"KDC" (space) message & send to 7575

پارلیمانی نظام کی کارکردگی

قائداعظم محمد علی جناح جب حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں مصروف تھے تو انہوں نے پاکستان کے نظامِ حکومت کے بارے میں غور و خوض شروع کر دیا تھا۔ قائداعظم 1925ء سے 1931ء تک اتاترک مصطفی کمال پاشا کے نظامِ حکومت سے متاثر رہے اور اتاترک کی سوانح عمری ان کے مطالعہ میں رہی۔ قائداعظم کے قریبی ساتھیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اتاترک کی سوانح عمری قائداعظم کے سرہانے تلے ہوتی تھی۔ لیکن برطانیہ کے کامن ویلتھ ممالک میں برطانوی پارلیمانی سسٹم رائج ہو رہا تھا‘ لہٰذا قائد اعظم نے پارلیمانی نظام کو پاکستان کیلئے سودمند قرار دیا ‘ لیکن اپنی ذاتی ڈائری میں پاکستان میں انہوں نے صدارتی نظامِ حکومت پر بھی رائے کا اظہار کیا تھا۔
مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جاگیر بن چکی ہے‘ جہاں سے عوامی مفاد کیلئے اصلاحات نافذ کرنا ہمارے ملک کے معروضی حالات میں ممکن نظر نہیں آ رہا۔ پارلیمنٹ میں پہنچنے والے یہ جاگیرداراور سرمایہ کارہی قوانین بناتے ہیں‘ وہی ریاست کی معیشت چلاتے ہیں اور ملکی قوانین بناتے وقت وہ صرف اپنا مفاد مقدم رکھتے ہیں۔ ماضی اور حال کے وزرائے اعظم کی طویل فہرست ہے جو بے عنوان ٹھہرے‘ سب بے چہرہ اور بے ثمر رہے جبکہ سارے فیصلے اشرافیہ کے ہاں ہو تے رہے ہیں‘ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کچھ حد تک اپنے آپ کو با اختیار ثابت کرنے میں نا کام رہی ہے۔ پاکستان میں شفاف الیکشن کا تصور معدوم ہو چکا ہے‘ انتخابی نظام کو جھوٹ‘ بے وفائی اور شطرنج کے کھیل کی طرح ایک منظم پروگرام کے تحت چلایا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ میں ایسے افراد منتخب ہو کر چلے آ رہے ہیں جو قانون کی بالادستی سے مبرا اور تمام وسائل‘ جو ملک میں دستیاب ہیں ‘پر قابض ہو چکے ہیں‘ لہٰذا عوام کے کچھ حلقوں کی سوچ ہے کہ ملک میں پارلیمانی نظامِ حکومت کے بجائے صدارتی نظامِ حکومت رائج کیا جانا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جب جنرل یحییٰ خان کی برطرفی کے بعد 21 دسمبر 1971ء کو ملک کے صدر اور سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے تو انہوں نے ملک کے آئندہ نظامِ حکومت کیلئے آئین ساز اسمبلی کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خدوخال اُجاگر کرنے کیلئے میاں محمود علی قصوری‘ مرکزی وزیر قانون کی سربراہی میں ایک آئین ساز کمیٹی تشکیل دی تھی۔ مسٹر بھٹو ملک میں صدارتی نظامِ حکومت لانا چاہتے تھے اور ملک کا آئین اسی بنیاد پر تیار ہو رہا تھا‘ لیکن میاں محمود علی قصوری جوصدارتی نظامِ حکومت کے حامی تھے‘ مولانا مفتی محمود‘ ولی خان‘ شیرباز مزاری‘ احمد رضا قصوری‘ راؤ خورشید علی خان‘ نواب رسول بخش تالپور‘ مولانا شاہ احمد نورانی اور چوہدری ظہورالٰہی کی مخالفت کی وجہ سے پارلیمانی نظام کے حامی ہو گئے اور صدر بھٹو کی خواہش آگے نہ بڑھ سکی۔ اب بھی اگر قومی اسمبلی کے آرکائیوز سے آئین ساز اسمبلی کے نان پیپرز کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آ سکتی ہے۔
صدر بھٹو قومی اسمبلی کے پریشر گروپ کی وجہ سے اپنی اس خواہش سے دوقدم پیچھے ہٹ گئے اور میاں محمود علی قصوری نے مرکزی وزارتِ قانون سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ مسٹر بھٹو نے خاص حکمت عملی کے تحت گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کے ذریعے ان کی کردار کشی کرائی اور صدر بھٹو کی ایما پر پنجاب کے صوبائی وزیر افتخار تاری گروپ کے ذریعے ان کے خلاف منظم مہم چلائی گئی جس سے دل برداشتہ ہو کر میاں محمود علی قصوری نے صدر بھٹو سے اپنی راہ جدا کر لی اور صدر بھٹو کو بادلِ نخواستہ ملک میں پارلیمانی نظامِ حکومت کی طرف آنا پڑا‘ لہٰذا آئین ساز اسمبلی کے ذریعے اپنے تمام اختیارات وزیراعظم کو منتقل کروائے اور صدرِ مملکت‘ جو وفاق کی علامت تصور کئے جاتے ہیں‘ ایوانِ صدر میں نمائشی بن کر رہ گئے۔ مسٹر بھٹو نے صدارتی رولز آف بزنس میں تبدیلی کرتے ہوئے وزیراعظم کیلئے پروٹوکول کی وہی مراعات حاصل کر لیں جو صدر مملکت کا استحقاق تھا‘ یعنی خطاب سے پہلے قومی ترانہ اور ملٹری سیکرٹری کی مراعات ‘ جو 14 اگست 1973ء سے پہلے وزیراعظم کو حاصل نہیں تھیں۔ پاکستان کے اولین وزرائے اعظم لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین‘ اسی طرح سات اکتوبر 1958ء تک جتنے بھی وزیراعظم آتے جاتے رہے‘ ان کو یہ مراعات حاصل نہیں تھیں جو مسٹر بھٹو نے حاصل کر کے ایسی روایات کا اجرا کیا جو اب تک نافذ العمل ہیں۔
جب جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977ء کو بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تو چودھری فضل الٰہی ایک سال تک صدر ہے۔ وہ چونکہ وزیراعظم بھٹو سے نالاں تھے‘ چنانچہ مبینہ طور پر انہوں نے جنرل ضیاء الحق کو مشورہ دیا کہ مسٹر بھٹو سے پاکستان کی گلوخلاصی کرائیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی پارلیمانی نظامِ حکومت ناکام ہو گیا تو شیخ مجیب الرحمن نے اپریل 1975ء میں بنگلہ دیش کے عام انتخابات کے بعد صدارتی نظامِ حکومت نافذ کر دیا‘ لیکن وہ اپنی نااہلیت کی وجہ سے صدارتی نظامِ حکومت کا بوجھ برداشت نہ کر سکے اور15 اگست 1975ء کو اپنے اہلِ خاندان کے ہمراہ قتل کر دیے گئے۔
مجھے یہ لگتا ہے کہ پارلیمانی نظامِ حکومت میں اربابِ حکومت ملک کی معاشی‘ سیاسی صورتحال‘ امن و امان اور خارجہ پالیسی کے بارے میں عوام کی صحیح عکاسی کرنے میں ناکام رہے ہیں اور وزیر اعظم تو پارلیمنٹ کے اہم اجلاسوں میں بھی شرکت کرنا گوارا نہیں کرتے ‘ یہی صورتحال میاں نواز شریف کی تھی۔ لہٰذا ملک کے بیشتر حصوں میں جوبے چینی کے آثار نظر آ رہے ہیں‘ میری نظر میں اس کے حل کیلئے پاکستان میں صدارتی نظامِ حکومت کا ہونا ملکی مفاد میں رہے گا۔ اس سے صدر مملکت محدود نہیں رہیں گے کیونکہ صدر کا انتخاب براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوگا اور پارلیمنٹ کا کام صرف قانون سازی کی حد تک ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بلدیاتی نظام کو انڈونیشیا کی طرز پر مضبوط کیا جائے اور پاکستان میں تقریباً آٹھ ہزار یونین کونسلوں میں سے دو لاکھ کے لگ بھگ کونسلروں کا انتخاب نچلی سطح پر کرایا جائے اور یونین کونسل‘ ٹاؤن کونسل‘ تحصیل کونسل‘ ضلع کونسل‘ ڈویژنل کونسل اور صوبائی کونسل کے ذریعے جمہوریت کو مضبوط کیا جائے اور تمام اختیارات نچلی سطح پر حقیقی معنوں میں آئین کے آرٹیکل 140 (اے) کے مطابق منتقل کیے جائیں۔یونین کونسل کی سطح کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل دینے کیلئے کمیشن بھی مقرر کیا جانا چاہیے اورسیاسی پارٹیوں میں اندرونی انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نگرانی میں کروائے جائیں اور سیاسی پارٹی سے موروثی سیاست کا ازالہ کیا جائے ‘ اس کیلئے ضروری ہے کہ پارٹی عہدیداروں کو تیسری مدت کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہو۔
حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری عوامی مسائل کا حل اور رفاہ عامہ ہوتا ہے جبکہ ایسی حکومت موجودہ پارلیمانی نظام میں دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔ عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں‘ موجودہ پارلیمانی سسٹم میں صدر کا انتخاب 1200 ارکان ِاسمبلی کرتے ہیں اور ان میں سے صدر کو اپنے حریف کے مقابلے میں 300یا 500ارکانِ اسمبلی کے ووٹ زیادہ مل جاتے ہیں جو جمہوری اصولوں کے مطابق 22 کروڑ عوام کی نمائندگی کے زمرے میں نہیں آتا۔ پاکستان کے انتخابات کا اگر اجتماعی جائزہ لیا جائے تو ٹرن آؤٹ بھی اکثریتی عوام کی رائے کی عکاسی نہیں کرتا۔ پاکستان میں گزشتہ پچاس برسوں میں ملک میں گیارہ عام انتخابات 1970ء‘ 1977ء‘ 1985ء‘ 1988ء‘ 1990ء‘ 1993ء‘ 1997ء‘ 2002ء‘ 2008ء‘ 2013ء اور 2018ء میں منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ وجود میں آئی اسکے ارکانِ کے اثاثوں میں مسلسل اضافہ ہوا‘ اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے ‘ لہٰذا سوچئے کہ ملک میں کون سا نظامِ حکومت بہتر ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں