"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کے آئینی تحفظات

قومی اسمبلی میں ہونے والی بد نظمی کسی صورت مناسب نہیں تھی۔ یہ اس موقف کو تقویت دینے کے مترادف ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان ملک چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے‘ اور طرفین نے جس انداز سے ایوان کے تقدس کو پامال کیا اس سے قوم کا موجودہ پارلیمانی سسٹم پر سے اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ اس گالی گلوچ سے حکومت کو فوری طور پر یہ فائدہ پہنچا ہے کہ ایوان میں جو بجٹ پیش کیا گیا تھا اس شور شرابے میں کامیابی کے مراحل سے گزر رہا ہے‘ اور اشرافیہ کے بجٹ کی خامیاں اس پارلیمانی جنگ میں دب کر رہ گئی ہیں۔ یہی حکومت کی حکمت عملی تھی۔ اپوزیشن کے ارکان کو وزیر خزانہ شوکت ترین کی بجٹ تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی سے گریز کرنا چاہیے تھا اور بجٹ کے مندرجات کا مطالعہ کرنے کے بعد موثر احتجاج کرنا چاہیے تھا‘ مگر قومی اسمبلی کے اندر ہنگاموں نے پورا ذہنی منظرنامہ ہی تبدیل کر دیا ہے اور لگتا ہے کہ اب ایک اور معرکہ بھی برپا ہونے کے قریب ہے کیونکہ حکومت معیشت کو پروان چڑھانے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن اور حکومت آمنے سامنے کھڑے محسوس ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اپنے تاریخی سفر میں پہلی مرتبہ حکومت کے الیکشن ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان کو باور کرا دیا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی 13 شقیں آئین سے متصادم ہیں۔ بل کی تیاری کے وقت الیکشن کمیشن کے تحفظات و خدشات کو یکسر مسترد کرنا دانش مندی نہیں تھی‘ مگر الیکشن کمیشن نے دانش مندی سے وزیر اعظم کو آگاہ کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 72 ترامیم میں سے 45 پر اعتراضات اُٹھائے ہیں۔ جناب وزیر اعظم کو ادراک ہونا چاہیے کہ پارلیمان اور الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم اعتماد سے معاملات ایک نیا رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ تاثر یہ ملتا ہے کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ اس نظام میں اشرافیہ نے پاکستان کے 99 فیصد غریب عوام کو یرغمال بنا کر رومن ایمپائر کی یاد تازہ کر دی ہے۔ جن ارکان اسمبلی نے 11 جون کو ایک قومی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں اشارے کیے وہ قومی اسمبلی کا رکن بننے کے ہی اہل نہیں رہے۔ سپیکر قومی اسمبلی یہ تماشا دیکھتے رہے اور قومی سیاسی جماعت کے ارکان قومی اسمبلی بھی بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اس سے لگتا ہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر اپنی غیر جانبداری کے استحقاق سے محروم ہو چکے ہیں کیونکہ ان کی حکمران جماعت نے ہی ان پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ان کی وارننگ کو نظرانداز کر دیا تھا۔ حکومت نے مزید دو سال مکمل کرنے ہیں اور 2023ء کے انتخابات کے میدان میں اترنا ہے‘ لہٰذا اسے غیر جانب دار شخصیت کے حامل افراد کو آگے لانا چاہئے۔ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر براجمان تین خواتین ارکان بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی منتظر ہیں۔ وفاقی وزرا اور وزیر اعظم کے قانونی‘ آئینی ماہرین کو ادراک ہونا چاہیے کہ قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 53 کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے ضابطہ اخلاق کے تحت اختیارات ہیں کہ جو ارکان قومی اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت کے موجب بنتے ہیں‘ ان کو غیر معینہ مدت کے لیے پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روک سکتے ہیں اور ان اراکین کے خلاف قومی اسمبلی کی کارروائی کو روکنے کے الزام میں آئین کی خلاف ورزی کرنے پر نااہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات واضح ہیں اور ملک کے ممتاز قانون دان اس بارے میں واضح طور پر وزیراعظم پاکستان کو بریف کر سکتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی کے رولز کونظرانداز کرکے اپنے ہی اختیارات پر قدغن لگائی ہے۔ ان کو ہنگامہ کرنے والے ارکانِ اسمبلی کے نام لے کر ان کو سارجنٹ آفیسرز کے ذریعے ایوان سے باہر نکالنے کے واضح احکامات دینا چاہئے تھے اور بعد ازاں وزیراعظم کو ان ارکان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کے لیے سمری روانہ کرنی چاہیے تھی۔
حکومتی ترمیمی بل کی آڑ میں الیکشن ایکٹ سیکشن 24‘ 26‘ 28‘ 30‘31‘32‘33‘34‘36 اور 44 کو حذف کر دیا گیا اور یہ تمام اختیارات نادرا کو تفویض کر دیے گئے۔ یہ اہم دفعات انتخابی فہرست ایکٹ کا حصہ تھیں اور آئین کے آرٹیکل 219 (اے) کے تحت الیکشن کمیشن کے بنیادی فرائض میں شامل تھیں۔ ان حذف شدہ دفعات کا الیکشن کی شفافیت سے تعلق ہے۔ چونکہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے‘ اس لیے آئینی ماہرین کو ان اہم دفعات کے حذف کرنے کے مقاصد پر روشنی ڈالنی چاہیے اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکرٹری کو بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ ان کو حذف کرنے کے پس پردہ کیا عوامل ہیں۔ یہ وزارتِ پارلیمانی امور کے سیکرٹری کے لیے بھی امتحان ہے کہ وہ اس ضمن میں وزیراعظم کو براہ راست آگاہ کریں کیونکہ وزارت پارلیمانی امور کا وفاقی وزیر نہ ہونے کی وجہ سے یہ اہم وزارت براہ راست وزیراعظم کے ماتحت ہے اور مشیر بابر اعوان کے دائرہ کار میں نہیں آتی‘ ان کا کام صرف مشاورت کی حد تک ہے۔ وہ ضرورت کے وقت کسی ترمیمی بل کی تیاری میں مشاورت دینے کے ہی روادار ہیں۔
ان شقوں کے حذف کرنے سے خدشہ لاحق ہے کہ حکومت کی عدم توجہی سے انتخابی فہرست کی دفعات حذف شدہ دفعات کی زد میں نہ آ گئی ہوں۔ بد قسمتی سے اپوزیشن کے ہاں تھنک ٹینک کا فقدان ہے۔ وہ اپنے مقدمات میں ریلیف لینے سے آگے کی سوچ سے محروم ہیں‘ اور ان کے سوشل میڈیا پرسنز شخصیت پرستی سے آگے نہیں سوچتے اور حکومتی ترامیم کے خدوخال جاننے اور پس پردہ محرکات سے پردہ اُٹھانے کی ان میں صلاحیت نظر نہیں آتی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ وزیراعظم الیکشن ایکٹ ترامیم کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے سید علی ظفر اور ڈاکٹر فروغ نسیم پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے ان ترامیم کو غیرآئینی اور غیر قانونی قرار دے کر بادی النظر میں حکومت پر عدم اعتماد کر دیا ہے‘ جس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر حکومت کی حکمت عملی سے سینیٹ سے یہ ترامیم منظور ہو جاتی ہیں تو پھر الیکشن کمیشن کو لامحالہ سپریم کورٹ میں ان متنازع ترامیم کے خلاف ریفرنس دائر کرنا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کو ان دفعات پر گہری سوچ بچار کرکے ہی کوئی فیصلہ سنائے گی۔ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے ریفرنس کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے تو حکومت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہوگا۔
متحدہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حکومتی الیکشن بل کے لیے کُل جماعتی کانفرنس بلانے کا جو فیصلہ کیا‘ اس سے الیکشن کمیشن کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ متحدہ اپوزیشن کے سربراہ کو اس کانفرنس میں ملک کے آئینی ماہرین‘ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز‘ پاکستان بار کونسل اور چاروں صوبوں بشمول اسلام آباد کی بار ایسوسی ایشنز اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندوں کو مدعو کرنا چاہیے تاکہ حقائق کا صحیح ادراک آئین و قانون کی روشنی میں سامنے آ جائے۔آئینی ترامیم اور قانون کو بلڈوز کرانے کی روایت 1975ء سے چلی آ رہی ہے۔ ہر حکومت نے اپنی من پسند ترامیم کو منظور کرنے کے لیے ایسے ہی حربے اختیار کیے ہیں۔ اب حکومت نے بلاوجہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں جو تبدیلی لانے کے لیے ترمیمی بل پیش کیا ہوا ہے اس کے سنگین مضمرات ہوں گے۔ نئے قانون کا اطلاق آنے والے وقت پر ہوتا ہے۔ یہ ماضی میں بنے جابرانہ قانون کو تبدیل نہیں کر سکتا‘ جبکہ مخصوص افراد کے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی بدنیتی کے زمرے میں آتی ہے اور جو قوانین بدنیتی کے تحت بنائے جائیں ان کی آئینی حیثیت مشکوک ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں