"KDC" (space) message & send to 7575

قومی زبان بولنے والوں کی تعداد میں کمی

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق قومی زبان اُردو بولنے والوں کی تعداد میں گزشتہ 19سال میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ادارہ شماریات نے 2017ء میں ہونے والی مردم شماری سے متعلق اہم اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن میں ملکی آبادی کو مادری زبان بولنے والوں کی کسوٹی پر جانچا گیا ہے جس سے کچھ اہم حقائق سامنے آئے ہیں مثلاً 1998ء میں 7.57 فیصد لوگوں کی مادری زبان اُردو تھی جو کم ہو کر اب 7.08 رہ گئی ہے۔ سب سے زیادہ کمی پنجابی بولنے والوں کی تعداد میں ہوئی جو کہ 44.15 سے کم ہو کر 38.78 فیصد رہ گئی ہے‘ اگرچہ اس کمی کے باوجود پنجابی اب بھی ملک کی سب سے بڑی زبان ہے۔ بلوچی بولنے والوں کی تعداد میں بھی کمی ہوئی ہے۔یہ زبان بولنے والے 1998ء میں مجموعی آبادی کا 3.57 فیصد تھے ‘ جو اب کم ہو کر 3.02 رہ گئے ہیں‘ البتہ سندھی‘ پشتو اور سرائیکی بولنے والوں کی تعداد میں گزشتہ بیس برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 1998ء میں مجموعی آبادی کے 14.10 فیصد کی زبان سندھی تھی‘ اب یہ تعداد 14.57 فیصد ہو گئی ہے۔ پشتو بولنے والے افراد 1998ء میں کل آبادی کا 15.426 تھے جو اَب 18.24 فیصد ہیں جبکہ سرائیکی بولنے والوں کی تعداد 1998ء میں 10.53 سے بڑھ کر اب 12.19 فیصد ہو گئی ہے۔ اس طرح پنجابی زبان کا پہلا‘ پشتو کا دوسرا‘ سندھی کا تیسرا‘ سرائیکی کا چوتھا اور اُردو کا پانچواں نمبر ہے۔
محکمہ شماریات کی یہ رپورٹ لمحہ فکریہ ہے کہ قومی ترویج کے متعدد ادارے موجود ہونے اور ان اداروں کو حکومت سے سالانہ اربوں روپے کی گرانٹ ملنے کے باوجود حالت یہ ہے کہ قومی زبان پانچویں نمبر پر آ گئی ہے۔محکمہ شماریات کی اس رپورٹ کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں زیر بحث لایا جانا چاہیے۔اس سلسلے میں متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت ِ اسلامی کو آگے آنا ہوگا اور مردم شماری کے فارمولے کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہوگا۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کی ازسرِ نو چھان بین بھی کروائی جائے‘ اس سلسلے میں نادرا کے ڈیٹا سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر 2017ء میں مردم شماری کرائی گئی اور ستمبر‘اکتوبر 2017ء میں ابتدائی رپورٹ کا ڈرافٹ بھی سامنے آگیا جس کے نتائج پر صوبہ سندھ کی طرف سے شدید تحفظات سامنے آئے اور حکومت سندھ ہی نہیں متحدہ قومی موومنٹ کا موقف بھی یہ تھا کہ مردم شماری کے اعداد و شمار حقیقی آبادی سے کم ہیں لہٰذا یہ مسئلہ ساڑھے تین سال سے زائد عرصے سے مشترکہ مفادات کونسل کے ایجنڈے پر چلا آ رہا ہے۔ اس متنازع مردم شماری کو قانونی تحفظ دینے اور اس کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرانے کے لیے عبوری گزٹ کو قانونی پوزیشن دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51میں ترمیم کی گئی‘ اس آئینی ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا کہ عبوری گزٹ کے تحت قومی‘ صوبائی اسمبلیوں کے لیے حلقہ بندیاں کروائی جا سکتی ہیں لیکن لوکل باڈیز کے اداروں کے لیے حلقہ بندیاں کرانے کا ذکر نہیں کیا گیا تھا ‘لہٰذا اس قانونی سقم کی وجہ سے الیکشن کمیشن لوکل گورنمنٹ کے اداروں کے لیے حلقہ بندیاں آج تک نہیں کرا سکا۔ اب مشترکہ مفادات کونسل نے بالآخر کثرتِ رائے سے 2017ء کی مردم شماری کو تحفظات کے باوجود منظور کرتے ہوئے نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔وسط اپریل میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی گفتگو سے واضح ہو ا کہ اس بار مردم شماری پرانے طریق کار سے نہیں ہو گی۔ ان کے بیان کے مطابق پلاننگ کمیشن کے سینئر ممبر کی سربراہی میں ایک ٹیکنیکل کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں سرکاری اہل کاروں کے علاوہ مردم شماری پر مہارت رکھنے والے شماریاتی ماہرین بھی شامل ہیں اور کافی حد تک کام مکمل کر چکے ہیں اور جون تک نئی مردم شماری کا فریم ورک مکمل کر لیا جائے گا جس کی مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری کے بعد اسی سال اکتوبر تک مردم شماری کا کام شروع ہو جائے گا جو 18مہینوں پر محیط ہوگا اور 2023ء کے ابتدائی چھ ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ نئی مردم شماری کے ضمن میں تمام شراکت داروں‘ صوبائی حکومتوں اور سول سوسائٹی کا تعاون حاصل کیا جائے گا تاکہ کسی کو کوئی خامی نظر آئے تو اس کی بروقت نشاندہی اور اصلاح ممکن ہو۔ وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کے آڈٹ کا طریقہ نہیں ہے۔بقول ان کے مردم شماری کو منظور کرنا یا مسترد کرنا ضروری ہے جبکہ مردم شماری کو منظور یا مسترد کیے بغیر لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرانے کیلئے حلقہ بندیاں نہیں کرائی جا سکتیں۔ اس صورتحال میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگلی مردم شماری کیلئے دس سال انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ چونکہ 2017ء کے مردم شماری کے نتائج سوالیہ نشان ہیں اس لیے فوری طور پر نئی مردم شماری کرائی جائے۔
حکومتی موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردم شماری پر اخراجات کا تخمینہ 23ارب روپے لگایا گیا ہے جو فراہم کر دیے جائیں گے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ نئی مردم شماری اقوامِ متحدہ کے اصولوں اور دنیا میں مروجہ جدید طریق کار کو بروئے کار لاتے ہوئے کرائی جائے گی۔ اس مرحلے میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ 2023ء کے الیکشن سے پہلے مردم شماری پر حتمی فیصلہ نہ ہوا تو آئینی ترمیم کا استثنیٰ ختم ہونے کے سبب اگلا الیکشن 1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوگا جس کے نتیجے میں صوبوں کو نقصان ہوگا۔ حکومت کا موقف کمزور دلائل کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ ایک طرف صوبہ سندھ کو دباؤ میں لانے کے لیے 1998ء کی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کرانے کا عزم کیے ہوئے ہے اور دوسری جانب صدارتی آرڈیننس کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 103میں ترمیم کرنے کی سفارش کرتے ہوئے حلقہ بندیاں انتخابی فہرستوں کی بنیاد پر کروانے کے لیے ترمیمی بل پیش کر دیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ پلاننگ کمیشن اور وزیراعظم آفس کے آئینی و قانونی ماہرین کو یہ ادر اک نہیں کہ 1998ء کی مردم شماری کو سامنے رکھتے ہوئے 2023ء کے انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ وزیراعظم آفس کے آئینی ماہرین شاید الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کرانے کے لیے جاری کئے گئے صدارتی آرڈیننس کے خدوخال سے نابلد ہیں۔ اگر انتخابی فہرستوں کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرانے کی ترمیم منظور نہیں ہوتی تو 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 2023ء کے انتخابات کرانے سے دھاندلی کی عظیم عمارت کھڑی ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے کیونکہ 1998ء میں ملک کی آبادی 12کروڑ تھی جبکہ 2023ء میں آبادی 23کروڑ سے متجاوز ہو گی‘ لہٰذا الیکشن کمیشن کو پولنگ سکیموں‘ پولنگ سٹیشنوں اور دیگر مراحل طے کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مردم شماری فوج کی نگرانی میں کرائی جائے یا نہ کرائی جائے اس کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کو کرنا ہے‘ بہرحال حکومت نے آئندہ انتخابات کے لیے کئی محاذ کھول دیے ہیں۔ ایک طرف دوبارہ مردم شماری کرانے کے لیے اربوں روپے کے فنڈز کا اجرا اور صدارتی آرڈیننس کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری کے لیے ایک کھرب سے زائد کی رقم اور الیکٹرانک ووٹنگ سٹیشنوں کے علاوہ دیگر مد ات میں ڈیڑھ کھرب کے لگ بھگ اخراجات‘ معاشی ابتری کے موجودہ حالات میں پاکستان ایسے میگا اخراجات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ان حالات میں 2017ء کی مردم شماری کو چونکہ آئینی طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے‘ اسی بنیاد پر حلقہ بندیاں ہو چکی ہیں جس پر 2018ء کے انتخابات کرائے گئے‘ اب یہی بہتر ہے کہ نئی مردم شماری کرانے کا ارادہ ترک کر کے 2023ء کے انتخابات شفاف کرانے کے مشن پر آگے بڑھیں۔اس حوالے سے وزیراعظم کو پلاننگ کمیشن کے ماہرین صحیح حقائق نہیں بتا رہے تو وزیراعظم کو دیگر ذرائع سے معلومات حاصل کرنی چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں