"KDC" (space) message & send to 7575

جہانگیر ترین گروپ پر فلور کراسنگ کی شق لاگو نہیں ہوتی

جہانگیر ترین گروپ کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کے بعد حالات میں بہتری کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن بظاہرتحریک انصاف تقسیم ہو چکی۔ جہانگیر ترین ہم خیال گروپ بنا دیا گیا ہے‘ سعید اکبر نوانی پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر مقرر ہو گئے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کے لیے پارلیمانی لیڈر کا معاملہ مثبت اشارہ آنے تک مؤخر کیا گیا ہے۔تاریخی شواہد کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل نہیں رہی تھی تو انہوں نے عطا محمد مانیکا کی سربراہی میں مسلم لیگ (ق) کے 25 ارکان کے لگ بھگ ہم خیال گروپ کے بجائے یونیفکیشن گروپ بنایا اور سپیکر صوبائی اسمبلی رانا اقبال نے ان کو علیحدہ نشستیں الاٹ کر دیں اور غیر سرکاری طور پر شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ (ق) کی حمایت سے 2013ء تک وزیراعلیٰ رہے۔ جب پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کی حمایت سے دستبرداری اختیار کی تو حکومت کو عدم اعتماد سے بچانے کیلئے عطا محمد مانیکا کی سربراہی میں اس قسم کا گروپ تشکیل دیا گیا البتہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے اس گروپ کے خلاف فلور کراسنگ کا ریفرنس سپیکر صوبائی اسمبلی کو نہیں بھجوایاتھا ۔ شہباز شریف نے اس معاملے میں مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے ان کو آئین و قانون کے مطابق یہی مشورہ دیا کہ اگر تحریری طور پر سپیکر صوبائی اسمبلی نے یونیفکیشن گروپ کو تسلیم کر لیا ہے تو ان پر آئین کے آرٹیکل 163 (1) کی شرائط لاگو ہوسکتی ہیں اور غیر سرکاری طور پر یہ بلاک وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ دیتا ہے تو ان کی نااہلیت کا کیس عرصہ دراز تک چلتا رہے گا۔ میں نے چوہدری شجاعت حسین کو جناب سید محمد ظفر اور مشاہد حسین کی موجودگی میں ان ارکان کیخلاف ریفرنس بھجوانے کا کہا تو چوہدری شجاعت حسین نے بتایا کہ سپیکر صوبائی اسمبلی رانا محمد اقبال ان کے ریفرنس کو الیکشن کمیشن میں نہیں بھجوائیں گے جس طرح فرح دیبا کی نااہلیت کا کیس رانا صاحب نے الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوایا اور ایک سال سے زائد ان کا معاملہ مؤخر رکھا۔ لہٰذا شہباز شریف کی حکومت صدر زرداری کے دورِ حکومت میں 2013ء تک حکومت کرتی رہی۔
اب پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف جہانگیر ترین گروپ کے ارکان نے ایوان میں الگ نشستوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اس سلسلے میں جہانگیر ترین گروپ کے پارلیمانی سیکرٹری سعید اکبر نوانی کی زیر صدارت ارکان الگ نشستوں پر بیٹھنے کے لیے سپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کریں گے‘ لہٰذا قوانین کے تحت ان پر فلور کراسنگ کی شق لاگو نہیں ہوتی۔ اب بظاہر ان سارے معاملات میں تحریکِ انصاف پنجاب کی حد تک دو لخت نظر آتی ہے اور اس صورتحال سے وزیراعظم عمران خان کے لیے مشکل گھڑی آن پہنچی ہے جبکہ تحریک انصاف کے بعض اہم افراد اپنے مستقبل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں اور متبادل صورتحال کے امکان پر غور کرنے کے لیے وزیراعظم سے علیحدہ سمت میں جانے کا سوچ رہے ہیں اور متبادل قیادت کے بارے میں سوچ بچار کا سلسلہ جاری ہے ۔
راولپنڈی رنگ روڈ کے سکینڈل نے وزیراعظم کو کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے 180 کے لگ بھگ ارکان ہیں اور دیگر اتحادیوں کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد 196 بنتی ہے‘ اب جہانگیر ترین گروپ کے چالیس کے لگ بھگ ارکان علیحدہ ہو جاتے ہیں تو پنجاب اسمبلی میں حکمران جماعت اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے گی اور پاکستان مسلم لیگ کی 10 نشستیں ملا کے 166 اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان شامل کر کے کل تعداد 173 ہو جائے گی‘ لہٰذا ترین گروپ اپنی بڑھتی ہوئی تعداد کے بل بوتے پر وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہوسکتا ہے اور نواز لیگ سے انتخابی معاہدہ کر کے ان کے نمائندے کو سپیکر صوبائی اسمبلی منتخب کروا سکتا ہے۔چوہدری برادران جہاندیدہ سیاستدان ہیں اور ان کی نظر مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر لگی ہوئی ہے‘ وہ کسی وقت بھی اپنا وزن جہانگیر ترین گروپ کی طرف ڈال دیں تو اسی لمحے پنجاب حکومت زمین بوس ہو جائے گی۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین گروپ کو وارننگ دی ہے کہ فنانس بل پر حکومت کو ووٹ نہ دیا تو رکنیت متاثر ہو سکتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 163 (1) کے تحت ان کے ریمارکس درست ہیں لیکن ایسے معاملات پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عائشہ گلالئی کے ریفرنس کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا اور کئی زاویے دیکھنا ہوں گے اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ بدنیتی کا عنصر شامل ہے یا نہیں ‘ نیز اس کے پس منظر میں مقصد اور ارادے کو بھی دیکھنا ضروری ہے اور اتنی بڑی تعداد کے خلاف ریفرنس کیسے الیکشن کمیشن کو بھجوائے جائیں گے‘ اس کیلئے ان کو گزشتہ تمام فیصلوں پر غور و فکر کرنا ہوگا۔ جب ان ارکانِ قومی اسمبلی کے خلاف پارٹی کا سربراہ شوکاز نوٹس جاری کرے گا تو ان ارکانِ اسمبلی کا موقف یہی ہوگا کہ بجٹ عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہا‘ لہٰذا ضمیر کے مطابق انہوں نے فنانس بل کے خلاف اظہارِ رائے میں عدم اعتماد کا ووٹ دیا‘ تو ایسے ریفرنس بے اثر ہو جائیں گے۔عائشہ گلالئی کیس بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ جسے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے‘ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے‘ بدنیتی پر مبنی قرار دیا تھا‘ لہٰذا شاہ محمود قریشی صاحب کو عائشہ گلالئی کیس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
وزیراعظم کی حکومت پر گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ گورنر بلوچستان امان اللہ یٰسین زئی نے ان کی خواہش کو نظرانداز کرتے ہوئے مستعفی ہونے سے بظاہر معذرت کر لی ہے‘ وزیراعظم نے وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس کے خلاف براہ راست خط میں گورنر بلوچستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا‘ حالانکہ ایساصدر ِمملکت کوکرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح سپیکر قومی اسمبلی نے بلاوجہ اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم کے حق میں رائے دیتے ہوئے اپنی غیرجانبداری کا تاثر زائل کیا۔سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد اس عہدے کے حامل افراد سارے ایوان کے معزز اور قابلِ احترام سپیکر ہوتے ہیں اور اسمبلی کی تحلیل کے بعد بھی اس وقت تک سپیکر کے عہدے پر فائز رہتے ہیں جب تک نئے سپیکر کا انتخاب عمل میں نہیں آ جاتا‘ لہٰذا انہوں نے عجلت میں اپنی وفاداریوں کو شو کر کے اپنی غیرجانبداری کو مشکوک بنا دیا۔ ان کو احساس ہونا چاہیے تھا کہ ترین گروپ کے عزائم سے حالات کیسی کروٹ لے رہے ہیں‘ فنانس بل کی منظوری حکومت کیلئے مشکلات پیدا کئے ہوئے ہے۔ان حالات میں کسی غیر دانشمندانہ مظاہرے سے اپوزیشن فوائد حاصل کر سکتی ہے۔
پاکستان کے جمہوری نظام پر گہری نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے اپنی رپورٹ میں پارلیمنٹ کے ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے ذریعے پارلیمانی نظام پر نظرثانی کی جائے کیونکہ متعدد امیدواروں میں سے زیادہ ووٹ لینے والے کسی ایک امیدوار کو منتخب کرنے والاfirst past the post نظام صحیح معنوں میں عوامی رائے کی نمائندہ اسمبلیوں اور حکومتیں منتخب کروانے سے قاصر ہے۔ فافن نے متناسب نمائندگی کے نظام کو پاکستان کیلئے قابلِ عمل بنانے کی تجویز دی ہے۔دراصل حکومت نے 49 شقوں کو الیکشن ایکٹ 2017ء کا حصہ بنانے کیلئے اصلاحات کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جبکہ ان شقوں کو الیکشن قوانین میں شامل کرنے کے بجائے متناسب نمائندگی کے نظام کا بل پیش کرنا چاہیے تھا اور ملک کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتیں اس کی تائید کرتیں اور بل بھی غیر متنازع طور پر قابلِ قبول بنایا جا سکتا تھا۔حاصلِ کلام یہ کہ ترین گروپ کے بیشتر ارکان وہی ہیں جنہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی‘ اب وہ اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھ کر علیحدہ گروپ کی تشکیل دیتے ہیں تو ان پر فلور کراسنگ کی شق لاگو نہیں ہوتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں