"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی شفافیت کا معاملہ

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی انتخابی اصلاحات کے عمل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے انتخابی عمل کی ساکھ یقینی بنانے کیلئے اور اوورسیز پاکستانیوں کو انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت دینے کیلئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر وہ قوم کو باور کرا رہے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے ملک میں انتخابی عمل شفاف ترین ہو جائے گا‘ تاہم محسوس ہوتا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں آئین کے آرٹیکل 219 کی روح کو نہیں سمجھ سکے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن سے متعلق تمام معاملات کا جائزہ لینا اور انتخابات آئین کے آرٹیکل 218‘ 224‘ 226 اور 162 اور 163 کے تحت کروانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے اور تمام امور کا راستہ الیکشن کمیشن ہی سے گزر کر جاتا ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور اوورسیز پاکستانیوں کا انٹرنیٹ کے ذریعے انتخاب میں حصہ لینا انتہائی حساس معاملات کے زمرے میں آتا ہے اور الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے کا آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت استحقاق رکھتا ہے۔ صدر مملکت اگرچہ انتخابی اصلاحات کی باریکیوں کو بخوبی سمجھتے ہیں اور انتخابی امور پر ان کی گہری نظر بھی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے ایکٹ 2017ء کی ترتیب و تدوین میں ان کی اِن پٹ قابلِ تحسین رہی ہے۔ وہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے فعال ممبر تھے؛ اگرچہ ان کی بہت ہی قابلِ عمل اصلاحات‘ اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین زاہد حامد نے نظر انداز کر دی تھیں اور ان کے علم میں لائے بغیر ختم نبوت کے بارے میں حلفیہ بیان کے بجائے اقرار نامہ شامل کر کے ملک میں ہنگامہ آرائی کی بنیاد بھی رکھ دی گئی‘ جسے بعد ازاں صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بر وقت مداخلت سے اور زاہد حامد کے مستعفی ہونے سے احسن طریقے سے طے کر لیا گیا۔ اسی طرح کاغذاتِ نامزدگی کے اہم فارم میں انہی صاحب نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ممبر عارف علوی کے علم میں لائے بغیر تبدیلی کر دی تھی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اپنے اہم فیصلے میں کاغذات نامزدگی کا فارم آئین کے آرٹیکل 126 (1) ایف سے منسلک کر دیا۔ جناب عارف علوی کی تجویز پر الیکشن میں شفافیت اور پولنگ سٹیشنوں پر رزلٹ میں تحریف کے ازالے کے لیے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم بھی شامل کیا گیا تھا‘ جو نادرا کی نا اہلی کی وجہ سے 25 جولائی 2018ء کی رات کو اچانک فلاپ ہو گیا اور الیکشن کمیشن آج تک اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ یہ ٹیکنالوجی کیسے فلاپ ہو گئی۔ بادی النظر میں الیکشن کمیشن کی اس وقت کی انتظامیہ اس سسٹم کو بچانے میں ناکام رہی۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر نے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کیبنٹ سیکرٹری کو اس سسٹم کی ناکامی اور پراسرار آوازوں کا کھوج لگانے کے لیے خطوط لکھے لیکن بار بار یاددہانی کے باوجود کیبنٹ ڈویژن نے آر ٹی ایس کی نا کامی پر تحقیقات کرانے میں الیکشن کمیشن کے خطوط کا جواب نہیں دیا‘ اور نادرا کے اس وقت کے چیئرمین جو اس آرٹی ایس کے موجد تھے‘ الیکشن کمیشن پر ہی ذمہ داری ڈال کر لا تعلق ہو گئے۔ اب اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اور انٹر نیٹ ووٹنگ سسٹم بھی نا کام ہو جاتا ہے تو پھر اس کی ذمہ داری کس ادارے پر عائد کی جائے گی؟ اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان جولائی 2018ء جیسا ادارہ نہیں رہا۔ اب اس کی باگ ڈور انتہائی قابل‘ غیر جانبدار قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس جیسی قیادت جولائی 2018ء میں ہوتی تو ممکن ہے وہ تحقیقات کے رزلٹ آنے تک پارلیمنٹ کے انتخابات کا گزٹ نوٹی فکیشن معطل کر دیتی‘ لہٰذا ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی کی وجہ سے صدر مملکت کو الیکشن کے معاملات سے الگ تھلگ رہنے کا عاجزانہ مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے۔ صدر مملکت کے آباؤاجداد نے تحریک پاکستان میں نمایاں خدمات سرانجام دی تھیں‘ ان کا منصب غیر جانب داری کا مظہر ہے‘ لہٰذا بہتر ہے کہ وہ اپنے دامن پر جانب داری کا نشان نہ لگنے دیں۔
مثال کے لئے میں مئی 2013ء کے انتخابات کے ایک واقعہ کی طرف آ رہا ہوں۔ مئی 2013ء کے انتخابات کے وقت ایک سابق چیف جسٹس نے ریٹرننگ آفیسرز کو خطوط لکھے اور اجلاس کی صدارت کی۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل میں گھرے ہوئے تھے‘ وہ بے بس تھے؛ چنانچہ الیکشن کے معاملات میں مداخلت پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ میں نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس مداخلت پر تنقید کی تھی اور اُس وقت کے چیف جسٹس اور آرمی چیف کو خطوط بھی لکھے کہ ممکنہ طور پر ریٹرننگ افسران کے ذریعے الیکشن میچ فکس کیا جا رہا ہے۔ بطور اپوزیشن رہنما عمران خان نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا‘ اور چیف جسٹس (اب سابق) ناصرالملک کی سربراہی میں قائم کمیشن میں اس طریقہ کار کیخلاف دلائل دیے تھے اور میں نے بھی چیف جسٹس کو اس نکتے پر رپورٹ پیش کی تھی۔ اسی طرح اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ ووٹنگ کا سسٹم غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے فلاپ ہو گیا تو ملک میں احتجاج کی ایسی لہر اُٹھ کھڑی ہو گی اور لوگوں کا آتش فشانی احتجاج دیکھنے میں آئے گا کہ ملک میں آئین کے آرٹیکل پانچ کی عملی صورت سامنے آ جائے گی اور الیکشن کمیشن ممکنہ طور پر صدرِ مملکت پر ذمہ داری ڈال کر نادرا کی طرح لا تعلق ہو جائے گا اور قوم کا دو کھرب کا کثیر سرمایہ ڈوب جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کے پریس نوٹ سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے ان کو باور کرایا کہ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے نئے ماڈل بنوانے کے بارے میں ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ہے۔ دراصل حکومتی ترجمان اور بعض وزرا کو اس اہم تکنیکی اور حساس نوعیت کے معاملے کا ادراک نہیں ہے۔ حکومتی اداروں کی رہنمائی کے لیے میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ایک اہم فیصلہ کی طرف آتا ہوں۔ انڈین الیکشن کمیشن نے 1980ء میں پہلی مرتبہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے شروع میں صرف 50 پولنگ بوتھوں پر تجربہ کیا‘ واضح رہے کہ ہر پولنگ سٹیشن پر چار پولنگ بوتھ ہوتے ہیں‘ اور یہ سلسلہ آہستہ آہستہ جاری رہا اور جب 1984ء میں ریاست کیرالہ میں انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروائے گئے تو سپریم کورٹ آف انڈیا نے انہیں غیر آئینی‘ غیر قانونی قرار دے کر ریاست کیرالہ کے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پہلی مرتبہ انڈین الیکشن کمیشن کی سخت الفاظ میں سرزنش کی اور قانون سازی کا حکم دیا۔ اس صورت میں انڈین الیکشن کمیشن کو تین سال کے عرصے میں قانون سازی کروانا پڑی اور انڈین آئین میں باقاعدہ ترمیم کرانا پڑی‘ جبکہ ہمارے ملک میں اس اہم معاملے پر صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جا رہا ہے جو نا موافق حالات میں قابلِ عمل نہیں ہے۔ صدارتی آرڈیننس میں سیاسی جماعتوں کے مفادات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے جبکہ اہم اصلاحات کی طرف توجہ نہیں دی گئی جیسا کہ اسمبلیوں کی مدت میں کمی کرکے چار سال کر دی جائے‘ پارٹیوں میں جماعتی انتخابات الیکشن کمیشن کی نگرانی میں کرائے جائیں‘ پارٹی کی سربراہی میں بھی مدت تعین کرتے ہوئے تیسری بار کسی بھی عہدے کے لیے راستہ مسدود کر دیا جائے‘ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی ممانعت کی جائے‘ غیر ممالک میں سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر پابندی عائد کی جائے اور جن سیاست دانوں کی غیر ممالک میں جائیدادیں ہیں ان کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کی ممانعت کی جائے‘ بینکوں سے قرضے معاف کرانے والے سیاست دانوں کو بھی انتخابات کے لیے نا اہل قرار دیا جائے۔ میرے خیال میں ایسی تجاویز سے ملک میں شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں