بجے فیملی ڈنر کا اہتمام کیا تھا لیکن قدرت کا اپنا انتظام ہوتا ہے، اُسی دوپہر پونے بارہ بجے ایوب خان کا انتقال ہو گیا۔ستم ظریفی دیکھیے کہ پاکستان کے جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت اطلاعات و نشریات کے سیکرٹری نسیم احمد کے ذریعے ڈیفنس رولز آف پاکستان کے تحت اخبارات کو دھمکی دی کہ ایوب خان کے جنازے کے جلوس کی تعدادہزاروں میں لکھی جائے حالانکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے چار لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے جنازے میں شرکت کی۔ جنازے کو ان کی اسلام آباد رہائش گاہ سے ریس کورس گراؤنڈ تک پہنچانے میں آٹھ گھنٹے سے زائد کا وقت لگا۔بعد ازاں فیلڈ مارشل ایوب خان کو ان کے آبائی گاؤں ریحانہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں