"KDC" (space) message & send to 7575

الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ایشو

الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا معاملہ حکومت کی حکمت عملی کی وجہ سے متنازع دائرے میں داخل ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے یہ ٹوئٹ حذف کر کے غلطی تسلیم کر لی تو پھر حکومت کے ترجمان کو الیکشن کمیشن پر تنقید نہیں کرنی چاہیے تھی۔ میرے خیال میں حکومتی ادارے الیکشن کمیشن کے مقابل کھڑے ہو کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے مجوزہ بل کو خود ہی متنازع بنا رہے ہیں۔میری اطلاع کے مطابق گزشتہ ہفتے وزارتِ پارلیمانی امور کی طرف سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بریفنگ کے لیے الیکشن کمیشن کے پانچوں ارکان بشمول چیف الیکشن کمشنر کو ایوانِ صدر میں مدعو کرنے کے لیے باقاعدہ سرکاری دعوت نامہ بھیجا گیا۔ بادی النظر میں ایسی سرکاری دعوت الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور آئینی غیرجانبداری کو متنازع بنانے کے مترادف تھا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے جوابی خط میں وزارت پارلیمانی امور کو باور کرایا کہ اصولی طور پر وزارت پارلیمانی امور کے حکام کو الیکشن کمیشن میں آ کر بریفنگ دینی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کے اس جوابی خط کے ذریعے وزارت ِ پارلیمانی امور کی دعوت کو شائستہ انداز میں مسترد کر دیا گیا۔ صدرِ مملکت کو بھی اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے کہ کون وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر الیکشن کمیشن کو ایوانِ صدر میں بلا کر رولز آف بزنس کی خلافت ورزی کر رہا ہے‘ جبکہ آئین کے آرٹیکل 204 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10 کے تحت الیکشن کمیشن کے ارکان کی حیثیت ہائی کورٹ کے ججز کے برابر ہے جبکہ چیف الیکشن کمشنر کا مقام سپریم کورٹ کے معزز جج کے برابر ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ ماضی میں صدرِ مملکت الیکشن کمیشن میں ذاتی طور پر بریفنگ لینے کے لیے آتے رہے ہیں جن میں صدر ضیاء الحق‘ غلام اسحاق خان‘ فاروق لغاری اور صدر پرویز مشرف شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اپنی 21 مئی کی پریس ریلیز میں یہ واضح کیا تھا کہ الیکشن کمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کی تائید کرتا ہے مگراس سلسلے میں سکیورٹی کے معیار کو مدِنظر رکھنا اور انتہائی محتاط طریقے سے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ انتخابات کا انعقاد شفاف‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انداز سے یقینی بنایا جا سکے۔اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں تمام متعلقہ افسران شامل ہوں گے جو اس سلسلے میں ابھی تک جتنا کام ہوا ہے اس کو اکٹھا کریں گے اور اپنی سفارشات کے ساتھ کمیشن کے ارکان کو بریفنگ دیں گے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو پائلٹ پراجیکٹ کی جو رپورٹ دسمبر 2017ء اور اپریل 2020ء کو دوبار بھیجی تھی اس کے حوالے سے بھی یہ پتہ چلا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ میں وہ رپورٹس پیش کرنے جا رہی ہے‘ لہٰذا اس کے نتائج سے بھی الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا جائے تاکہ اس سے بھی استفادہ کیا جا سکے۔
میں جناب صدرِ مملکت اور محترم وزیراعظم سمیت ملک کی اہم شخصیات کو دستاویزات بھیج چکا ہوں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین‘ انٹرنیٹ بیلٹ اور بائیو میٹرک سسٹم کے تحت انتخابات سے مزید انتخابی خلفشار ہی پیدا ہوگا اور ہارنے والی جماعتیں دعویٰ کیا کریں گی کہ ایک خاص جماعت کی کامیابی کے لیے پہلے ہی ووٹ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں چپ کے ذریعے فیڈ کر دیے گئے تھے۔دراصل الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو آپریٹ کرنے والے یہی پریذائیڈنگ افسران ہوں گے جو اپنا ہنر ڈسکہ کے انتخابات میں اور کسی حد تک کراچی کے حلقہ 249 میں دکھا چکے ہیں۔ 25جولائی 2018ء کے انتخابات میں نتائج کی الیکشن کمیشن کو فوری ترسیل کے لیے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم ایجاد کیا گیا تھا۔ نادرا نے اس کا سافٹ ویئر تیار کرنے کے لیے 18 کروڑ روپے الیکشن کمیشن سے وصول کیے تھے ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی اُس وقت کی انتظامیہ نے اعلیٰ حکام کو آرٹی ایس پر مکمل بریفنگ دی تھی اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا تھا‘ لیکن یہ سسٹم اچانک رات نو بجے فلاپ ہو گیا ۔تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا سسٹم خراب نہیں ہوگا جبکہ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ غیر تعلیم یافتہ ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی دس کروڑ آبادی ناخواندہ ہے ‘ اس حساب سے تقریباً چھ کروڑ ووٹرز ناخواندہ ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی نہ کمپیوٹر کے استعمال سے آگاہ ہیں نہ انہیں اس کی مشق ہے۔ پھر بیلٹ پیپرز پر امیدوار کے انتخابی نشان کو سمجھنے میں بھی ووٹروں کو دشواری ہوجاتی ہے ‘ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2018ء کے انتخابات میں تقریباً 16 لاکھ ووٹ اس وجہ سے مسترد کر دیے گئے تھے ۔ اس سال سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر بھی اہم شخصیات نے غلط نشانات لگادیے تھے اور ان کے ووٹ مسترد کر دیے گئے تھے اور یوسف رضا گیلانی کو محفوظ راستہ مل گیاتھا۔ اسی طرح چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں غلط نشانات لگانے پر سات ووٹ مسترد ہو گئے ۔ جب حالات یہ ہوں تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بٹن کو استعمال کرنے میں اتنی مہارت کسے ہوگی؟ پھر اس امکان کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں تکنیکی رکاوٹ پیدا ہو جائے یااسے ہیک کر لیا جائے تو پورا انتخابی نظام ہی زمین بوس ہو جائے گا جس کا سارا الزام الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر عائد ہو گا اور ملک بھر میں انتخابی احتجاج کی ایسی لہر اٹھے گی جس سے ملک میں امن و امان کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ نگران حکومت کی گرفت چونکہ کمزور ہوتی ہے لہٰذا وہ ان حالات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو گی۔ ہم ابھی ٹیکنالوجی میں اتنے ماہر نہیں ہوئے کہ عام انتخابات کے لیے ایسے تجربات کے دور میں داخل ہوجائیں۔ مجھے حیرت ہے کہ حکومت اس سسٹم کو لاگو کرنے کے لیے آرڈیننس کا سہارا لے رہی ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 218 سے مطابقت نہیں رکھتا۔
میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان میں 1951ء سے اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے عوام اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے میں ناکام رہے‘ یعنی کوئی الیکشن شفاف نہیں ہوا۔ جو لوگ 1970ء کے انتخابات کو مثالی قراردیتے ہیں انہیں شاید علم نہیں کہ اُن انتخابات میں بھی بہت کچھ ہوا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں 49 ترامیم کا جو بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے اس میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 17 اور 20 میں ترامیم کی تجویز دیتے ہوئے حلقہ بندیاں مردم شماری کے بجائے انتخابی فہرست کی بنیاد پر کرانے کی تجویز شامل ہے۔بادی النظر میں یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 24 اور 25سے مطابقت رکھتی ہے‘ اس سے برابر ی کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا تعین ہو جائے گا۔ اپوزیشن اور حکومت کے پارلیمانی ماہرین اس ترمیم کے بارے میں غور کریں‘ مخالفت برائے مخالفت سے گریز کریں۔
حکمران جماعت کی داخلی سیاسی صورتحال سے واضح ہے کہ وزیراعظم عمران خان جہانگیر ترین گروپ کے دباؤ میں نہیں آئے۔ وزیراعظم اپنی سیاست کے روزِ اول ہی سے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اگرچہ تاحال انہیں مشکلات ‘ رکاوٹوں اور مخالفتوں کا سامنا ہے اور ان کی امیدوں کی فصل ابھی ثمر آور نہیں ہوئی‘ اس کے باوجود عمران خان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ چوہدری نثار علی خان کے حلف میں جو تکنیکی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی اس پر سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو نوٹس لینا چاہیے‘ قانونی طور پر الیکشن کمیشن کو چوہدری نثار علی خان کے خلاف کارروائی کا آئینی و قانونی اختیار نہیں ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 223اور 64 خاموش ہیں اور آرڈیننس کے پچھلی تاریخ سے کارروائی کرنے کو بھی بدنیتی تصور کیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں