"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن ترمیمی آرڈیننس

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت الیکشن آرڈیننس (دوسرا ترمیمی) 2021ء جاری کیا ہے جس میں الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 94(1) اور سیکشن 103 میں کئی ترامیم کی گئی ہیں۔ سیکشن 94(1) کے تحت سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے دیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے الیکشن کمیشن نادرا یا کسی اتھارٹی یا ایجنسی کی تکنیکی معاونت سے عام انتخابات میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کے قابل بنائے گا۔ آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سیکشن 103 کے تحت الیکشن کمیشن عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین خریدنے کا بھی پابند ہوگا۔ آرڈیننس کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت‘ الیکٹرانک ووٹنگ اور بائیومیٹرک تصدیقی مشینوں کے لیے پائلٹ پروجیکٹس سے متعلق شقوں کو بدلا گیا ہے۔
آرڈیننس ترمیمی بل کے ذریعے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود کر کے الیکشن ایکٹ 2017ء کی اہم دفعات‘ جن کا تعلق انتخابی فہرست سے ہے‘ کی اہم شقوں سیکشنز 24‘ 26‘ 28‘ 34‘ 42 کو حذف کر دیا گیا ہے جو میری نظر میں الیکشن کمیشن کے اختیارات پر قدغن لگانے کے مترادف ہے اور ان شقوں کو حذف کرنا آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 سے انحراف بھی محسوس ہوتا ہے جبکہ قانون دانوں کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق جو آرڈیننس آئین کے کسی آرٹیکل سے متصادم نظر آ رہا ہو اس کی قانونی حیثیت مشکوک ہوتی ہے‘ لہٰذا لامحالہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس آرڈیننس کی بعض ترمیمی شقوں پر تحفظات ہو سکتے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ اور بائیومیٹرک تصدیقی مشینوں اور سمندر پار پاکستانیوں سے انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کرانے کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔ حکومت نے عجلت میں آرڈیننس جاری کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے کیونکہ پائلٹ پروجیکٹ میں یہ تینوں تجربات ناکام ہو چکے ہیں اور آرڈیننس جاری کرنے سے پیشتر الیکشن کمیشن سے مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے طریقہ کار پر مشاورت کے لیے الیکشن کمیشن کو مدعو کیا گیا تھا لیکن پالیسی امور پر الیکشن کمیشن سے مشاورت نہیں کی گئی۔ اسی طرح وزیر اعظم آفس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا جو نمونہ سربراہ حکومت کو دکھایا گیا وہ لیبارٹری کی بنائی ہوئی نو سالہ پرانی مشین تھی جسے الیکشن کمیشن آف پاکستان مسترد کر چکا ہے‘ اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کو اصل حقائق سے بے خبر رکھا گیا ہے کیونکہ انٹرنیٹ بیلٹ کا طریقہ کار دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں پایا جاتا‘ سوائے شمالی یورپ کے ملک استونیہ کے جس کی کل آبادی صرف تیرہ لاکھ جبکہ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 75 ہزار ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے قریب 90 لاکھ شہری دنیا کے مختلف ممالک میں کام کر رہے ہیں اور جن کے پاس نادرا کا انٹرنیشنل شناختی کارڈ ہے۔ ان کی تعداد تقریباً 18 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کام کر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں تقریباً 15 لاکھ پاکستانی موجود ہیں۔
اصولی طور پر سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے اور الیکشن کمیشن 1994ء سے اس پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ڈاکٹر نسیم حسن نے پاکستانی نژاد برطانوی شہری یاسمین خان کی آئینی پٹیشن پر فیصلہ بھی دیا تھا اور الیکشن کمیشن نے ایک اعلیٰ اختیارات کی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جس کا میں کلیدی ممبر تھا اور اُس وقت ایک کے بعد ایک مقرر ہونے والے چیف الیکشن کمشنر جسٹس نعیم الدین‘ چیف الیکشن کمشنر سردار فخر عالم‘ چیف الیکشن کمشنر عبدالقدیر چودھری اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس قاضی فاروق کی سربراہی میں مختلف پالیسی امور پر وسیع تناظر میں اس پروجیکٹ پر کام ہوتا رہا۔ بعد ازاں وزارتِ خارجہ‘ وزارتِ داخلہ‘ وزارتِ اوورسیز پاکستانیز‘ وزارتِ لیبر اور ایجنسیوں کی رپورٹ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس منصوبے کو ناقابلِ عمل قرار دے کر داخلِ دفتر کر دیا گیا کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
آرڈیننس میں الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 18 اور 20 میں ترمیم کرتے ہوئے آئندہ حلقہ بندیاں آبادی کی بنیاد کے بجائے انتخابی فہرست کی بنیاد پر کروانے کے لیے ترمیمی شق جاری کر دی گئی ہے‘ بادی النظر میں یہ ایک خوش آئند قدم ہے کیونکہ مردم شماری ہمیشہ متنازع ہی رہی ہے‘ بالخصوص کراچی‘ حیدر آباد اور سکھر کی مردم شماری کو تسلیم نہیں کیا گیا‘ لہٰذا مردم شماری کی اہمیت کو گھٹانے کے لیے اب مردم شماری کے بجائے نادرا کی تیار کردہ انتخابی فہرست کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ووٹرز کی تعداد کے مطابق حلقہ بندی کروائی جائے گی۔ بظاہر یہ آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق ہے جس میں مساوات کے اصول کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس ترمیم سے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو فوائد حاصل ہوں گے مگر پیپلز پارٹی خسارے میں رہے گی۔ حلقہ بندیاں کراتے وقت سندھ کے بعض حلقوں میں حلقہ بندیوں کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا‘ مثال کے طور پر کراچی کے حلقہ 247 میں آٹھ لاکھ آبادی پر ایک حلقہ بنایا گیا جبکہ ملیر کی چھ لاکھ کی آبادی کو تین حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہ آئین کے آرٹیکل 24 سے انحراف ہے جس میں مساوات کا خصوصی ذکر ہے۔ بہرحال حلقہ بندیوں کے بارے میں جو ترمیم کی گئی ہے‘ اس کی منظوری پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے ہی ترمیم ممکن ہو سکے گی۔
مذکورہ آرڈیننس جب قومی اسمبلی کے فلور پر آئے گا تو گرما گرم بحث میں پارلیمنٹیرین جون کی گرمی کو بھول جائیں گے۔ آرڈیننس آئندہ انتخابات میں بڑی اہمیت کا حامل ہو گا اور وفاقی حکومت کی موجودہ ٹیم میں کوئی آئینی ماہر ایسا نہیں جو اس آرڈیننس کی روح کو متاثر کن انداز میں عوام میں صحیح معنوں میں روشناس کرا سکے جبکہ درآمد شدہ ترجمانوں کے ذریعے اس آرڈیننس کی روح متاثر ہو گی۔ معزز صدر مملکت اور معتبر وزیر اعظم کو اس اہم مسئلے پر غور و فکر کرنا ہو گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان آرڈیننس کے پیراوائز ترمیمی امور کا جائزہ لے گا۔ میں نے بھی اپنے انتخابی تجربے کی بنیاد پر پیراوائز رائے صدر مملکت‘ وزیر اعظم‘ لیڈر آف اپوزیشن اور سینیٹ کو بھجوا دی ہے۔
حلقہ 249 کے ہارنے والے امیدواروں مفتاح اسماعیل اور دیگر امیدواروں کی الیکشن سکیورٹی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 61 کے تحت ضبط ہو گئی ہے کیونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مفتاع اسماعیل نے 14747 ووٹ حاصل کیے‘ کالعدم تحریک لبیک پارٹی کے مولانا نذیر نے 10668‘ جبکہ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال نے 8728 ووٹ حاصل کیے اور تحریک انصاف کے امیدوار امجد آفریدی نے 8681 اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے محمد مرسلین نے 7007 ووٹ حاصل کیے ہیں‘ لہٰذا الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 61 کی شق پانچ کے تحت یہ امیدوار رجسٹرڈ ووٹ جو کاسٹ ہوئے اس کا چوتھائی ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس حلقے میں کل رجسٹرڈ ووٹر 339,591 ہیں۔ قانون کے مطابق یہ شق ناکام امیدوار پر لاگو ہوتی ہے‘ کامیاب امیدوار اس شق کی زد میں نہیں آتے۔ اسی فارمولہ کے تحت 18350 ووٹ حاصل کرنا لازمی ہے‘ اگرچہ قادر مندوخیل نے 15656 ووٹ حاصل کیے ہیں لیکن قانونی طور پر ان پر یہ شق لاگو نہیں ہوتی۔
عوام نے سیاسی جماعتوں کی باہمی کشمکش کو دیکھتے ہوئے ان جماعتوں پر عدم اعتماد کیا ہے اور عوام کا موجودہ سیاسی نظام پر سے اعتماد اُٹھتا جا رہا ہے جو کہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بلدیاتی نظام کے مفلوج ہونے پر بھی عوام پر گہرا اثر پڑا ہے اور عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں