"KDC" (space) message & send to 7575

صدارتی پلس پارلیمانی نظام ؟

واجد ضیا جو پانامہ کیس میں اپنی غیر جانب داری کو برقرار رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانامہ بینچ سے'' پاکستان کا قیمتی ہیرا‘‘ جیسے الفاظ میں نمایاں تعریف کے حق دار قرار پائے تھے، ان کو اب جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ سے مفاہمت اور سید علی ظفر کی غیر تحریری سفارشات کی روشنی میں تبدیل کر کے غیر اہم پوسٹ پر نامزد کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ پر صوبہ خیبر پختونخوا کے آئی جی ثناء اللہ عباسی کو ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے مقرر کر دیا ہے۔ بظاہر یہ معمول کی تبدیلی کے زمرے میں آتا ہے لیکن اس کو اگر موجودہ کشمکش اور قومی اور صوبائی بجٹ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ غیر معمولی نوعیت کا واقعہ محسوس ہو گا اور اس اہم تبدیلی کے تناظر میں حکومت کو جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ کی فعالیت سے ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اس تبدیلی کے پس پردہ وزیر اعظم عمران خان قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھیں گے اور قومی بجٹ اور صوبائی بجٹ آسانی سے منظور کروا کر پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط و مستحکم کرنے کے جو ارادے ظاہر کر چکے ہیں ‘ ان پر ممکن ہے عمل کروا سکیں۔
واجد ضیا عام بیوروکریٹ نہیں ہیں‘ وہ غیر معمولی حیثیت اور صلاحیت کے حامل بیوروکریٹ ہیں۔ اب ان کو معمول کے مطابق پوسٹ پر نامزد کر کے ان کے اختیارات سے ہوا نکال دی گئی ہے۔ اگر حکومت ان کی عزت افزائی کرتی تو ان کو وفاقی سیکرٹری داخلہ بھی لگایا جا سکتا تھا لیکن وزیر اعظم نے اپنے دست راست پرنسپل سیکرٹری محمد اعظم خان کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے ملک کی بیورو کریسی پر مکمل گرفت حاصل کر لی ہے اور ماضی کے وزرائے اعظم کی جو ٹیم بیورو کریسی میں پر پرزے نکال رہی تھی اب ان کو بے کس، مجبور اور مفاہمت پسند بنا دیا گیا ہے۔ یہی وزیر اعظم عمران خان کی بڑی کامیابی ہے کیونکہ خطے میں جو حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کے آگے بند باندھنے کے لیے وزیر اعظم کو مضبوط کردار کی بیورو کریسی کی ضرورت ہے۔ ملکی ترقی میں وزیر اعظم اور وزارتِ خارجہ کے ساتھ ساتھ وزارت خزانہ اور وزارتِ اقتصادی امور کا بھی اہم دخل رہے گا۔ ہر ملک کے نظامِ حکومت میں وزارتِ خزانہ کا اہم ترین رول ہوتا ہے، تاہم اسد عمر اور حفیظ شیخ وزارت خزانہ کے مایوس کن کردار رہے۔ میرے نزدیک حفیظ شیخ نے حکومت کو گزشتہ ڈھائی سال میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ گزشتہ حکومتوں میں جب وہ وزیر خزانہ تھے تو ان کو کنٹرول کرنے میں پس پردہ اہم ادارے موجود تھے۔
نظامِ حکومت پارلیمانی ہو یا صدارتی، کابینہ اس کا اہم ترین حصہ ہوتی ہے کیونکہ کابینہ میں موجود وزرا ہی در حقیقت پورے ملک کا نظام چلاتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں وہی حکومت کامیابی سے ملکی امور چلا کر ملک کو مسائل سے نکال سکتی اور ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے جس کی کابینہ با صلاحیت افراد پر مشتمل ہو اور اسے اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کا بھی مناسب وقت ملے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت انتہائی غور و خوض کے بعد ہی اپنے بہترین نمائندوں کو وزارتوں کے قلم دان دیا کرتی ہے تاکہ وہ حکومتی امور کو بخوبی سرانجام دے سکیں۔ لازمی امر ہے کہ اس میں وقت بھی درکار ہوتا ہے لیکن اب تین سال ہونے کو ہیں‘ لہٰذا کابینہ اگر فعال نہ ہوئی تو مزید دو سال بھی خطرے کی گھنٹی بجتی رہے گی۔ موجودہ کابینہ کے بعض وزرا کی کارکردگی، ان کے پس پردہ محرکات‘ اپوزیشن کو بلا وجہ اشتعال اور جہانگیر ترین گروپ کو وزیر اعظم سے الگ تھلگ کرنے کی سازش وزیر اعظم کے لیے قابل غور ہیں۔ اس وقت پاکستان بلا شبہ اقتصادی بحران کا شکار ہے جس کے بارے میں حکومتی مؤقف بار بار سامنے آ چکا ہے کہ اس کی وجہ ملکی قرضے ہیں جن کی ادائیگی کے لیے حکومت کو مزید قرض لینا پڑ تا ہے‘ تاہم دوست ممالک سے مالی معاونت کے باوجود حالات قابو میں آنے کے بجائے دگرگوں ہوتے چلے گئے ہیں۔ ڈالر کی قیمت مقرر ہی نہیں کی گئی ‘ پٹرولیم مصنوعات اور غذائی اشیا کی قیمتیں بھی بہت بڑھ گئی ہیں اس حوالے سے نہ صرف حکومت تنقید کی زد میں آ رہی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملکی معاملات پر اثرات مرتب ہونا بعید از قیاس نہیں۔ یہ بات بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ جن وزراء کو کابینہ میں اہم وزارتیں دی گئی ہیں وہ دوسری سیاسی جماعتوں کی حکومتوں میں بھی اہم عہدوں پر رہ چکے ہیں‘ جن پر ملکی معیشت تباہ کرنے کے الزامات ہیں۔ اب اگلے بجٹ کی منظوری کے بعد وزیر اعظم کو کابینہ میں اہم تبدیلیاں کرنا ہوں گی کیونکہ 2022ء اصولی طور پر انتخابی سال کی پہلی سیڑھی ہو گا۔ بظاہر وزیر اعظم کی موجودہ ٹیم ملک کو مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے مگر یہ ٹیم کس حد تک اثر انداز ہوتی ہے‘ اس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہو گا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاسے پاکستان کے شدید خطرات میں گھر جانے کا اندیشہ بھی خارج از امکان نہیں، لہٰذا وزارتِ خارجہ میں اہم تبدیلیاں ملکی مفاد میں ہوں گی۔ چین پاکستان اقتصادی راہ داری، افغانستان، ایران، ترکی اور مشرقِ وسطیٰ کا ایک عظیم بلاک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں سیاسی، معاشی، امن و امان کا مثالی استحکام ہو‘ اس کے لیے وژنری قیادت کی ضرورت ہے‘ جس طرح 1960ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان بین الاقوامی سطح پر ایک عظیم رہنما کی حیثیت سے اُبھرے تھے جن کی قائدانہ صلاحیت اور ویژن کو امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس، جرمنی، مشرقِ بعید اور مشرقی وسطیٰ کے حکمرانوں نے بھی تسلیم کیا تھا‘ ان کی پشت پر پاکستان کا داخلی استحکام تھا۔ پاکستان میں اقتصادی راہ داری کو اس کی اصل روح کے مطابق آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے موجودہ پارلیمانی نظام میں اصلاح کی جائے۔
حکومت آئندہ انتخابات جس طریقے سے کرانے کا عزم ظاہر کر رہی ہے اس سے ہارنے والی سیاسی جماعتوں میں بے چینی بڑھ جائے گی جس سے سیاسی حوالوں سے نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اس معاملے کو گہری نظر سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے سفیر کی غیر معمولی سفارتی سرگرمیوں سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ‘چین کے سفیر کو پاکستان کا استحکام اور ترقی عزیز ہے لہٰذا وہ اپوزیشن کے اہم رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں اور مسلح افواج کی قیادت سے تو ان کی غیر معمولی ملاقاتیں معمول کا حصہ ہے۔ پاکستان کے اہم اور غیر اہم وزرا سے بھی ان کا رابطہ ہے اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے اینکرپرسنز سے بھی ان کا رابطہ ہے اور بعض میڈیا ہاؤسز سے بھی ان کے مفاہمت کے مسودات پر دستخط ہو چکے ہیں۔ ان کی کارکردگی قابلِ رشک ضرور ہے لیکن وزیر خارجہ اور وزیر اقتصادی امور کو چاہیے کہ چین کے سفیر کو ان کی رہنمائی کے لیے مکمل بریفنگ دیں ۔
پاکستان میں انتخابی اور سیاسی عمل کو مؤثر بنانے اورپاکستان کے استحکام کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک آئینی کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے جو پاکستان کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئے عمرانی معاہدے پر اپنی سفارشات پیش کرے اور جس کے تحت پاکستان میں صدارتی پلس پارلیمانی نظام کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لیا جا سکے کہ یہ قابلِ عمل ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کے ممکنہ نفاذ کے کے کیا امکانات ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں